قصہ بلوچ سرداروں کا دوسرا اورآخری حصہ
آیئے! ہم پہلے اپنا کام کریں اور پھر ان کو مدعو کریں کہ وہ واپس قومی دھارے میں لوٹ آئیں
ان سرداروں کے اگر کسی نے بہت کھلے اور واضح انداز میں انٹرویو ہوئے اور ان کی شخصیت و سیاست پر ان کی زبانی جو آگاہی ہوئی وہ میرے کیے ہوئے انٹرویو تھے، اکبر بگٹی کے پاس ڈیرہ بگٹی پہنچا ، یہ کچھ عرصہ تک عوامی لیگ میں بھی رہے۔ جب خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل و بزنجو نے ان کو نیپ میں جگہ بنانے نہ دی ، بقول اکبر بگٹی کہ یہ راستہ انھوں نے روکا۔ جب کے خیر بخش مری نے مجھے کہا ایسی کوئی بات نہیں ، ان کے تیور ایسے تھے اور پھر کیا ہوا، اکبر بگٹی کو بھٹو نے ان پاپولر بلوچ سرداروں کے خلاف استعمال کیا۔
یہ وہ بلوچ سردار تھے ، جنھوں نے قلات اسمبلی میںپاکستان کی وکالت کی ، وہ پاکستان جناح کا پاکستان، گیارہ اگست کی جناح کی تقریر والا پاکستان اور جب پاکستان جناح والا نہ رہا ، 23 مارچ 1940 کی قرارداد والا نہ رہا تو یہ پھر آہستہ آہستہ اپنا رخ تبدیل کرتے گئے۔
جب میں نے خیر بخش مری سے پوچھا تھا کہ جب آپ نیپ میں تھے اور میرے والد عوامی لیگ میں تھے ، خود جی ایم سید بھی جب بنگالیوں پہ یہ ظلم برپا ہوا ، شیخ مجیب کو اقتدار منتقل نہ ہوا تو آپ کی نیپ مجیب کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئی، یہ جرات خیر بخش مری میں ہی تھی اور انٹرویو میں کہا کہ ''ولی خان کی قیادت میں اس نیپ کے زمانوں میں ہم سینٹرل کمیٹی میں تھے۔ ہم نے موقف رکھا مگر ہماری سنی نہ گئی لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے بنگالیوں کا ساتھ نہیں دیا۔''
یہ سب ہمارے قومی بیانیہ میں غدار ٹھہرے اور ان سب کے گرو تھے خان غفار خان ۔ مگر مورخ جو لکھے گا وہ یہ ہوگا کہ ان کو دیوار سے کس نے لگایا ، وہ جنھوں نے پاکستان کو سرد جنگ کے زمانوں میں امریکا کی کلائنٹ اسٹیٹ بنایا یا وہ جو یہ چاہتے تھے کہ ہمیں اس سرد جنگ کے بھنور میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ ہمیں وہ یونٹ نہیں چاہیے؟ ہم نے یہاں کے مقامی لوگوں کو اپنا غلام سمجھا۔ ان کی مادری زبانوں کو فروغ تو دور کی بات ان کا اپنا اصلی مقام بھی نہ دیا۔ ہم نے مقامی لوگوں کی تاریخ کو مسخ کیا جو ان کے ہیرو تھے ان کا کتابوں سے غائب کیا اور جو حملہ آور تھے وہ ہیرو کیے۔
عطاء اللہ مینگل کو نیشنل میڈیا سے کاٹ دیا گیا،ان کو پابند سلاسل و جلاوطن تو ہم نے کیا مگر پھر ہم نے ان کو گوشہ نشین ہونے پہ مجبور کیا۔
عہدجوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
کچھ گنے چنے سردار تھے ، جو اپنے زمانوں میں اپنے عہد کے سچ کے ساتھ رہے۔ سردار شیر باز مزاری ، سردار خیر بخش مری ، سردار اکبر بگٹی و سردار عطااللہ مینگل۔
ہمارے ایک سردار جعفر جمالی بھی تھے جو جنرل ایوب کے خلاف فاطمہ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور پھر کیا ہوا ، ریاست نے وہ کام کیا جو زمین انگریزوں نے ان کو عنایت کی تھی وہ چھین لی۔ اس طرح سردار جعفر جمالی اور کئی سرداروں کو سبق اور پیغام واپس مل گیا،مگر آخر تک یگانہ و پختہ ڈٹ کے کھڑے رہے، ان سرداروں میں وہ سردار خیر بخش مری تھے، اور سردار عطاء اللہ مینگل ، وہ ہمارے ہیں ۔ ان کا بیانیہ الگ تھا مگر اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ یہ پاکستان جب واپس آئین کی طرف لوٹ آئے گا، جب جناح کی طرف لوٹ آئے گا، یہ سب واپس قومی دھارے میں لوٹ آئیں گے۔ آیئے! ہم پہلے اپنا کام کریں اور پھر ان کو مدعو کریں کہ وہ واپس قومی دھارے میں لوٹ آئیں۔
یہ وہ بلوچ سردار تھے ، جنھوں نے قلات اسمبلی میںپاکستان کی وکالت کی ، وہ پاکستان جناح کا پاکستان، گیارہ اگست کی جناح کی تقریر والا پاکستان اور جب پاکستان جناح والا نہ رہا ، 23 مارچ 1940 کی قرارداد والا نہ رہا تو یہ پھر آہستہ آہستہ اپنا رخ تبدیل کرتے گئے۔
جب میں نے خیر بخش مری سے پوچھا تھا کہ جب آپ نیپ میں تھے اور میرے والد عوامی لیگ میں تھے ، خود جی ایم سید بھی جب بنگالیوں پہ یہ ظلم برپا ہوا ، شیخ مجیب کو اقتدار منتقل نہ ہوا تو آپ کی نیپ مجیب کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئی، یہ جرات خیر بخش مری میں ہی تھی اور انٹرویو میں کہا کہ ''ولی خان کی قیادت میں اس نیپ کے زمانوں میں ہم سینٹرل کمیٹی میں تھے۔ ہم نے موقف رکھا مگر ہماری سنی نہ گئی لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے بنگالیوں کا ساتھ نہیں دیا۔''
یہ سب ہمارے قومی بیانیہ میں غدار ٹھہرے اور ان سب کے گرو تھے خان غفار خان ۔ مگر مورخ جو لکھے گا وہ یہ ہوگا کہ ان کو دیوار سے کس نے لگایا ، وہ جنھوں نے پاکستان کو سرد جنگ کے زمانوں میں امریکا کی کلائنٹ اسٹیٹ بنایا یا وہ جو یہ چاہتے تھے کہ ہمیں اس سرد جنگ کے بھنور میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ ہمیں وہ یونٹ نہیں چاہیے؟ ہم نے یہاں کے مقامی لوگوں کو اپنا غلام سمجھا۔ ان کی مادری زبانوں کو فروغ تو دور کی بات ان کا اپنا اصلی مقام بھی نہ دیا۔ ہم نے مقامی لوگوں کی تاریخ کو مسخ کیا جو ان کے ہیرو تھے ان کا کتابوں سے غائب کیا اور جو حملہ آور تھے وہ ہیرو کیے۔
عطاء اللہ مینگل کو نیشنل میڈیا سے کاٹ دیا گیا،ان کو پابند سلاسل و جلاوطن تو ہم نے کیا مگر پھر ہم نے ان کو گوشہ نشین ہونے پہ مجبور کیا۔
عہدجوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
کچھ گنے چنے سردار تھے ، جو اپنے زمانوں میں اپنے عہد کے سچ کے ساتھ رہے۔ سردار شیر باز مزاری ، سردار خیر بخش مری ، سردار اکبر بگٹی و سردار عطااللہ مینگل۔
ہمارے ایک سردار جعفر جمالی بھی تھے جو جنرل ایوب کے خلاف فاطمہ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور پھر کیا ہوا ، ریاست نے وہ کام کیا جو زمین انگریزوں نے ان کو عنایت کی تھی وہ چھین لی۔ اس طرح سردار جعفر جمالی اور کئی سرداروں کو سبق اور پیغام واپس مل گیا،مگر آخر تک یگانہ و پختہ ڈٹ کے کھڑے رہے، ان سرداروں میں وہ سردار خیر بخش مری تھے، اور سردار عطاء اللہ مینگل ، وہ ہمارے ہیں ۔ ان کا بیانیہ الگ تھا مگر اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ یہ پاکستان جب واپس آئین کی طرف لوٹ آئے گا، جب جناح کی طرف لوٹ آئے گا، یہ سب واپس قومی دھارے میں لوٹ آئیں گے۔ آیئے! ہم پہلے اپنا کام کریں اور پھر ان کو مدعو کریں کہ وہ واپس قومی دھارے میں لوٹ آئیں۔