پرچیاں پھر چل گئیں

جو کھلاڑی ایک بار کرپشن میں پڑ جائے اسے دوبارہ قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع نہیں ملنا چاہیے


Saleem Khaliq September 07, 2021
غلطیاں سدھارتے ہوئے حقدار کرکٹرز کو شامل کریں اور سفارشی یا منظور نظر کھلاڑیوں کو باہر کریں فوٹو: فائل

''اب میں ملکی کرکٹ کو ٹھیک کرنے لگا ہوں، ورلڈکپ اسکواڈ کو آپ لوگ دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کتنے پروفیشنل کھلاڑیوں کا انتخاب ہوا ہے''

کچھ عرصے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے ایک خطاب میں یہ بات کہی تھی، اسے سن کر ہمیں لگنے لگا تھا کہ اس بار تو بہترین ٹیم منتخب ہو گی جو ورلڈکپ میں سب کے چھکے چھڑا دے گی مگر شاید چیف سلیکٹر محمد وسیم نے یہ بیان نہیں سنا، انھوں نے تو ایسا اسکواڈ منتخب کیا جسے شاید ہی کسی نے سراہا ہو، پٹے ہوئے مہروں کو ایک بار پھر سامنے لے آئے اور اب یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان کی مدد سے ورلڈکپ جیتا جائے گا، نجانے ایسا کیسے ممکن ہوگا۔

ٹیم تو کہیں سے بھی متوازن نظر نہیں آتی، شرجیل خان کو اسکواڈ میں غلط لایا گیا تھا، جو کھلاڑی ایک بار کرپشن میں پڑ جائے اسے دوبارہ قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع نہیں ملنا چاہیے، مگر آپ واپس لے کرآئے اورپھر اب باہر کر دیا، شاید اس کی وجہ نامزد چیئرمین کے سابقہ بیانات بنے، وہ ہمیشہ داغدار ماضی والے کھلاڑیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

اب ان کے دور میں ایسے کرکٹرز کھیلیں تو رمیز کو ان کے سابقہ بیانات یاد دلائے جائیں گے، چلیں شرجیل کو نکال دیا ٹھیک ہے مگر فخرزمان جیسے میچ ونر کو باہر کرنے کا تو کوئی جواز نظر نہیں آتا، چند روز قبل تک سابقہ ٹیم مینجمنٹ خود یہ باتیں کر رہی تھی کہ بابر اعظم اور محمد رضوان ایک ہی انداز سے کھیلتے ہیں، اوپننگ میں کسی ایک جارح مزاج بیٹسمین کو آزمانا چاہیے،اب سارے آپشنز ہی ختم کر دیے، وسیم صاحب فرماتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر محمد حفیظ یا صہیب مقصود سے اوپننگ کرا لیں گے، یہ کیا مذاق ہے۔

حفیظ خود پورے سال جدوجہد کرتے چلے آئے ہیں، ان سے یہ توقع درست نہیں ہوگی کہ ضرورت پڑنے پر بطور اوپنر کامیاب رہیں گے، وہ اپنے اصل نمبر پر ہی ٹیم کے کام آ سکتے ہیں، صہیب نے تو ہماری آنکھیں کھول دی ہیں، پی ایس ایل کی کارکردگی سے متاثر ہو کر کسی کھلاڑی سے یہ توقعات وابستہ نہیں کرنا چاہیں کہ وہ قومی ٹیم کیلیے بھی اچھا پرفارم کرے گا،حیران کن طور پر ناکامیوں کے باوجود انھیں اسکواڈ میں برقرار رکھا گیا۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ان کی اوسط13 ہے، 26 میچز میں وہ کسی اننگز کے دوران 40 رنز تک بھی نہیں پہنچ پائے،آصف علی نے 29 میچز میں 16 کی ایوریج سے رنز بنائے،اعظم خان کی 3 میچز میں 6 کی اوسط ہے، خوشدل شاہ نے9 میچز میں 21 کی ایوریج سے رنز بنائے، آپ کے4بیٹسمینوں نے نصف سنچری ہی نہیں بنائی،تین کی اوسط20 بھی نہیں، یہ کیسی بیٹنگ لائن ہے؟ ٹی ٹوئنٹی میچز میں فیلڈنگ جتواتی ہے آپ صہیب اور اعظم کو کہاں چھپائیں گے، سرفراز احمد کو مسلسل غیرملکی دورے کرائے مگر کھلایا نہیں، اب اسکواڈ سے بھی باہر کر دیا،یہ بھی بڑی سنگین غلطی ہے۔

ورلڈکپ میں بہت میچز ہونا ہیں،خدانخواستہ اگر رضوان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا تو آپ کیا اعظم سے وکٹ کیپنگ کرائیں گے،میگا ایونٹ جس میں بڑے بڑے کرکٹرز دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں ایسے میں ان نان پرفارمرز کا کیا حال ہوگا؟ یو اے ای کی کنڈیشنز میں لیفٹ آرم اسپنرز کامیاب رہتے ہیں ہمارے پاس ان کا سامنا کرنے کیلیے اسکواڈ میں کتنے لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین موجود ہیں؟ شعیب ملک ان پچز پرکامیاب ثابت ہو سکتے تھے لیکن انھیں منتخب نہیں کیا گیا، یہ بھی بہت غلط فیصلہ ہے،بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی اچھی فارم میں ہیں مگر امارات میں فاسٹ بولرز کو سازگار کنڈیشنز نہیں ملیں گی۔

اسپنرز میں عثمان قادر کو بھی باہر کر دیا گیا حالانکہ وہ کارآمد ثابت ہو سکتے تھے، ابھی رمیز راجہ نے عہدہ نہیں سنبھالا لیکن ہر معاملے میں مداخلت شروع کر دی ہے، ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان کرنے سے قبل محمد وسیم نے بھی شاید نامزد چیئرمین کی یوٹیوب ویڈیوز دیکھیں، میں مان ہی نہیں سکتا کہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں رمیز کے مشورے شامل نہیں ہیں، یقینی طور پر انھوں نے چیف سلیکٹر کو بتایا ہوگا کہ اسے رکھو یا اسے نکالو، وسیم نے بھی صاحب کی بات مانتے ہوئے ربڑ اسٹیمپ ثبت کر دی۔

انھیں لگتا ہوگا کہ اس سے نوکری بچ جائے گی مگر شاید ہی موجودہ چیف سلیکٹر اب زیادہ عرصے ملازمت پر برقرار رہ سکیں گے۔ہمیں یہ زعم ہے کہ یو اے ای کی کنڈینشز میں کھیلنے کا بہت زیادہ آئیڈیا ہے لہذا جیت جائیں گے، بھائی باقی ٹیمیں کیا ہوا کھانے آئیں گی؟ بھارت 2 سال سے وہاں آئی پی ایل کروا رہا ہے،بھارتیوں کے ساتھ غیرملکی کرکٹرز بھی اس میں کھیلتے ہیں اب سب ہی کو اماراتی پچز کا تجربہ ہے، کسی کیلیے کنڈیشنز نئی نہیں ہوں گی لہذا ایڈوانٹیج سب کیلیے یکساں ہے، بْرا نہ مانیے گا جس طرح کا اسکواڈ منتخب ہوا اسے دیکھتے ہوئے سیمی فائنل کھیلنا بھی آسان نہیں لگتا، دنیا بھر کی ٹیمیں بھرپور تیاری کے ساتھ آئیں گی جبکہ ہم اسکواڈ سے ہی مطمئن نہیں ہیں،پرچیاں چل گئیں حقدار گھر پر بیٹھیں گے، یقیناً دعاؤں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ دوا بھی کرنا پڑتی ہے۔

1992 کا ورلڈکپ بھی اسی طرح جیتا تھا،اب بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا،خدانخواستہ نتائج اچھے نہ رہے تو رمیز راجہ تو کہہ دیں گے کہ میں نے تو 13 ستمبرکو عہدہ سنبھالا ورلڈکپ اسکواڈ کا انتخاب 6 تاریخ کو ہو گیا تھا میرا اس میں کوئی عمل و دخل نہیں ہاں اگلے میگا ایونٹ میں ٹیم کو بہتر پرفارمنس کے قابل بنا دوں گا۔

چیف سلیکٹر صاحب بھی خاموشی سے سائیڈ پر ہو جائیں گے،اب بھی اسکواڈ میں تبدیلیوں کا وقت ہے، غلطیاں سدھارتے ہوئے حقدار کرکٹرز کو شامل کریں اور سفارشی یا منظور نظر کھلاڑیوں کو باہر کریں اسی صورت ورلڈکپ کی فائنل فور ٹیموں میں شمولیت کا خواب دیکھا جا سکتا ہے، شائقین تو ابھی سے ہمت ہار گئے ہیں، سوشل میڈیا پر انھوں نے دل کی بھڑاس بھی نکالنا شروع کر دی ہے،انھیں تو زیادہ امیدیں نہیں مگر یہ ورلڈکپ ہے جس میں پہلا میچ ہی بھارت سے ہوگا، اس میں شکست کسی کو برداشت نہیں، یقیناً موجودہ صورتحال سے وزیر اعظم بھی واقف ہوں گے، شاید وہی پی سی بی کو کچھ شرم دلا دیں۔

نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں