’کھل کر گفـتگو کـیجیـے۔۔۔‘

وہ کون سی باتیں ہیں جو والدین کے لیے بچے کو سمجھانا مشکل لگتی ہیں؟

وہ کون سی باتیں ہیں جو والدین کے لیے بچے کو سمجھانا مشکل لگتی ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

بعض اوقات والدین اپنی زندگی میں ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہوتے ہیں، جہاں انھیں اپنے ہی بچے کے سامنے انتہائی حساس مسئلے پر بات کرنا مشکل لگنے لگتی ہے، انھیں یہ گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے کہ سامنے ایک بہت معصوم سا ذہن ہے، جو ابھی اتنا پختہ نہیں ہے کہ زندگی کی مشکلات کو اتنی گہرائی سے سمجھ سکے اور اگر وہ سمجھا بھی دیں، تو کیا خبر یہ بات اس کے دل و دماغ پر کیسا اثر چھوڑ دے!

اسی لیے اکثر والدین بچے کو اپنے حالات سے آگاہ نہیں کرتے، جس کی وجہ مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ وہ کون سے عام مسائل ہیں جن سے اکثر والدین نبرد آزما ہوتے ہیں اور ان سے نکلنے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔

1 ۔ کیسے بتاؤں کہ وہ 'لے پالک' ہے؟

اولاد نہ ہونے پر اکثر جوڑے کسی دوسرے کا بچہ لے کر پال تو لیتے ہیں، مگر بچے سے یہ حقیقت چھپائے رکھتے ہیں، لیکن جب بچے کو کسی دوسرے فرد سے یہ آگاہی ملتی ہے، تو اس کے لیے یہ ایک صدمے کی کیفیت ہوتی ہے، وہ ایک دم سے ڈپریشن میں بھی جا سکتا ہے یا گھر چھوڑ بھی سکتا ہے۔۔۔

اس کے نتیجے میں وہ نہ صرف آپ سے، بلکہ اپنے حقیقی والدین سے بھی نفرت کر سکتا ہے ۔۔۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بالکل ابتدائی عمر سے ہی اسے یہ سچ بتا دیا جائے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسے حقیقی والدین سے بھی ملوائیں ۔۔۔

یوں بچہ اچانک ملنے والی اس حقیقت سے سے ہیجان میں مبتلا نہیں ہوگا، کیوں کہ جھوٹ، آدھی سچائی اور طویل عرصے تک حقیقت کو پردے میں رکھنے سے بچہ عدم اعتماد اور غم و غصے کا شکار ہو سکتا ہے، لہذا اسے پوری ایمان داری کے ساتھ حقائق سے جلد روشناس کروا دیں۔۔۔

2۔ پیسے کم اور کھلونا مہنگا.. بچوں کو کیسے بتائیں؟

چھوٹے بچے کی دنیا انھی کی طرح چھوٹی سی لیکن تتلی کے پروں جیسی رنگین ہوتی ہے، جسے وہ ہر وقت اپنی دست رَس میں دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ وہ بازار شاپنگ مال میں جب والدین کے ساتھ نکلتے ہیں، تو کھلونوں سے سجی ہوئی رنگ برنگی دکان دیکھ کر مچل کر رہ جاتے ہیں اور کبھی ایسے کھلونے پر ہاتھ رکھتے ہیں، جو والدین کی قوتِ خرید میں نہیں ہوتا اور اکثر والدین کو شرمندگی کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے، جب بچہ سب کے سامنے اس کھلونے کے لیے رونا اور ضد کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اس لیے ایسے مراحل سے بار بار گزرنے سے بہت بہتر ہے کہ بچوں کو گھر سے نکلتے وقت ہی سمجھا دیں کہ ان کے پاس اتنے ہی پیسے ہیں جس میں گھر کا مطلوبہ سامان آ سکتا ہے، تو پھر وہ ضد نہیں کریں گے اس لیے ضروری ہے کہ انھیں اپنے مالی حالات کے بارے میں وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہیں۔۔۔


انھیں پیسہ بچت کا آئیڈیا سکھائیں، انھیں بتائیں کہ پیسہ کام کرنے سے آتا ہے اور ہمیں پیسہ رہائش، کھانے ، طبی دیکھ بھال اور تفریحی سامان جیسے کاموں پر خرچ کرنا ہے، لہٰذا پیسہ اڑانے کی چیز نہیں ہے، بلکہ اسے مشکل وقت کے لیے سنبھال کر رکھنا چاہیے، یوں بچے کے اندر مالی شعور اجاگر ہوگا ۔۔۔

3۔ کامیابی اور ناکامی کے دونوں پہلوؤں پر بات کرنا ضروری

ہمارے ہاں والدین اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر اور بزنس مین کی صورت میں کام یاب دیکھنا چاہتے ہیں اور شروع سے ہی ذہنی تربیت اس انداز میں کرتے ہیں کہ وہ اس کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔۔۔ لیکن بعض اوقات بچہ جب امتحان میں مطلوبہ نمبر نہیں لاتا یا کسی ٹیسٹ میں ناکام ہو جاتا ہے، تو بچے کے لیے یہ سب سہنا آسان نہیں ہوتا یہ ہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ طب کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ کا، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں مقابلے بازی کا یہ رجحان انھیں اس حد تک ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار کر دیتا ہے کہ مستقبل کے اندیشوں سے تنگ آ کر وہ اپنی زندگی کا خاتمہ تک کر لیتے ہیں۔۔۔

لہٰذا بچوں کا کسی بھی شعبے میں ذہن بنانے سے پہلے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اس شعبے میں کام یابی یا ناکامی کے امکانات پر بھی آپس میں کھل کر بات کر لی جائے، تاکہ بچے کے ذہن سے خدشات کا ایک بوجھ اتر سکے۔

4۔ اپنی صحت کے مسائل بچوں سے مت چھپائیں۔

اگر بطور ماں سارے گھر کے کام کا بوجھ آپ کے سر ہے، تو ایک دن یہ جسمانی تھکاوٹ انتہائی خاموشی کے ساتھ آپ کی اعصابی تھکاوٹ میں بدل جائے گی اور آپ کو اتنا چڑچڑا کر دے گی کہ آپ کو معمولی باتوں پر بھی غصہ آنے لگے گا، جس سے گھر میں جہاں تناؤ پیدا ہوگا۔

وہاں بچے بھی آپ کی بات سننے سے انکاری ہو جائیں گے۔ لہٰذا آپ بچوں کے سامنے اپنی بیماری کا اظہار کریں، اس طرح ان میں احساس پیدا ہوگا اور وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اور اپنا ذاتی کام جیسے اسکول یونیفارم استری کرنا، اسکول کا بستہ جگہ پر رکھنا، اپنا لنچ باکس دھونا، جوتے پالش کرنا خود شرور کریں گے اور اسکول کے ہوم ورک کے بعد آپ کے ساتھ باورچی خانے میں ہاتھ بٹانا شروع کریں گے، جہاں انھیں گھر کے کاموں کی سمجھ بوجھ ہوگی، وہاں آپ کے لیے بھی یہ بات ذہنی سکون کا باعث بنے گی ۔

5۔ سانولے رنگ کی احساس کمتری سے نکالنا

بچوں میں بالخصوص لڑکیوں میں اگر اپنے جلد کے رنگ کے حوالے سے یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ سانولا ہے، تو ان میں اعتماد ختم ہو جاتا ہے، اس لیے عزیز رشتہ داروں کی شادی کی تقاریب ان میں بے آرامی اور بے چینی بھر دیتے ہیں۔

لہٰذا والدین کو اپنے بچوں کے اندر پیدا ہونے والی اس کشمکش پر بات کرنا بہت ضروری ہے، وہ اسے یہ باور کروائے کہ آگے بڑھنے کے لیے خوب صورتی کی نہیں، بلکہ ذہنی مضبوطی اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے سامنے زندگی کے اہم مقاصد کو اجاگر کیجیے، تاکہ ان کا ذہن سانولے رنگ کے خوف سے باہر نکل کر مثبت طرزِ زندگی کی طرف گام زن ہو ۔
Load Next Story