اردو اور پنجابی کے نامور ادیب اشفاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے17برس گزر گئے

اردو ادب کی تاریخ اشفاق احمد کا تذکرہ کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی


Mian Asghar Saleemi September 07, 2021
اردو ادب کی تاریخ اشفاق احمد کا تذکرہ کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی، فوٹو فائل

اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈراما نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی اشفاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے17برس گزر گئے۔

اردو ادب کی تاریخ اشفاق احمد کا تذکرہ کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی، علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا۔ اردو ادب کے ماتھے کے جھومر اشفاق احمد ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاوں خان پور میں 22 اگست 1925ء کو پیدا ہوئے۔

اشفاق احمد بیک وقت ا فسانہ نگار، ڈراما نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر تھے۔ ان کی ادبی تخلیقات شاہکار کا درجہ رکھتی تھیں۔ اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا ًبعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے، 1953 میں ان کا افسانہ ''گڈریا'' ان کی شہرت کا باعث بنا۔

نامور ادیب نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے، وہ 1968میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور1989 تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر، کھیل کہانی ، ایک محبت سو ڈرامے ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔

ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا عوام میں بہت مقبول ہوئیں- 1965سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔

حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا۔ صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں