تحفظ پاکستان آرڈیننس کا ایس آر او کے ذریعے5 دسمبر2013ء سے اطلاق دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ میں ہ
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ امتیازتاجور ایجنسیوں کو گرفتاریوں کی اجازت کے لیے مجازافسرمقرر،وزارت داخلہ سے قواعد جاری
ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پرقابو پانے اورلاپتہ افرادکے معاملے کو قانونی طریقے سے حل کرنے کیلیے حکومت نے پہلے تحفظ پاکستان آرڈیننس اوربعد ازاں تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس جاری کیا۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس میں لکھاگیا تھاکہ اس کااطلاق کب سے ہوگااس بات کا تعین وفاقی حکومت کرے گی۔
ایکسپریس نیوزکودستیاب سرکاری دستاویزکے مطابق وزارت داخلہ نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی تمام شقوں کا اطلاق ایک ایس آر اوکے ذریعے5 دسمبر2013 ء سے کردیاہے،اس ایس آراو میںآرڈیننس کے مکمل رولز بھی جاری کردیے گئے ہیں جن کو پروٹیکشن آف پاکستان رولزکا نام دیا گیا ہے۔8 صفحات پرمشتمل اس ایس آر اوکے مطابق دہشت گردی میں ملوث افرادسے تحقیقات کے لیے پاک فوج اورپولیس پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جائیں گی جن کی نگرانی اورانتظامی کنٹرول کے لیے حکومت ضرورت کے مطابق علاقائی ہیڈکوارٹرز قائم کرے گی۔حکومت کم ازکم ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسرکو ہرعلاقائی ہیڈکوارٹرزکا انچارج تعینات کرے گی۔آرڈیننس کے تحت وزارت داخلہ نے قواعد میںایک نئی پراسیکیوشن ایجنسی بھی قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے،یہ ایجنسی پراسیکیوٹرجنرل،ریجنل پراسیکیوٹر جنرلزاور پبلک پراسیکیوٹرز پرمشتمل ہو گی ۔ پراسیکیوشن ایجنسی کاانتظامی اختیار پراسیکیوٹرجنرل کے پاس ہوگا جس کا تقررحکومت3 سال کیلیے کر ے گی۔خصوصی عدالت کے ججوں اور اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کا تقرر بھی3 سال کیلیے ہوگا ۔ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ محمد امتیازتاجورکومجاز افسرمقررکردیا گیا ہے جن کی تحریری اجازت کے بعد ہی سیکیورٹی ایجنسیو ں کو کسی مشتبہ دہشت گردکو تحقیقات کیلیے90 روز تک حراست میں رکھنے کی اجازت ہوگی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کسی بھی شخص کیخلاف90 روز میں اپنی تفتیش مکمل کرکے پبلک پراسیکیوٹر کے حوالے کرنے کی پابند ہوگی،تحقیقاتی رپورٹ خصوصی عدالت میں جمع کرانے کے روزملزم کوبھی پیش کرناہوگا۔ پراسیکیوٹرکی درخواست پراستغاثہ کے گواہوںکے بیانات وڈیولنک کے ذریعے ریکارڈکیے جائیںگے۔اس آرڈیننس کے تحت ٹرائل شروع ہونے پرخصوصی عدالت روزانہ سماعت کرے گی،صرف 3 روزکے لیے کیس ملتوی کیاجاسکے گااور 30 روزمیں مقدمہ نمٹاناہوگا۔حکومت صوبائی حکومت کی رضامندی سے کسی بھی جیل کوہائی سیکیورٹی جیل قراردے گی جس کے احاطے میں عدالت قائم کی جاسکے گی۔تحقیقات کے دوران حکومت استغاثہ کے گواہوں اوران کے اہلخانہ کیلیے بھی سیف ہاؤس قائم کریگی اور ٹرائل کے دوران ان کی مالی امداد بھی کی جائیگی،خصوصی عدالت کے ججوں، اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹس، پراسیکیوٹرزاورگواہان کوسیکیورٹی گارڈ بھی دیے جائیں گے۔
خصوصی عدالت کے ججوں، پراسیکیوٹرز یاگواہان کی سیکیورٹی کو مدنظررکھتے ہوئے خصوصی عدالت کی کارروائی ان کیمرہ یا پھرویڈیو لنک کے ذریعے کی جاسکے گی اورتمام متعلقہ افرادکے نام بھی شائع نہیں کیے جائیں گے۔جہاں ججوں اورگواہوں کوعوام کی نظرسے بچانے کیلیے کمرہ عدالت میں شیلڈ لگائی جائے گی تو وہیں شناخت چھپانے کیلیے گواہوں کو تحقیقات یاٹرائل کے دوران ماسک پہننے کی بھی اجازت ہوگی۔یہ بھی معلوم ہوا ہے تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس جلد بازی میںجاری کیا گیا اوراس میںغلطیوںکی درستی کیلیے گزٹ آف پاکستان میں نئی ترامیم شامل کرنا پڑیں،تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کے صفحہ 2 پرایک، صفحہ 3 پر 3، صفحہ 4 پر3 اورصفحہ 5 پرایک غلطی کودرست کیا گیا ۔ان میں بیشتر غلطیاں اس نوعیت کی تھیں کہ متعلقہ پیراگراف کوہی غلط نمبرلگادیے گئے تھے۔
ایکسپریس نیوزکودستیاب سرکاری دستاویزکے مطابق وزارت داخلہ نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی تمام شقوں کا اطلاق ایک ایس آر اوکے ذریعے5 دسمبر2013 ء سے کردیاہے،اس ایس آراو میںآرڈیننس کے مکمل رولز بھی جاری کردیے گئے ہیں جن کو پروٹیکشن آف پاکستان رولزکا نام دیا گیا ہے۔8 صفحات پرمشتمل اس ایس آر اوکے مطابق دہشت گردی میں ملوث افرادسے تحقیقات کے لیے پاک فوج اورپولیس پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جائیں گی جن کی نگرانی اورانتظامی کنٹرول کے لیے حکومت ضرورت کے مطابق علاقائی ہیڈکوارٹرز قائم کرے گی۔حکومت کم ازکم ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسرکو ہرعلاقائی ہیڈکوارٹرزکا انچارج تعینات کرے گی۔آرڈیننس کے تحت وزارت داخلہ نے قواعد میںایک نئی پراسیکیوشن ایجنسی بھی قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے،یہ ایجنسی پراسیکیوٹرجنرل،ریجنل پراسیکیوٹر جنرلزاور پبلک پراسیکیوٹرز پرمشتمل ہو گی ۔ پراسیکیوشن ایجنسی کاانتظامی اختیار پراسیکیوٹرجنرل کے پاس ہوگا جس کا تقررحکومت3 سال کیلیے کر ے گی۔خصوصی عدالت کے ججوں اور اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کا تقرر بھی3 سال کیلیے ہوگا ۔ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ محمد امتیازتاجورکومجاز افسرمقررکردیا گیا ہے جن کی تحریری اجازت کے بعد ہی سیکیورٹی ایجنسیو ں کو کسی مشتبہ دہشت گردکو تحقیقات کیلیے90 روز تک حراست میں رکھنے کی اجازت ہوگی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کسی بھی شخص کیخلاف90 روز میں اپنی تفتیش مکمل کرکے پبلک پراسیکیوٹر کے حوالے کرنے کی پابند ہوگی،تحقیقاتی رپورٹ خصوصی عدالت میں جمع کرانے کے روزملزم کوبھی پیش کرناہوگا۔ پراسیکیوٹرکی درخواست پراستغاثہ کے گواہوںکے بیانات وڈیولنک کے ذریعے ریکارڈکیے جائیںگے۔اس آرڈیننس کے تحت ٹرائل شروع ہونے پرخصوصی عدالت روزانہ سماعت کرے گی،صرف 3 روزکے لیے کیس ملتوی کیاجاسکے گااور 30 روزمیں مقدمہ نمٹاناہوگا۔حکومت صوبائی حکومت کی رضامندی سے کسی بھی جیل کوہائی سیکیورٹی جیل قراردے گی جس کے احاطے میں عدالت قائم کی جاسکے گی۔تحقیقات کے دوران حکومت استغاثہ کے گواہوں اوران کے اہلخانہ کیلیے بھی سیف ہاؤس قائم کریگی اور ٹرائل کے دوران ان کی مالی امداد بھی کی جائیگی،خصوصی عدالت کے ججوں، اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹس، پراسیکیوٹرزاورگواہان کوسیکیورٹی گارڈ بھی دیے جائیں گے۔
خصوصی عدالت کے ججوں، پراسیکیوٹرز یاگواہان کی سیکیورٹی کو مدنظررکھتے ہوئے خصوصی عدالت کی کارروائی ان کیمرہ یا پھرویڈیو لنک کے ذریعے کی جاسکے گی اورتمام متعلقہ افرادکے نام بھی شائع نہیں کیے جائیں گے۔جہاں ججوں اورگواہوں کوعوام کی نظرسے بچانے کیلیے کمرہ عدالت میں شیلڈ لگائی جائے گی تو وہیں شناخت چھپانے کیلیے گواہوں کو تحقیقات یاٹرائل کے دوران ماسک پہننے کی بھی اجازت ہوگی۔یہ بھی معلوم ہوا ہے تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس جلد بازی میںجاری کیا گیا اوراس میںغلطیوںکی درستی کیلیے گزٹ آف پاکستان میں نئی ترامیم شامل کرنا پڑیں،تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کے صفحہ 2 پرایک، صفحہ 3 پر 3، صفحہ 4 پر3 اورصفحہ 5 پرایک غلطی کودرست کیا گیا ۔ان میں بیشتر غلطیاں اس نوعیت کی تھیں کہ متعلقہ پیراگراف کوہی غلط نمبرلگادیے گئے تھے۔