حکومتی مذاکراتی ٹیم پر اعتماد قومی اتحاد کاغیرمعمولی مظاہرہ
عرفان صدیقی معاملہ فہمی،میجرعامرحساس امور،یوسفزئی فاٹا،رستم شاہ سفارتکاری کاتجربہ رکھتے ہیں
5 جون 2013ء کو قومی اسمبلی کے342 الیکٹورل ووٹوں میں سے244 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونیوالے میاں نواز شریف کو اہم قومی امور کے حوالے سے زمینی حقائق جاننے میں تقریباً سات ماہ کا وقت لگا۔ امن عامہ کی خراب تر صورتحال سے نمٹنے کیلئے وزیر اعظم نے پہلی بار دوٹوک الفاظ میں بات کی۔
طالبان سے مذاکرات کیلیے چار رکنی حکومتی ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے بین السطور پیغام دیتے ہوئے کہاکہ امن مذاکرات اور عسکریت پسندی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران بھر پور اعتماد کیساتھ کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان بھر کے سیاسی قائدین نے انہیںمینڈیٹ دیا اور اب بھی امن کے راستے کو آخری موقع دینے سے قبل بھی انہوں نے تقریباً تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیکیورٹی کے ریاستی اداروں کی رائے معلوم کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ امن کے حصول کیلئے مذاکرات کی آخری کوشش کر لی جائے۔ وزیر اعظم نے دوران تقریر کہا کہ آج اگر ہم آپریشن کے آپشن پہ جائیں تو پوری قوم اس فیصلے کے پیچھے کھڑی ہوگی۔ وزیر اعظم کی جانب سے امن مذاکرات کیلئے تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی کے ارکان پر بھر پور اعتماد کا اظہار ان کی تقریر کے فوراً بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کر دیا، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی حکومت کو بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
قومی اتحاد کے اس غیر معمولی مظاہرے کے بعد اب یہ حکومتی مذاکراتی ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ بات چیت کا سلسلہ کیسے آگے بڑھاتے ہیں۔ کمیٹی کے ارکان میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد پہلی اہم ترین اسائنمنٹ ملی، توقع کی جا رہی ہے کہ عرفان صدیقی اپنے معاملہ فہم مزاج ، میجر (ر) عامر حساس قومی امور کی نبض شناسی کی مہارت ، رحیم اللہ یوسفزئی قبائلی علاقوں میں صحافتی اثرو رسوخ کی زندگی بھر کے سرمائے اور رستم شاہ مہمند اپنی کامیاب سفارت کاری کے تمام تر تجربہ سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے قوم کو بہت جلد کامیابی کی خوش خبری سنائیں گے۔ پنجاب میں موجود طالبان کی شاخ نے مذاکرات کی حکومتی پیش کش کو منظور کر لیا جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے مطابق وہ اس پیشکش کو حکومت کی جانب سے کی گئی سنجیدہ کوشش سمجھتے ہیں اور وہ اس سنجیدہ پیش کش کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ پاکستانی میڈیا، علمائے کرام اور پارلیمنٹ سے باہر موجود سیاستدان بھی قومی سطح پر کی گئی اس پہلی سنجیدہ کوشش کو موزوں وقت پر درست سمت میں اٹھایا گیا درست قدم قرار دیں گے۔
طالبان سے مذاکرات کیلیے چار رکنی حکومتی ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے بین السطور پیغام دیتے ہوئے کہاکہ امن مذاکرات اور عسکریت پسندی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران بھر پور اعتماد کیساتھ کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان بھر کے سیاسی قائدین نے انہیںمینڈیٹ دیا اور اب بھی امن کے راستے کو آخری موقع دینے سے قبل بھی انہوں نے تقریباً تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیکیورٹی کے ریاستی اداروں کی رائے معلوم کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ امن کے حصول کیلئے مذاکرات کی آخری کوشش کر لی جائے۔ وزیر اعظم نے دوران تقریر کہا کہ آج اگر ہم آپریشن کے آپشن پہ جائیں تو پوری قوم اس فیصلے کے پیچھے کھڑی ہوگی۔ وزیر اعظم کی جانب سے امن مذاکرات کیلئے تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی کے ارکان پر بھر پور اعتماد کا اظہار ان کی تقریر کے فوراً بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کر دیا، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی حکومت کو بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
قومی اتحاد کے اس غیر معمولی مظاہرے کے بعد اب یہ حکومتی مذاکراتی ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ بات چیت کا سلسلہ کیسے آگے بڑھاتے ہیں۔ کمیٹی کے ارکان میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد پہلی اہم ترین اسائنمنٹ ملی، توقع کی جا رہی ہے کہ عرفان صدیقی اپنے معاملہ فہم مزاج ، میجر (ر) عامر حساس قومی امور کی نبض شناسی کی مہارت ، رحیم اللہ یوسفزئی قبائلی علاقوں میں صحافتی اثرو رسوخ کی زندگی بھر کے سرمائے اور رستم شاہ مہمند اپنی کامیاب سفارت کاری کے تمام تر تجربہ سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے قوم کو بہت جلد کامیابی کی خوش خبری سنائیں گے۔ پنجاب میں موجود طالبان کی شاخ نے مذاکرات کی حکومتی پیش کش کو منظور کر لیا جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے مطابق وہ اس پیشکش کو حکومت کی جانب سے کی گئی سنجیدہ کوشش سمجھتے ہیں اور وہ اس سنجیدہ پیش کش کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ پاکستانی میڈیا، علمائے کرام اور پارلیمنٹ سے باہر موجود سیاستدان بھی قومی سطح پر کی گئی اس پہلی سنجیدہ کوشش کو موزوں وقت پر درست سمت میں اٹھایا گیا درست قدم قرار دیں گے۔