اورنگی کی گٹر باجی آخری حصہ

پروین رحمان کو غریبوں اور ناداروں کی آواز سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہی سماجی کام ان کے قتل کی وجہ بھی بنا۔

zahedahina@gmail.com

پروین رحمان ایک ایسا گوہر آب دار تھیں ، جن کے جانے کا غم جتنا بھی منایا جاتا ، وہ کم تھا۔ انھوں نے قبضہ مافیا اور پانی مافیا کی کسی دھمکی کو در خور اعتنا نہ سمجھا۔ وہ اپنا کام خلوص دل سے کرتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اتنی اہم نہیں ہیں کہ قتل کردی جائیں۔ موت لمحہ بہ لمحہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن وہ اپنی دل نواز مسکراہٹ سے اپنے دوستوں کے اندیشوں کو ٹال جاتیں۔

اب سے سات برس پہلے بہار آنے کے موسم میں قاتلوں نے انھیں چلتی سڑک پر گولیاں مار کر قتل کردیا۔ ان کا سفید دوپٹہ اور سفید شلوار ان کے سرخ رنگ میں رنگ گئے۔ شاید انھیں خیال ہو کہ یہ شہر اور یہ کچی بستی جس کو سنوارنے کے لیے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر زندہ تھیں۔ شاید آخری لمحوں میں انھوں نے سوچا ہو کہ اپنے عشاق سے کوئی کہیں یہ کرتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھیں لیو ٹالسٹائی کی کہانی یاد آئی ہو۔

مجھے بھی یہ کہانی یاد آگئی جو انھوں نے 1886 میں لکھی تھی اور جس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ اردو میں کئی مرتبہ منتقل ہوئی۔ کسی نے اس کا نام '' دو بیگھا زمین'' اور کسی نے دو گز زمین رکھا۔ اس کہانی کا مرکزی خیال زمین کے لیے انسان کی ختم نہ ہونے والی ہوس ہے۔

ایک شخص جس سے کہا جاتا ہے کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین طے کرلے گا، وہ زمین اس کے نام کردی جائے گی۔ یہ سن کر وہ شخص چلنے کے بجائے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ سورج ڈوبنے تک وہ بہت بڑا رقبہ طے کرلیتا ہے لیکن اس دوران وہ نڈھال ہوچکا ہے، اتنا نڈھال کہ گر پڑتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے تب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ''ایک انسان کو آخر کتنی زمین درکار ہے؟'' اس سوال کا جواب بھی اسی کہانی میں موجود ہے کہ ہر انسان کو زندگی کے اختتام پر صرف دو گز زمین درکار ہوتی ہے جس میں وہ دفن کردیا جاتا ہے۔

انھیں یقینا یہ کہانی یاد آئی ہوگی۔ دو گز زمین پروین رحمان کا اصل ٹھکانہ تھی اور ان کے قاتلوں کو بھی یہی دو گز زمین میسر آئے گی لیکن ہم یہ سب کچھ کب سمجھتے ہیں۔

ان کے ساتھیوں انور راشد اور عارف پرویز نے ان کے قتل کے بعد کہا کہ پروین کی اصل خطا یہ تھی کہ انھوں نے کراچی کے حاشیوں پر آباد 2,173 گاؤں یا کچی آبادیوں کی پیمائش اور نقشہ بندی کی اور 8 ہزار غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی نشاندہی کی تھی۔ یہ وہ ناجائز کاروبار ہے جس نے لوگوں کو راتوں رات کروڑ پتی بنادیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اور ان کے اثرورسوخ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں میں بھی ان کے دوست اور ہمدرد بیٹھے ہیں۔ ایسی دہشت ناک فضا میں پروین رحمان اورنگی کے بچوں کی تعلیم ، عورتوں کی معاشی خود مختاری ، بے آسرا لوگوں کے حقوق اور انھیں ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے بچانے کے لیے لڑتی رہیں اور پھر ان کے دشمنوں کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور وہ خاموش کردی گئیں۔

ان کی تعزیت کرنے والوں میں ملک کی تمام اہم شخصیات شامل تھیں۔ ہندوستان، انگلستان، امریکا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی ان کا پُرسہ کیا اور ان کی رخصت کو پاکستان اور دنیا کے غریبوں کا عظیم نقصان قرار دیا گیا۔


پروین رحمان جیسے بے غرض اور انسان دوست ہمارے ہاں کم پیدا ہوتے ہیں اور اگر ہوجائیں تو دہشت گرد انھیں اپنی حرص و ہوس کا نوالہ بنا لیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کراچی کی کچی آبادیوں پر قبضے سے کروڑ پتی بن جانے والوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے پروین کو ٹالسٹائی کی کہانی یاد آئی ہوگی اور انھوں نے بہ زبان خاموشی ان سے پوچھا بھی ہوگا کہ ایک انسان کو آخر کتنی زمین درکار ہے؟

وہ اپنے حصے کی دو گز زمین میں جا سوئیں۔ کراچی کو گِدھوں اور لکڑ بگھوں کی طرح نوچنے میں مصروف لوگوں اور پروین کے قاتلوں کو اپنی اپنی زندگی کے اختتام پر کیا دو گز سے زیادہ زمین ملے گی؟

گزشتہ ہفتے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے تعاون سے رشید رضوی سینٹر برائے آئین و انسانی حقوق اور اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے تحت دستاویزی فلم Dust the Into پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ماہر تعلیم اکبر زیدی، فہیم زمان، فیصل صدیقی ایڈوکیٹ اور پولیس کے ڈی آئی جی اور مصنف عمر شاہد حامد شریک ہوئے۔ اس سے قبل پروین رحمان کی زندگی اور اورنگی پائلٹ پراجیکٹ سمیت لاکھوں شہریوں کے لیے ان کی خدمات پر تیار کی گئی فلم بھی دکھائی گئی۔

کراچی کی معروف سماجی شخصیت پروین رحمان، جنھیں 13 مارچ 2013 کو گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا، ان کی زندگی پر بننے والی مختصر دورانیے کی فلم ایمیز ون پرائم پر ریلیز کی گئی۔ فلم میں پروین رحمان کا کردار انڈین اداکارہ اندو شرمی ادا کررہی ہیں۔

پروین رحمان پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکٹ تھیں تاہم ان کو پذیرائی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے ملی جس کی وہ کراچی میں سربراہ تھیں۔

Into the Dustنامی اس فلم کی کہانی پروین رحمان کی زندگی اور ان کے کام کے اردگرد گھومتی ہے۔ پروین رحمان کو غریبوں اور ناداروں کی آواز سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہی سماجی کام ان کے قتل کی وجہ بھی بنا۔

مقامی میڈیا کے مطابق رواں سال مارچ میں ان کے قتل کے الزام میں پانچ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کراچی کی انسداد دہشت گری کی ایک عدالت میں بتایا گیا تھا کہ پروین رحمان نے اپنے قتل سے 15 ماہ قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ زمینوں پر قبضہ کرنے والے کچھ لوگ اور بھتہ خور ان کے دفتر کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ شاید انھی بھتہ خوروں نے پروین رحمان کی جان لی۔ اس فلم کے حوالے سے ان کی بہن عقیلہ اسماعیل کا بھی بھرپور تذکرہ ہورہا ہے جنھوں نے پروین کے قتل کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ عقیلہ اس فلم کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر بھی ہیں۔ فلم کے ہدایت کار اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والے اور لانڈو وون اینسیڈیل ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی مشہور فلمیں بنا چکے ہیں، جن میں ویرونگا، دی وائٹ ہیلمٹ اور ایلون شامل ہیں۔

مختصر دورانیے کی اس فلم کا کچھ حصہ کراچی میں فلمایا گیا ہے، تاہم سیکیورٹی خدشات کے باعث اس کی زیادہ تر شوٹنگ انڈیا میں کی گئی ہے۔ پروین رحمان پر بننے والی ڈاکو منٹری فلم نے ہندوستان میں ایوارڈ جیت لیا ہے لیکن ہم اپنی اس دُرِّ بے بہا کو انصاف بھی فراہم نہ کرسکے۔
Load Next Story