انارکزم افراتفری یا بھائی چارگی
مسابقت کو ختم کریں پھر دیکھیے انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہو جاتی ہے۔
جارج آرویل کا ناول ''ہومیج ٹوکیٹالونیہ'' کا ترجمہ محمد مظاہر نے '' اسپین میں عوامی جنگ '' کے نام سے کیا، جس کے اختتام پر انھوں نے ایک مقالہ لکھا جس میں یقین سے کہا گیا کہ لینن اس خیال کا حامی تھا، یہ ایک ایسا خیال ہے جس سے غالباً کمیونسٹوں کی اکثریت اتفاق کرے گی کہ ''جب محنت کشوں کی آمریت اپنے مقاصد حاصل کرچکے گی تو ریاست کی مشینری کو ختم کردیاجائے گا۔''
یعنی ظاہری ریاست جو کارکنوں کی قوت پر قائم ہے جو اپنی جگہ اس کے لیے خالی کردے گی جسے سماج کی ''آزاد تنظیم'' کہاجاتا ہے۔ یہی سماج کی آزاد تنظیم ہے جس کی وکالت انارکزم کرتا ہے۔
کروپوتکن نے جو اس کاسب سے اہم ادبی مفکر ہے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ ''ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت سماج کا وجودمانا جاتا ہے۔اسے سماج میں ہم آہنگی، قانون کے آگے سر تسلیم خم کرکے نہیں حاصل کی جاتی یا کسی اقتدار کی فرمانبرداری سے بلکہ مختلف علاقائی اور پیشہ ور گروہوں کے درمیان آزاد معاہدوں سے طے کرتے ہیں۔
انارکزم پر یہ سوال آتا ہے کہ آیا حکومت کا وجود ضروری ہے؟ اقتصادی نقطہ نظر سے انارکزم اپنی حیثیت کی عالمی کمیونزم کا ہم خیال بیان کرتا ہے۔ جسے کروپوتکن نے اس طرح سے بیان کیا ہے ''ہر چیز ہر ایک کی ملکیت ہے اور اگر مرد، عورت، اشیائے ضرورت کی پیداوار میں اپنا حصہ دینے کو تیار ہے تو اسے یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ہر پیدا ہونے والی چیز میں اپنا حصہ لے جو کسی نے بھی پیدا کی ہو۔''
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا کسی قسم کی حکومت ضروری نہیں ہے تاکہ ہر ایک کو منصفانہ حصہ ملے۔ انارکسٹ زوردار نفی میں جواب دیتا ہے جو مارکسی کمیونسٹوں کے نظریات کے برعکس ہے۔
اس کی تردید میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومتوں کا آج تک سب سے اہم وظیفہ رہا ہے کہ حصہ نامنصفانہ رہے۔ آیا حکومت کا ہونا ضروری نہیں ہے؟ جہاں تک آمرانہ اور اشرافیہ طرز حکومت آج کل جیسی مملکت ہے اس کو مٹھی بھر لوگ بطور آلہ کار استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو تحفظ ملے۔ جب کہ یہ تمام اشیا انصاف کی نظر میں سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔
اس لیے اسی وجہ سے ریاست کو اجارہ داریوں سے ختم کرنے کے لیے حرکت میں نہیں لایا جاسکتا ہے جس کی وہ خود ہی چوکیدار ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے (لیکن جو ریاست نہ ہو) چونکہ ریاست کسی ایک پیش آنے والے مسئلے پر عوام کی رائے نہیں حاصل کرسکتی۔ اس لیے لازماً اگر اسے جبر کے الزام سے بچنا ہے تو اسے نمایندہ حکومت کے ذریعے کاروبار چلانا پڑے گا۔
یوں نمایندہ جمہوریت کا نظریہ یہ اس بات کے لیے فکر مند رہتا ہے کہ چناؤ کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ایک محدود تعداد کو چن لے جو ان کی نمایندگی کرے اور ان کی خواہشات ایک طے شدہ مدت تک پورا کرتی ہے۔ مگر کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کی پوری طرح نمایندگی نہیں کرسکتا۔ نمایندہ حکومت اس لیے ایسے افراد کی حکومت ہوتی ہے جن کی تمام معاملات میں علم کی پونجی بس اتنی سی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ ہر کام انجام دے سکتے ہیں۔
انارکزم اس لیے حیران کن حد تک توجہ دلاتا ہے اور اناڑیوں کی حکومت کے بجائے ماہرین کی رہنمائی کی وکالت کرتا ہے۔ ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے جو سرمایہ داروں اور نجی جائیداد کا خاتمہ نہ کرسکے۔ ریاست پر قبضہ کیا جاسکتا ہے نہ ہی اسے سماج کے ایک نئے عہد کے آغاز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جیساکہ بعض سوشلسٹ کہتے ہیں۔
مسائل حل کرنے کے لیے متاثرین کا ایک اجلاس بلایا جائے اور عارضی نمایندے مقرر کیے جائیں جو ایک مخصوص مسئلے پر مباحثے کے نتیجے میں قائم ہونے والی رائے کا اظہار کریں۔ جیسے ہی متعلقہ مسئلہ لوگوں کی رائے لے لی جائے تو اعلان کرکے متعلقہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ پھر وہ خود کو نمایندہ سمجھنا ترک کردیں،کسی بھی صورت میں مندوب کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جو اس واحد معاملے کے علاوہ ہو، جس کے لیے اسے مندوب چنا گیا ہے۔ اختیارات کا دوسرے افراد پر استعمال ناگزیر طور پر بہترین طبقوں کو بھی بدعنوان بنا دیتا ہے۔
یہ ان کو خود غرض، متکبر، جابر اپنے مفادات کے متوالے اور ان کے مفادات سے غافل بنا دیتا ہے، جنھوں نے اس بااختیار منصب پر فائز کیا ہے۔ چونکہ حکومت کی سرشت میں قوت کا استعمال، جو فطری دوستوں کو جدا کرکے اور حریف قومیتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ فطری بھائیوں کو مختلف دشمن طبقات میں تقسیم کرتا ہے۔
یوں انارکسٹ کے نقطہ نظر سے اندرونی فساد اور بیرونی جنگ ''حکومت'' کے وجود سے ہے، مسٹر ڈکنسن کی جدید سیمپوزیم میں انارکسٹ مقرر کے الفاظ ہیں۔ حکومت کے معنی ہیں جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی جب کہ انارکی آزادی، اتحاد اور محبت ہے۔
آپ یہ سوال کریں گے کہ تعلیم کس طرح دی جائے گی۔ اگر کارکنوں کی اکثریت کو مناسب فراغت میسر ہو کہ وہ خود ایک دوسرے کو تعلیم دینے لگیں تو اس میں سے وہ جن میں تعلیم دینے کا شوق ہوگا دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بے چین رہیں گے اور رضاکارانہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور وہ ایک دوسرے پر اعلیٰ تدریسی معیار قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خواہش مند ہوں گے سی ای ایم جوڈ آگے چل کر مزید کہتا ہے کہ یہ بھی سوال ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی جارحیت کے بچاؤ کے لیے ریاست تو ضروری ہے۔
کروپوتکن کا کہنا ہے کہ لام بند فوجیں دھاوا بولنے والی فوجوں سے ہمیشہ شکست کھاتی ہیں، جس کی تاریخ گواہ ہے۔ ایسے حملے خودرو تحریک نے پسپا کیے ہیں جس کے منظم کرنے میں ریاست کا کوئی دخل نہیں رہا۔'' جیساکہ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، اسپین کی عوامی جنگ وغیرہ۔ اگرچہ پیرس کمیون اور آسپین کی عوامی جنگ کو شکست ہوئی تو یہ کوئی ردانقلاب نہیں تھے جیساکہ بعض کمیونسٹ کہتے ہیں۔
رد انقلاب عوام کی جانب سے ہوتا ہے ، جب کہ پیرس کمیون پر فرانس اور جرمن فوج اور اسپین پر روسی فوج نے حملہ کرکے قتل عام کیا یہ کوئی ردانقلاب نہیں تھا۔ سی ایم جوڈ کہتے ہیں کہ ابھی تک ریاست شہری کو بدقماش لوگوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ بدقماش کو ریاست جنم دیتی ہے۔
یہ افلاس کے ذریعے لوگوں کو جرائم کی طرف ہانکتی ہے، اس افلاس کا سبب ایک خستہ اور بے ڈھب معاشی نظام ہوتا ہے، پھر ان لوگوں کو جیل خانوں میں ڈال کر سزا دیتی ہے، اس طرح ان لوگوں پر جرائم پیشہ ہونے کا ایسا ٹھپہ لگا دیتی ہے جس سے ان کے لیے مستقبل میں دیانت داری سے حصول روزگار ناممکن ہو جاتا ہے ۔
مسٹر لوئس ڈکنسن کے مقرر کا کہنا ہے یہ سماج کا ڈھانچہ چھوٹی سے چھوٹی انجمن پر کھڑا ہوگا، چاہے وہ کسی دیہہ کی ہوں یا کسی کارخانے اور اعتماد رکھتا ہے کہ اس کے بعد بقیہ سماج کا تانا بانا اسی بنیادی عمارت اور اکائی سے ترتیب پائے گا۔ مفادات میں شاذ و نادر تصادم ہوگا اور نااتفاقی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ یہ مسابقت ہے جو دشمنی کو جنم دیتی ہے۔
مسابقت کو ختم کریں پھر دیکھیے انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ ہر اجنبی گروہ کو حریف سمجھ کر اس سے ڈرنے اور اسے نیچا دکھانے کے بجائے دوست سمجھا جانے لگے گا۔ پھر آزادی اور ملنساری کے لطیف جذبات ان حدود کو چھوئیں گے جنھیں ابھی تک کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔
یعنی ظاہری ریاست جو کارکنوں کی قوت پر قائم ہے جو اپنی جگہ اس کے لیے خالی کردے گی جسے سماج کی ''آزاد تنظیم'' کہاجاتا ہے۔ یہی سماج کی آزاد تنظیم ہے جس کی وکالت انارکزم کرتا ہے۔
کروپوتکن نے جو اس کاسب سے اہم ادبی مفکر ہے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ ''ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت سماج کا وجودمانا جاتا ہے۔اسے سماج میں ہم آہنگی، قانون کے آگے سر تسلیم خم کرکے نہیں حاصل کی جاتی یا کسی اقتدار کی فرمانبرداری سے بلکہ مختلف علاقائی اور پیشہ ور گروہوں کے درمیان آزاد معاہدوں سے طے کرتے ہیں۔
انارکزم پر یہ سوال آتا ہے کہ آیا حکومت کا وجود ضروری ہے؟ اقتصادی نقطہ نظر سے انارکزم اپنی حیثیت کی عالمی کمیونزم کا ہم خیال بیان کرتا ہے۔ جسے کروپوتکن نے اس طرح سے بیان کیا ہے ''ہر چیز ہر ایک کی ملکیت ہے اور اگر مرد، عورت، اشیائے ضرورت کی پیداوار میں اپنا حصہ دینے کو تیار ہے تو اسے یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ہر پیدا ہونے والی چیز میں اپنا حصہ لے جو کسی نے بھی پیدا کی ہو۔''
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا کسی قسم کی حکومت ضروری نہیں ہے تاکہ ہر ایک کو منصفانہ حصہ ملے۔ انارکسٹ زوردار نفی میں جواب دیتا ہے جو مارکسی کمیونسٹوں کے نظریات کے برعکس ہے۔
اس کی تردید میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومتوں کا آج تک سب سے اہم وظیفہ رہا ہے کہ حصہ نامنصفانہ رہے۔ آیا حکومت کا ہونا ضروری نہیں ہے؟ جہاں تک آمرانہ اور اشرافیہ طرز حکومت آج کل جیسی مملکت ہے اس کو مٹھی بھر لوگ بطور آلہ کار استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو تحفظ ملے۔ جب کہ یہ تمام اشیا انصاف کی نظر میں سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔
اس لیے اسی وجہ سے ریاست کو اجارہ داریوں سے ختم کرنے کے لیے حرکت میں نہیں لایا جاسکتا ہے جس کی وہ خود ہی چوکیدار ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے (لیکن جو ریاست نہ ہو) چونکہ ریاست کسی ایک پیش آنے والے مسئلے پر عوام کی رائے نہیں حاصل کرسکتی۔ اس لیے لازماً اگر اسے جبر کے الزام سے بچنا ہے تو اسے نمایندہ حکومت کے ذریعے کاروبار چلانا پڑے گا۔
یوں نمایندہ جمہوریت کا نظریہ یہ اس بات کے لیے فکر مند رہتا ہے کہ چناؤ کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ایک محدود تعداد کو چن لے جو ان کی نمایندگی کرے اور ان کی خواہشات ایک طے شدہ مدت تک پورا کرتی ہے۔ مگر کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کی پوری طرح نمایندگی نہیں کرسکتا۔ نمایندہ حکومت اس لیے ایسے افراد کی حکومت ہوتی ہے جن کی تمام معاملات میں علم کی پونجی بس اتنی سی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ ہر کام انجام دے سکتے ہیں۔
انارکزم اس لیے حیران کن حد تک توجہ دلاتا ہے اور اناڑیوں کی حکومت کے بجائے ماہرین کی رہنمائی کی وکالت کرتا ہے۔ ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے جو سرمایہ داروں اور نجی جائیداد کا خاتمہ نہ کرسکے۔ ریاست پر قبضہ کیا جاسکتا ہے نہ ہی اسے سماج کے ایک نئے عہد کے آغاز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جیساکہ بعض سوشلسٹ کہتے ہیں۔
مسائل حل کرنے کے لیے متاثرین کا ایک اجلاس بلایا جائے اور عارضی نمایندے مقرر کیے جائیں جو ایک مخصوص مسئلے پر مباحثے کے نتیجے میں قائم ہونے والی رائے کا اظہار کریں۔ جیسے ہی متعلقہ مسئلہ لوگوں کی رائے لے لی جائے تو اعلان کرکے متعلقہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ پھر وہ خود کو نمایندہ سمجھنا ترک کردیں،کسی بھی صورت میں مندوب کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جو اس واحد معاملے کے علاوہ ہو، جس کے لیے اسے مندوب چنا گیا ہے۔ اختیارات کا دوسرے افراد پر استعمال ناگزیر طور پر بہترین طبقوں کو بھی بدعنوان بنا دیتا ہے۔
یہ ان کو خود غرض، متکبر، جابر اپنے مفادات کے متوالے اور ان کے مفادات سے غافل بنا دیتا ہے، جنھوں نے اس بااختیار منصب پر فائز کیا ہے۔ چونکہ حکومت کی سرشت میں قوت کا استعمال، جو فطری دوستوں کو جدا کرکے اور حریف قومیتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ فطری بھائیوں کو مختلف دشمن طبقات میں تقسیم کرتا ہے۔
یوں انارکسٹ کے نقطہ نظر سے اندرونی فساد اور بیرونی جنگ ''حکومت'' کے وجود سے ہے، مسٹر ڈکنسن کی جدید سیمپوزیم میں انارکسٹ مقرر کے الفاظ ہیں۔ حکومت کے معنی ہیں جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی جب کہ انارکی آزادی، اتحاد اور محبت ہے۔
آپ یہ سوال کریں گے کہ تعلیم کس طرح دی جائے گی۔ اگر کارکنوں کی اکثریت کو مناسب فراغت میسر ہو کہ وہ خود ایک دوسرے کو تعلیم دینے لگیں تو اس میں سے وہ جن میں تعلیم دینے کا شوق ہوگا دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بے چین رہیں گے اور رضاکارانہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور وہ ایک دوسرے پر اعلیٰ تدریسی معیار قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خواہش مند ہوں گے سی ای ایم جوڈ آگے چل کر مزید کہتا ہے کہ یہ بھی سوال ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی جارحیت کے بچاؤ کے لیے ریاست تو ضروری ہے۔
کروپوتکن کا کہنا ہے کہ لام بند فوجیں دھاوا بولنے والی فوجوں سے ہمیشہ شکست کھاتی ہیں، جس کی تاریخ گواہ ہے۔ ایسے حملے خودرو تحریک نے پسپا کیے ہیں جس کے منظم کرنے میں ریاست کا کوئی دخل نہیں رہا۔'' جیساکہ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، اسپین کی عوامی جنگ وغیرہ۔ اگرچہ پیرس کمیون اور آسپین کی عوامی جنگ کو شکست ہوئی تو یہ کوئی ردانقلاب نہیں تھے جیساکہ بعض کمیونسٹ کہتے ہیں۔
رد انقلاب عوام کی جانب سے ہوتا ہے ، جب کہ پیرس کمیون پر فرانس اور جرمن فوج اور اسپین پر روسی فوج نے حملہ کرکے قتل عام کیا یہ کوئی ردانقلاب نہیں تھا۔ سی ایم جوڈ کہتے ہیں کہ ابھی تک ریاست شہری کو بدقماش لوگوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ بدقماش کو ریاست جنم دیتی ہے۔
یہ افلاس کے ذریعے لوگوں کو جرائم کی طرف ہانکتی ہے، اس افلاس کا سبب ایک خستہ اور بے ڈھب معاشی نظام ہوتا ہے، پھر ان لوگوں کو جیل خانوں میں ڈال کر سزا دیتی ہے، اس طرح ان لوگوں پر جرائم پیشہ ہونے کا ایسا ٹھپہ لگا دیتی ہے جس سے ان کے لیے مستقبل میں دیانت داری سے حصول روزگار ناممکن ہو جاتا ہے ۔
مسٹر لوئس ڈکنسن کے مقرر کا کہنا ہے یہ سماج کا ڈھانچہ چھوٹی سے چھوٹی انجمن پر کھڑا ہوگا، چاہے وہ کسی دیہہ کی ہوں یا کسی کارخانے اور اعتماد رکھتا ہے کہ اس کے بعد بقیہ سماج کا تانا بانا اسی بنیادی عمارت اور اکائی سے ترتیب پائے گا۔ مفادات میں شاذ و نادر تصادم ہوگا اور نااتفاقی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ یہ مسابقت ہے جو دشمنی کو جنم دیتی ہے۔
مسابقت کو ختم کریں پھر دیکھیے انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ ہر اجنبی گروہ کو حریف سمجھ کر اس سے ڈرنے اور اسے نیچا دکھانے کے بجائے دوست سمجھا جانے لگے گا۔ پھر آزادی اور ملنساری کے لطیف جذبات ان حدود کو چھوئیں گے جنھیں ابھی تک کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔