افغانستان کودہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا ہے وزیر خارجہ
طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہرٹل گیا ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اورغیرمستحکم ہے، وزیر خارجہ
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کو دہشتگردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا ہے اورہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ہمارے خطے کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے، اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور عمومی طورپردنیا کے لئے گہرے مضمرات ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوسکا کہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے جس میں سکیورٹی فورسز کا یوں ریت کی دیوارثابت ہونا اور افغانستان کی حکومت کا ختم ہونا شامل ہے۔ قبل ازیں ہونے والے تمام اندازے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ دہائیوں سے جاری خون خرابہ دوہرایا نہیں گیا۔ طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے۔ بہت خدشہ تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے۔ ہم نے اس پیش رفت کو دیکھا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے نئے تناظر کو دیکھا جائے، ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق انداز فکراپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سرحدوں کے ساتھ سلامتی کی صورتحال افغان سرزمین کودہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا ہے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تواس کے بے پناہ ثمرات ہیں، جن میں محفوظ سرحدیں، افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ، افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے امکانات، معاشی استحکام، عوام کے معیار زندگی میں بہتری، خطے کو جوڑنے کے منصوبہ جات کو تعبیر دینا، علاقائی معاشی یکجائی میں اضافہ پرامن، مستحکم، خوش حال اور باہم ایک دوسرے سے جْڑے خطے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی سے نکلے اور اپنی بھرپورصلاحیت کو بروئے کار لائے۔ ہمیں افغان عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنا چاہیے ۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا، افغان مسئلے کا افغان حل ہی ہونا چاہیے اور ہمیں واضح کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا۔ عالمی برادری خاص طورپر اس کلیدی ونازک مرحلے پر اپنے رابطے برقرار رکھے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سفارتی اور عالمی موجودگی کی تجدید سے افغان عوام کو ایک نیا یقین واعتماد میسر آئے گا۔ اقوام متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی۔ مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکملہماری تجویز ہوگی کہ ہمسایہ ممالک کے اس اہم پلیٹ فارم کو مستقل اور باضابطہ مشاورتی نظام میں بدل دیاجائے
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ہمارے خطے کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے، اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور عمومی طورپردنیا کے لئے گہرے مضمرات ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوسکا کہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے جس میں سکیورٹی فورسز کا یوں ریت کی دیوارثابت ہونا اور افغانستان کی حکومت کا ختم ہونا شامل ہے۔ قبل ازیں ہونے والے تمام اندازے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ دہائیوں سے جاری خون خرابہ دوہرایا نہیں گیا۔ طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے۔ بہت خدشہ تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے۔ ہم نے اس پیش رفت کو دیکھا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے نئے تناظر کو دیکھا جائے، ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق انداز فکراپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سرحدوں کے ساتھ سلامتی کی صورتحال افغان سرزمین کودہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا ہے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تواس کے بے پناہ ثمرات ہیں، جن میں محفوظ سرحدیں، افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ، افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے امکانات، معاشی استحکام، عوام کے معیار زندگی میں بہتری، خطے کو جوڑنے کے منصوبہ جات کو تعبیر دینا، علاقائی معاشی یکجائی میں اضافہ پرامن، مستحکم، خوش حال اور باہم ایک دوسرے سے جْڑے خطے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی سے نکلے اور اپنی بھرپورصلاحیت کو بروئے کار لائے۔ ہمیں افغان عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنا چاہیے ۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا، افغان مسئلے کا افغان حل ہی ہونا چاہیے اور ہمیں واضح کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا۔ عالمی برادری خاص طورپر اس کلیدی ونازک مرحلے پر اپنے رابطے برقرار رکھے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سفارتی اور عالمی موجودگی کی تجدید سے افغان عوام کو ایک نیا یقین واعتماد میسر آئے گا۔ اقوام متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی۔ مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکملہماری تجویز ہوگی کہ ہمسایہ ممالک کے اس اہم پلیٹ فارم کو مستقل اور باضابطہ مشاورتی نظام میں بدل دیاجائے