زباں فہمی لام سے لطیفہ
ایک عمدہ لطیفہ کسی بھی شخص اور معاشرے کی برمحل، برجستہ اور جامع عکاسی کرنے کو کافی ہوتا ہے۔
زباں فہمی 114
شباب آیا، کسی بُت پر فِدا ہونے کا وقت آیا
مِری دنیا میں بندے کے خدا ہونے کا وقت آیا
راقم کا خیال ہے کہ پوری اردو شاعری میں اس مضمون کا کوئی اور شعر موجود نہیں۔ اس مشہور ِزمانہ شعر کے خالق تھے اپنے عہد کے ممتاز شاعر، نقاد اور صحافی پنڈِت ہری چند اختر ؔ(پندرہ اپریل سن انیس سو ایک تا یکم جنوری سن انیس سو اٹھاون)۔ پنڈت صاحب کا یہ شعر بھی اسی غزل سے ہے:
اُنھیں دیکھا تو زاہد نے کہا، ایمان کی یہ ہے
کہ اب انسان کو سجدہ روا ہونے کا وقت آیا
لطائف کی بات ہو تو ہم ایسے ہی باشعور سخنور کے لطائف سے آغاز کریں گے۔ قارئین کرام سوچ رہے ہوں گے کہ آج 'زباں فہمی' میں لطیفے کا ذکر کیوں ہورہا ہے۔ بات دراَصل یہ ہے کہ زبان کی تفہیم وتعلیم وتدریس میں یہ لطائف بھی اپنی جگہ بہت اہم ہیں، الفاظ، تراکیب، اصطلاحات ، محاورات اور ضرب الامثال کے بعد، انھیں بھی بہت اہمیت دی جاتی تھی اور آج بھی ان کا اپنا مقام ہے۔
ایک عمدہ لطیفہ کسی بھی شخص اور معاشرے کی برمحل، برجستہ اور جامع عکاسی کرنے کو کافی ہوتا ہے۔ {خاکسار نے تو اپنے مشہورسلسلہ ریڈیائی تقریر،''روشنی کے دریچے'' میں قرآنی آیا ت، روایات ِحدیث ، اقوال ِ زرّیں اور حکایات کے علاوہ، ایک پروگرام میں ایک لطیفے سے موضوع کا آغاز کرکے پروڈیوسر سمیت اکثر کو حیران کردیا تھا}۔ بعض لطائف اس قدر مشہور ہیں کہ انھیں ضرب المَثَل کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔
اس ضمن میں ادبی زبان کے ساتھ ساتھ، چالو بولی (عوامی بولی ٹھولی، جسے عرف عام میں Slang کہا جاتا ہے)، بھی ہرگز نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے یہاں علم وادب سے دوری کی وجہ سے جہاں ہر شعبے میں زوال آیا، وہیں اخلاقی اعتبار سے یہ ابتری بھی واقع ہوئی کہ اب معیاری لطیفہ سننے اور سنانے کا عمل بہت محدود ہوگیا ہے۔ لوگ پھکڑپن اور ابتذال ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں۔
کئی سال پہلے، ہمارے ایک مشہور، بزرگ مزاح نگار اپنی شہرت ومقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا'' کے مصداق ، یہ بات ایک اخباری انٹرویو میں کھُل کر کہہ چکے ہیں کہ ''پھکڑپن کوئی الگ چیز نہیں...جس پر ہنسی آجائے، وہ مزاح ہے''۔ خاکسار نے بہت مدت پہلے اُن کی ایک مزاحیہ ڈراما سیریز کے متعلق تنقیدی کالم بزبان فرنگی لکھتے ہوئے جہاں محاسن کی تعریف کی، وہیں اُن کے اس 'عامیانہ پن' بشمول 'گرنے پڑنے ' کا مزاح [Action comedy]کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا: ''Excess of..........is bad''۔ معاشرے کے بگاڑ کا اِس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ بظاہر بڑے ادیب بھی ایسی باتیں کہہ جائیں۔
خیر بات ہورہی تھی لطیفے کی تو میرے خیال میں لطیفے دو ہی طرح کے ہوتے ہیں: ایک تو حقیقی واقعے یا قصے پر مبنی اور دوسرے کسی کی ایسی گھڑت کہ سن کر سبھی محظوظ ہوں اور رفتہ رفتہ وہ حکایت بنے، پھر لطیفہ ہوجائے۔ بعض اُدَباء و شعراء (نیز صحافیوں) کے لطائف اُن کے سوانح حیات میں بطور خاص نمایاں حصہ رکھتے ہیں۔ (سوانح، جمع ہے سانحہ ہے کی، یہ مذکر ہے، مگر کیا کریں ، بطور کتاب ''سوانح حیات'' یا سوانح عمری کا استعمال مؤنث بھی درست مان لیا گیا ہے)۔ اس ضمن میں غالباً میرزا غالبؔ سرفہرست ہیں۔ اُن کے معاصرین ہی نہیں، بلکہ متقدمین (پیش رَو، یعنی پہلے گزرے ہوئے) میں بھی کسی کے نجی لطائف کو وہ شہرت نہیں ملی کہ زباں زَدِ خاص وعام ہوں۔
ہم نے ابتداء میں پنڈِت ہری چند اخترؔ کے دو شعر نقل کیے جو غالبؔ کے مدتوں بعد کے شاعر ہیں۔ اُن کے بھی بہت سے لطائف مشہور ہوئے یا یوں کہیے کہ پنڈِت ہری چند اخترؔ کی شوخ طبیعت نے بہت سے لطائف کو جنم دیا۔ ان کا سب سے مشہور لطیفہ یہ ہے: ایک دن پنڈِت صاحب، اپنے دوست، نامورشاعر جوش ؔملیح آبادی سے ملنے گئے اور رسماً خیریت دریافت کی،''جناب کے مزاج کیسے ہیں؟''۔ جوشؔ صاحب نے اپنی عادت کے عین مطابق اُن کی زبان پکڑی (یعنی گرفت کی)، کہنے لگے:''پنڈِت صاحب! آپ غلط اردو بول رہے ہیں۔ مزاج تو ایک ہی ہوتا ہے، میرا تو ایک ہی مزاج ہے''۔ کچھ دن گزرے تو دونوں حضرات کی دوبارہ ملاقات ہوئی، جوشؔ نے کہا،''ابھی ابھی جنگ ناتھ آزادؔ کے والد تشریف لائے تھے ''۔
پنڈِت اخترؔ نے برجستہ چوٹ کی:''کتنے؟''۔ {برسبیل تذکرہ عرض کروں کہ ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر فہیم اعظمی، خاکسار سمیت اپنے تمام ملاقاتیوں سے ہمیشہ پوچھتے تھے، ''کیسا مزاج ہے؟''۔ اُن کی گفتگو اور رہن سہن میں 'بِہاریت' بھی جھلکتی تھی اور مجھ سے شرارتاً، ایک سے زائد بار پوچھ چکے تھے، ''آپ بِہاری تو نہیں ہیں؟''۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اصل میں گورکھ پور، غازی پور، شکارپور کی طرح اعظم گڑھ بھی، بِہار سے بہت قریب ہے، اس لیے یہ مماثلت قدرتی ہے۔
اگر بندہ غلطی پر نہیں تو بِہاری بولی ٹھولی میں بھی اسی طرح مزاج پُرسی کی جاتی ہے۔ ویسے دلّی اور اطراف کے خالص اہل زبان کے یہاں ''کیسے مجاز ہیں''؟ رائج رہا ہے}۔ پنڈِت ہری چند اخترؔ سے ایک مرتبہ ایم۔ڈی (محمد دین) تاثیرؔ نے پوچھا،''یار میں نے سُنا ہے تُو حفیظ ؔ(جالندھری) کا شاگرد ہے''۔ موصوف جواباً تصدیق کی تو اس پر تاثیرؔ کی رگِ ظرافت پھڑکی اور بولے،''یار! میں تو تیری بڑی عزت کرتا تھا''۔ {بات کی بات ہے کہ یہ وہی تاثیرؔ ہیں، علامہ اقبال اور فیض ؔ کے دوست، جن کا یہ شعر بہت مشہور ہے: داوَرِ حشر! مِرا نامہ اعمال نہ دیکھ+اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں}۔ یہ ہے لطیفے کے ذریعے زبان کی نزاکت اور لطافت کا اظہار۔
انھی پنڈِت صاحب کا ایک اور مشہور شعر ہے:
بس اتنی بات کی خاطر تیرا محشر بپا ہوگا
ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا
کسی صاحب نے یہ شعر مشفق خواجہ (مرحوم )کو دکھا کر کہا کہ پنڈِت اخترؔ نے دوزخ کو مذکر باندھاہے، کیا یہ ٹھیک ہے۔ شگفتہ مزاج خواجہ صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ ''ہردوصورت میں اس سے پناہ مانگنی چاہیے'' پھر کچھ توقف سے فرمایا، '' مؤنث ہے، کیونکہ لوگ اِس کے عذاب سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں''۔ آن لائن تلاش وجستجو میں ہمیں جگرؔ مرادآبادی کی ایک غزل اسی زمین میں نظر آئی، جس کا مطلع ہے:
تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا
پنڈت اخترؔصاحب ہی کا ایک اور لطیفہ کچھ یوں ہے کہ انھوں نے کسی مشاعرے میں ایک شاعر کو، ہر شعر کی پیشکش پر یہ کہتے ہوئے سنا،''دیکھیے کس پائے کا شعر ہے''، تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے : ''چارپائے کا''۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقسیم وآزادی ہند کے بعد، قیام پاکستان کا معجزہ کیا رُونما ہوا کہ اردودشمنی کا ایک نیا باب بھی کھُل گیا۔ ایسے میں لاہور اور راول پنڈی سے ہندوستان جانے والے (علی الترتیب) ہری چنداخترؔ اور تلوک چند محروم (یکم جولائی سن اٹھارہ سو ستاسی تاچھَے جنوری سن انیس سو چھیاسٹھ)ؔ جیسے مشّاق سخنور اور اساتذہ، اردو کی ڈھال بن گئے، جنھوں نے آزادہندوستان میں مخالفت کی آندھی کا مردانہ وارسامنا کیااور اردو کی شمع فروزاں رکھی۔
فراقؔ گورکھ پوری کا ایک لطیفہ ہے (جو پنڈِت ہری چند اخترؔ سے بھی منسوب ہے): ایک کُل ہند مشاعرے میں کسی نوآموز شاعر نے فراقؔ کی زمین میں غزل پڑھتے ہوئے اُن کا ایک شعر بھی شامل کرلیا (یعنی چُرالیا)۔ فراق ؔ نے اس سے باز پُرس کی تو وہ ڈھٹائی سے بولا، ''ہوسکتاہے کہ خیال ٹکراگیا ہو؟؟''۔ (ایک اور جگہ یہ بیان ہوا کہ پنڈِت کی پوری غز ل ہی اپنے نام سے سناگیا)۔ فراقؔ نے اُسے مُسَکّت جواب دیا: ''میاں! کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بائیسکل، ہوائی جہاز سے ٹکراگیا ہو''۔ (بعض لوگ بائیسکل یا سائیکل کو، نیز، موٹر سائیکل کو، مذکر بولتے ہیں)۔ یہاں ناواقف نسلِ نو کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پرانے بزرگ یونہی اصلا ح فرمایا کرتے تھے۔ یہی واقعہ آج کے دور میں رُونما ہوتا تو بات بہت کھُل کر ہوتی، سر پٹھول تک نوبت جا پہنچتی اور شاید معاملہ مزید طول کھینچتا۔
ایسے چند ایک اور واقعات بھی لطیفہ بن کر مشہور ہوچکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک مشاعرے میں کسی نوجوان گستاخ نے احمد ندیم قاسمی جیسے معروف شاعر کا کلام، اُن کے روبرو پڑھ دیا اور بعداَزِیں اُن کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بولا،''ہم آپ کے بچے ہیں، اور بچوں کا حق، اپنے بڑوں کے مال پر تو ہوتا ہی ہے''۔ ('گلِ خنداں۔ ادبی لطائف' مرتبہ اقبال حسن رضوی)۔ {اب اگر اسی بیان کو دوسری طرح دیکھا جائے تو بات کہیں اور جانکلے گی۔ ہمارے ایک معتبر اور بزرگ معاصر نے، بیرون ملک مقیم، ایک متشاعرہ یعنی جعلی شاعرہ کو ایک نہیں، دو دیوان لکھ کر دے دیے کہ اپنے نام سے شایع کرکے مشہور ہوجائیں۔ وہ مشہور ہو بھی گئیں۔
یاروں نے شورمچایا، ایک ادبی اخبار نے اُن کی خوب خبر لی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ تم نے ڈالرز کے عوض اپنا کلام کیوں بیچ دیا، کیوں دیا اُسے؟ تو انھوں نے معصومیت سے جواب دیا:''میں نہ دیتا تو کوئی اور دے دیتا۔'' جعلی شعراء خصوصاً شاعرات کے فسانے اتنے ہیں کہ جب ذکر چھڑجائے تو بس... ..اللہ دے اور بندہ لے۔ ہمارے عہد کی سب سے مشہور متشاعرہ نے، ہماری ہی ایک بزرگ معاصر کے بقول گیارہ بزرگ شعراء سے لکھوایا، پھر ایک دو اور نے اس تعداد میں اضافہ کیا تو کُل تعداد تیرہ ہوگئی، جن میں کئی ایک اب ہم میں نہیں، یعنی دائم آباد جاچکے ہیں۔ یہ اور بات کہ جب اُن بزرگ شاعرہ سے ایک اخبار کے لیے انٹرویو لیتے ہوئے یہی سوال کیا گیا تو وہ بھڑک کر کہنے لگیں، خواتین ہی پر کیوں یہ الزام لگتا ہے (اس ضمن میں دو نجی واقعات بھی بہت دل چسپ ہیں، مگر خوفِ فساد ِ خلق سے ناگفتنی ہی رہیں تو بہتر)۔ اب پتا نہیں مزید کتنے بزرگ اس سرمائے میں اضافہ کرچکے ہیں)۔ وہ متشاعرہ بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔
ایک بہت مشہور متشاعرہ کا نام تو محض جعل سازی ہی نہیں، بلکہ ہمارے ایک عظیم قومی سانحے میں بعض حوالے سے شامل تفتیش ہوکر نمایاں ہوچکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جعلی شاعر مرد بھی تو ہوا کرتے ہیں، اُن کا ذکر کیوں نمایاں نہیں ہوتا۔ اس بابت کوئی بندہ خدا PhD کرے تو یقیناً دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
یہ اور بات کہ پورا سچ بولنا شاید پورا سچ سننے سے زیادہ آسان ہو۔ لگے ہاتھوں ایک اور، قدرے غیرمتعلق حکایت بھی آپ کی نذرکرتا ہوں: ہمارے ایک انتہائی بزرگ نے خاکسار کی صنف ہائیکو میں مخصوص شہرت کے سبب، اپنے ایک شاگرد کو سالانہ اردو ہائیکو مشاعرے میں دوسری بار پڑھوانے کے لیے، پہلے ہمارا کندھا استعمال کرنے کی سعی فرمائی۔ بڑے شدّومدّ سے پوچھا،''بھئی اُس کا نام فہرست میں شامل ہے کہ نہیں....ارے بھئی وہ یوں کہتا ہے، ایسا کہتا ہے....وغیرہ۔ آپ بات کریں....فُلاں صاحب سے، آپ کی تو مانیں گے''۔ جب اس ہیچ مدآں نے ٹال مٹول کی تو موصوف نے براہ راست کونسل جنرل سے بات کرلی اور یوں وہ صاحبزادے مشاعرے میں شامل ہوگئے۔ یہ الگ بات کہ یہ سانحہ دوبارہ رُونما ہونے کی نوبت نہیں آئی}۔
کسی مشاعرے میں مصرع ِ طرح تھا: ''غم نہ کرتو، بڑے رنج کا خوگر میں ہوں'' (یا غم نہ کر کہ تِرے رنج کا خوگر میں ہوں)۔ اسٹیج پر براجمان ایک صاحب ہر شاعر کے ہر شعر کے آخر میں 'میں ہوں' کا نعرہ بہ آوازِ بلند لگا لگا کر ہلکان ہورہے تھے۔ ایسے میں کسی شاعر کو شرارت سوجھی اور اپنی باری پر مطلع ادھور پڑھ کر چھوڑدیا، ''ناریل ہاتھ لگا، جس کے وہ بندر......'' نعرہ باز شخص بولا:''میں ہوں!''۔
تحریک آزادی کے عظیم رہنما، شاعر وصحافی اور سابق کرکٹر ، رئیس الاحرارمولانا محمد علی جوہرؔ کی انگریزی دانی کے انگریز بھی معترف تھے۔ کسی محفل میں اردو بولتے بولتے، بوجوہ انگریزی بولنے پر آئے تو ایک ریاست کی رانی نے ششدر ہوکر ، انتہائی اشتیاق سے سوال کیا:''مسٹر محمد علی! آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سے سیکھی؟''۔ جوہرؔ نے برجستہ جواب دیا: ''ایک چھوٹے سے گاؤں سے''۔ نکتہ یہ ہے کہ آکسفرڈ، اُس دور میں ایک چھوٹا سا گاؤ ں ہی تھا۔
یہاں ایک نجی لطیفہ پیش کرکے موضوع کو قدرے مختلف رنگ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوئی تئیس [23] سال پرانی بات ہے۔ خاکسار، ایک معاصر شاعر معراج جامی کے گھر پر، اُن سے محوگفتگو تھا کہ درمیان میں ہمارے ایک اور بزرگ معاصر منصور ملتانی (عارف منصورمرحوم) تشریف لے آئے، غالباً دفتر سے تھکے ہوئے لوٹے تھے۔ آتے ہی ایک آدھ بات کرکے، فرشی نشست سنبھالی اور خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔
مجھے اُن کے خراٹے سن کر شرارت سوجھی تو زوردار آواز میں کہا:''منصور صاحب! خانیوال آگیا ہے''۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھے اور بولے، ''اچھا...جب ملتا ن آجائے تو اُٹھا دینا'' اور یہ کہہ کر دوبارہ لڑھک گئے۔ اُن کے خراٹے گونج رہے تھے اور ہمارے قہقہے۔ وہ ملازمت کے سلسلے میں کبھی ملتان تو کبھی کراچی میں تعینات رہے۔ یہ واقعہ اُن کی ہمہ وقت مصروفیت کا عکاس ہے۔ منصور مرحوم بہت شفیق اور بذلہ سنج انسان تھے۔ انھوں نے میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، ایک مشاعرے میں مصرع طرح پر کہی ہوئی میری نعت کی بہت تعریف کی اور پھر مدت بعد، میری ہائیکو نگاری پر سرائیکی زبان میں مضمون لکھا۔
ہمارے مشرقی ادب میں چند حقیقی یعنی زندہ کردار ظرافت کی مجسم علامت بن کر ہمیشہ کے لیے اَمَر ہوگئے۔ صدیوں پہلے یہاں، ہندوستان میں، مُلّا دوپیازہ اور بِیربَل ہوگزرے ہیں، سندھ میں وَتایو فقیر جیسا منفرد کردار بھی مشہور ہے، جبکہ وسطِ ایشیا کے انتہائی معروف کردار، مُلّا (خواجہ) نصرالدین (نیز بہ روایت دیگر نصیرالدین) کو پورے برّاعظم میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی، حالانکہ وہ ترکی اور موجودہ اُزبکستان میں شامل سابق ریاست بخارا کے ہیرو ہیں۔ اُن کے بہت سارے لطائف اُن کی بے پناہ ذہانت، برجستہ گوئی اور بذلہ سنجی کا پتا دیتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کے بے مثل نابغہ/عبقری [Genius] تھے (اس کے ساتھ 'روزگار' یعنی زمانہ لگانا اضافی اور غیرضروری ہے، کیونکہ نابغہ لاکھوں کروڑوں میں کوئی ایک ہی ہوا کرتا ہے)۔ نصر الدین نگری نگری پھرنے والے سیلانی تھے جنھیں لوگوں نے آوارہ مَنَش بھی کہا، اُن کے حوالے سے اچھی بری بہت سی نجی حکایات بھی منقول ہیں، وہ اپنی علمیت کی بِناء پر شہر کے قاضی [Magistrate ]کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
اُن کا مقبرہ آق شہر (ترکی) میں ہے ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ نصر الدین نے اس مقصد سے بنوایا تھا کہ اُن کی موت کی خبر پھیل جائے اور وہ چپ چاپ ایک بار پھر جہاں گردی کو رَوانہ ہوگئے تھے، یہاں کوئی جسدِخاکی مدفون نہیں....مگر خیر جتنے مُنھ، اُتنی باتیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کسی شاعر نے اُن کے لیے کہا تھا: ''انھوںنے اپنا دل دھرتی کو دے دیا، حالانکہ وہ دنیا بھر میں ہَوا کی طرح چکر لگاتے رہے، اس ہَوا کی طرح جواُن کی موت کے بعد، اُن کے دل کی گلاب جیسی مہک ساری دنیا میں پھیلا آئی۔ دنیا کے ہمہ گیر حُسن کو دیکھنا ہی زندگی کا حُسن ہے۔ وہی زندگی حسین ہے جو ختم ہونے کے بعد، اپنی روح کے خالص جذبات چھوڑجاتی ہے''۔ (داستان خواجہ ٔبخارا، ملّا نصرالدین کی اَزقلم لیوینید سولوویف مترجمہ حبیب الرحمٰن، روہتاس بکس، لاہور: ۱۹۹۲ء)
شباب آیا، کسی بُت پر فِدا ہونے کا وقت آیا
مِری دنیا میں بندے کے خدا ہونے کا وقت آیا
راقم کا خیال ہے کہ پوری اردو شاعری میں اس مضمون کا کوئی اور شعر موجود نہیں۔ اس مشہور ِزمانہ شعر کے خالق تھے اپنے عہد کے ممتاز شاعر، نقاد اور صحافی پنڈِت ہری چند اختر ؔ(پندرہ اپریل سن انیس سو ایک تا یکم جنوری سن انیس سو اٹھاون)۔ پنڈت صاحب کا یہ شعر بھی اسی غزل سے ہے:
اُنھیں دیکھا تو زاہد نے کہا، ایمان کی یہ ہے
کہ اب انسان کو سجدہ روا ہونے کا وقت آیا
لطائف کی بات ہو تو ہم ایسے ہی باشعور سخنور کے لطائف سے آغاز کریں گے۔ قارئین کرام سوچ رہے ہوں گے کہ آج 'زباں فہمی' میں لطیفے کا ذکر کیوں ہورہا ہے۔ بات دراَصل یہ ہے کہ زبان کی تفہیم وتعلیم وتدریس میں یہ لطائف بھی اپنی جگہ بہت اہم ہیں، الفاظ، تراکیب، اصطلاحات ، محاورات اور ضرب الامثال کے بعد، انھیں بھی بہت اہمیت دی جاتی تھی اور آج بھی ان کا اپنا مقام ہے۔
ایک عمدہ لطیفہ کسی بھی شخص اور معاشرے کی برمحل، برجستہ اور جامع عکاسی کرنے کو کافی ہوتا ہے۔ {خاکسار نے تو اپنے مشہورسلسلہ ریڈیائی تقریر،''روشنی کے دریچے'' میں قرآنی آیا ت، روایات ِحدیث ، اقوال ِ زرّیں اور حکایات کے علاوہ، ایک پروگرام میں ایک لطیفے سے موضوع کا آغاز کرکے پروڈیوسر سمیت اکثر کو حیران کردیا تھا}۔ بعض لطائف اس قدر مشہور ہیں کہ انھیں ضرب المَثَل کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔
اس ضمن میں ادبی زبان کے ساتھ ساتھ، چالو بولی (عوامی بولی ٹھولی، جسے عرف عام میں Slang کہا جاتا ہے)، بھی ہرگز نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے یہاں علم وادب سے دوری کی وجہ سے جہاں ہر شعبے میں زوال آیا، وہیں اخلاقی اعتبار سے یہ ابتری بھی واقع ہوئی کہ اب معیاری لطیفہ سننے اور سنانے کا عمل بہت محدود ہوگیا ہے۔ لوگ پھکڑپن اور ابتذال ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں۔
کئی سال پہلے، ہمارے ایک مشہور، بزرگ مزاح نگار اپنی شہرت ومقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا'' کے مصداق ، یہ بات ایک اخباری انٹرویو میں کھُل کر کہہ چکے ہیں کہ ''پھکڑپن کوئی الگ چیز نہیں...جس پر ہنسی آجائے، وہ مزاح ہے''۔ خاکسار نے بہت مدت پہلے اُن کی ایک مزاحیہ ڈراما سیریز کے متعلق تنقیدی کالم بزبان فرنگی لکھتے ہوئے جہاں محاسن کی تعریف کی، وہیں اُن کے اس 'عامیانہ پن' بشمول 'گرنے پڑنے ' کا مزاح [Action comedy]کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا: ''Excess of..........is bad''۔ معاشرے کے بگاڑ کا اِس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ بظاہر بڑے ادیب بھی ایسی باتیں کہہ جائیں۔
خیر بات ہورہی تھی لطیفے کی تو میرے خیال میں لطیفے دو ہی طرح کے ہوتے ہیں: ایک تو حقیقی واقعے یا قصے پر مبنی اور دوسرے کسی کی ایسی گھڑت کہ سن کر سبھی محظوظ ہوں اور رفتہ رفتہ وہ حکایت بنے، پھر لطیفہ ہوجائے۔ بعض اُدَباء و شعراء (نیز صحافیوں) کے لطائف اُن کے سوانح حیات میں بطور خاص نمایاں حصہ رکھتے ہیں۔ (سوانح، جمع ہے سانحہ ہے کی، یہ مذکر ہے، مگر کیا کریں ، بطور کتاب ''سوانح حیات'' یا سوانح عمری کا استعمال مؤنث بھی درست مان لیا گیا ہے)۔ اس ضمن میں غالباً میرزا غالبؔ سرفہرست ہیں۔ اُن کے معاصرین ہی نہیں، بلکہ متقدمین (پیش رَو، یعنی پہلے گزرے ہوئے) میں بھی کسی کے نجی لطائف کو وہ شہرت نہیں ملی کہ زباں زَدِ خاص وعام ہوں۔
ہم نے ابتداء میں پنڈِت ہری چند اخترؔ کے دو شعر نقل کیے جو غالبؔ کے مدتوں بعد کے شاعر ہیں۔ اُن کے بھی بہت سے لطائف مشہور ہوئے یا یوں کہیے کہ پنڈِت ہری چند اخترؔ کی شوخ طبیعت نے بہت سے لطائف کو جنم دیا۔ ان کا سب سے مشہور لطیفہ یہ ہے: ایک دن پنڈِت صاحب، اپنے دوست، نامورشاعر جوش ؔملیح آبادی سے ملنے گئے اور رسماً خیریت دریافت کی،''جناب کے مزاج کیسے ہیں؟''۔ جوشؔ صاحب نے اپنی عادت کے عین مطابق اُن کی زبان پکڑی (یعنی گرفت کی)، کہنے لگے:''پنڈِت صاحب! آپ غلط اردو بول رہے ہیں۔ مزاج تو ایک ہی ہوتا ہے، میرا تو ایک ہی مزاج ہے''۔ کچھ دن گزرے تو دونوں حضرات کی دوبارہ ملاقات ہوئی، جوشؔ نے کہا،''ابھی ابھی جنگ ناتھ آزادؔ کے والد تشریف لائے تھے ''۔
پنڈِت اخترؔ نے برجستہ چوٹ کی:''کتنے؟''۔ {برسبیل تذکرہ عرض کروں کہ ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر فہیم اعظمی، خاکسار سمیت اپنے تمام ملاقاتیوں سے ہمیشہ پوچھتے تھے، ''کیسا مزاج ہے؟''۔ اُن کی گفتگو اور رہن سہن میں 'بِہاریت' بھی جھلکتی تھی اور مجھ سے شرارتاً، ایک سے زائد بار پوچھ چکے تھے، ''آپ بِہاری تو نہیں ہیں؟''۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اصل میں گورکھ پور، غازی پور، شکارپور کی طرح اعظم گڑھ بھی، بِہار سے بہت قریب ہے، اس لیے یہ مماثلت قدرتی ہے۔
اگر بندہ غلطی پر نہیں تو بِہاری بولی ٹھولی میں بھی اسی طرح مزاج پُرسی کی جاتی ہے۔ ویسے دلّی اور اطراف کے خالص اہل زبان کے یہاں ''کیسے مجاز ہیں''؟ رائج رہا ہے}۔ پنڈِت ہری چند اخترؔ سے ایک مرتبہ ایم۔ڈی (محمد دین) تاثیرؔ نے پوچھا،''یار میں نے سُنا ہے تُو حفیظ ؔ(جالندھری) کا شاگرد ہے''۔ موصوف جواباً تصدیق کی تو اس پر تاثیرؔ کی رگِ ظرافت پھڑکی اور بولے،''یار! میں تو تیری بڑی عزت کرتا تھا''۔ {بات کی بات ہے کہ یہ وہی تاثیرؔ ہیں، علامہ اقبال اور فیض ؔ کے دوست، جن کا یہ شعر بہت مشہور ہے: داوَرِ حشر! مِرا نامہ اعمال نہ دیکھ+اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں}۔ یہ ہے لطیفے کے ذریعے زبان کی نزاکت اور لطافت کا اظہار۔
انھی پنڈِت صاحب کا ایک اور مشہور شعر ہے:
بس اتنی بات کی خاطر تیرا محشر بپا ہوگا
ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا
کسی صاحب نے یہ شعر مشفق خواجہ (مرحوم )کو دکھا کر کہا کہ پنڈِت اخترؔ نے دوزخ کو مذکر باندھاہے، کیا یہ ٹھیک ہے۔ شگفتہ مزاج خواجہ صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ ''ہردوصورت میں اس سے پناہ مانگنی چاہیے'' پھر کچھ توقف سے فرمایا، '' مؤنث ہے، کیونکہ لوگ اِس کے عذاب سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں''۔ آن لائن تلاش وجستجو میں ہمیں جگرؔ مرادآبادی کی ایک غزل اسی زمین میں نظر آئی، جس کا مطلع ہے:
تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا
پنڈت اخترؔصاحب ہی کا ایک اور لطیفہ کچھ یوں ہے کہ انھوں نے کسی مشاعرے میں ایک شاعر کو، ہر شعر کی پیشکش پر یہ کہتے ہوئے سنا،''دیکھیے کس پائے کا شعر ہے''، تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے : ''چارپائے کا''۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقسیم وآزادی ہند کے بعد، قیام پاکستان کا معجزہ کیا رُونما ہوا کہ اردودشمنی کا ایک نیا باب بھی کھُل گیا۔ ایسے میں لاہور اور راول پنڈی سے ہندوستان جانے والے (علی الترتیب) ہری چنداخترؔ اور تلوک چند محروم (یکم جولائی سن اٹھارہ سو ستاسی تاچھَے جنوری سن انیس سو چھیاسٹھ)ؔ جیسے مشّاق سخنور اور اساتذہ، اردو کی ڈھال بن گئے، جنھوں نے آزادہندوستان میں مخالفت کی آندھی کا مردانہ وارسامنا کیااور اردو کی شمع فروزاں رکھی۔
فراقؔ گورکھ پوری کا ایک لطیفہ ہے (جو پنڈِت ہری چند اخترؔ سے بھی منسوب ہے): ایک کُل ہند مشاعرے میں کسی نوآموز شاعر نے فراقؔ کی زمین میں غزل پڑھتے ہوئے اُن کا ایک شعر بھی شامل کرلیا (یعنی چُرالیا)۔ فراق ؔ نے اس سے باز پُرس کی تو وہ ڈھٹائی سے بولا، ''ہوسکتاہے کہ خیال ٹکراگیا ہو؟؟''۔ (ایک اور جگہ یہ بیان ہوا کہ پنڈِت کی پوری غز ل ہی اپنے نام سے سناگیا)۔ فراقؔ نے اُسے مُسَکّت جواب دیا: ''میاں! کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بائیسکل، ہوائی جہاز سے ٹکراگیا ہو''۔ (بعض لوگ بائیسکل یا سائیکل کو، نیز، موٹر سائیکل کو، مذکر بولتے ہیں)۔ یہاں ناواقف نسلِ نو کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پرانے بزرگ یونہی اصلا ح فرمایا کرتے تھے۔ یہی واقعہ آج کے دور میں رُونما ہوتا تو بات بہت کھُل کر ہوتی، سر پٹھول تک نوبت جا پہنچتی اور شاید معاملہ مزید طول کھینچتا۔
ایسے چند ایک اور واقعات بھی لطیفہ بن کر مشہور ہوچکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک مشاعرے میں کسی نوجوان گستاخ نے احمد ندیم قاسمی جیسے معروف شاعر کا کلام، اُن کے روبرو پڑھ دیا اور بعداَزِیں اُن کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بولا،''ہم آپ کے بچے ہیں، اور بچوں کا حق، اپنے بڑوں کے مال پر تو ہوتا ہی ہے''۔ ('گلِ خنداں۔ ادبی لطائف' مرتبہ اقبال حسن رضوی)۔ {اب اگر اسی بیان کو دوسری طرح دیکھا جائے تو بات کہیں اور جانکلے گی۔ ہمارے ایک معتبر اور بزرگ معاصر نے، بیرون ملک مقیم، ایک متشاعرہ یعنی جعلی شاعرہ کو ایک نہیں، دو دیوان لکھ کر دے دیے کہ اپنے نام سے شایع کرکے مشہور ہوجائیں۔ وہ مشہور ہو بھی گئیں۔
یاروں نے شورمچایا، ایک ادبی اخبار نے اُن کی خوب خبر لی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ تم نے ڈالرز کے عوض اپنا کلام کیوں بیچ دیا، کیوں دیا اُسے؟ تو انھوں نے معصومیت سے جواب دیا:''میں نہ دیتا تو کوئی اور دے دیتا۔'' جعلی شعراء خصوصاً شاعرات کے فسانے اتنے ہیں کہ جب ذکر چھڑجائے تو بس... ..اللہ دے اور بندہ لے۔ ہمارے عہد کی سب سے مشہور متشاعرہ نے، ہماری ہی ایک بزرگ معاصر کے بقول گیارہ بزرگ شعراء سے لکھوایا، پھر ایک دو اور نے اس تعداد میں اضافہ کیا تو کُل تعداد تیرہ ہوگئی، جن میں کئی ایک اب ہم میں نہیں، یعنی دائم آباد جاچکے ہیں۔ یہ اور بات کہ جب اُن بزرگ شاعرہ سے ایک اخبار کے لیے انٹرویو لیتے ہوئے یہی سوال کیا گیا تو وہ بھڑک کر کہنے لگیں، خواتین ہی پر کیوں یہ الزام لگتا ہے (اس ضمن میں دو نجی واقعات بھی بہت دل چسپ ہیں، مگر خوفِ فساد ِ خلق سے ناگفتنی ہی رہیں تو بہتر)۔ اب پتا نہیں مزید کتنے بزرگ اس سرمائے میں اضافہ کرچکے ہیں)۔ وہ متشاعرہ بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔
ایک بہت مشہور متشاعرہ کا نام تو محض جعل سازی ہی نہیں، بلکہ ہمارے ایک عظیم قومی سانحے میں بعض حوالے سے شامل تفتیش ہوکر نمایاں ہوچکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جعلی شاعر مرد بھی تو ہوا کرتے ہیں، اُن کا ذکر کیوں نمایاں نہیں ہوتا۔ اس بابت کوئی بندہ خدا PhD کرے تو یقیناً دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
یہ اور بات کہ پورا سچ بولنا شاید پورا سچ سننے سے زیادہ آسان ہو۔ لگے ہاتھوں ایک اور، قدرے غیرمتعلق حکایت بھی آپ کی نذرکرتا ہوں: ہمارے ایک انتہائی بزرگ نے خاکسار کی صنف ہائیکو میں مخصوص شہرت کے سبب، اپنے ایک شاگرد کو سالانہ اردو ہائیکو مشاعرے میں دوسری بار پڑھوانے کے لیے، پہلے ہمارا کندھا استعمال کرنے کی سعی فرمائی۔ بڑے شدّومدّ سے پوچھا،''بھئی اُس کا نام فہرست میں شامل ہے کہ نہیں....ارے بھئی وہ یوں کہتا ہے، ایسا کہتا ہے....وغیرہ۔ آپ بات کریں....فُلاں صاحب سے، آپ کی تو مانیں گے''۔ جب اس ہیچ مدآں نے ٹال مٹول کی تو موصوف نے براہ راست کونسل جنرل سے بات کرلی اور یوں وہ صاحبزادے مشاعرے میں شامل ہوگئے۔ یہ الگ بات کہ یہ سانحہ دوبارہ رُونما ہونے کی نوبت نہیں آئی}۔
کسی مشاعرے میں مصرع ِ طرح تھا: ''غم نہ کرتو، بڑے رنج کا خوگر میں ہوں'' (یا غم نہ کر کہ تِرے رنج کا خوگر میں ہوں)۔ اسٹیج پر براجمان ایک صاحب ہر شاعر کے ہر شعر کے آخر میں 'میں ہوں' کا نعرہ بہ آوازِ بلند لگا لگا کر ہلکان ہورہے تھے۔ ایسے میں کسی شاعر کو شرارت سوجھی اور اپنی باری پر مطلع ادھور پڑھ کر چھوڑدیا، ''ناریل ہاتھ لگا، جس کے وہ بندر......'' نعرہ باز شخص بولا:''میں ہوں!''۔
تحریک آزادی کے عظیم رہنما، شاعر وصحافی اور سابق کرکٹر ، رئیس الاحرارمولانا محمد علی جوہرؔ کی انگریزی دانی کے انگریز بھی معترف تھے۔ کسی محفل میں اردو بولتے بولتے، بوجوہ انگریزی بولنے پر آئے تو ایک ریاست کی رانی نے ششدر ہوکر ، انتہائی اشتیاق سے سوال کیا:''مسٹر محمد علی! آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سے سیکھی؟''۔ جوہرؔ نے برجستہ جواب دیا: ''ایک چھوٹے سے گاؤں سے''۔ نکتہ یہ ہے کہ آکسفرڈ، اُس دور میں ایک چھوٹا سا گاؤ ں ہی تھا۔
یہاں ایک نجی لطیفہ پیش کرکے موضوع کو قدرے مختلف رنگ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوئی تئیس [23] سال پرانی بات ہے۔ خاکسار، ایک معاصر شاعر معراج جامی کے گھر پر، اُن سے محوگفتگو تھا کہ درمیان میں ہمارے ایک اور بزرگ معاصر منصور ملتانی (عارف منصورمرحوم) تشریف لے آئے، غالباً دفتر سے تھکے ہوئے لوٹے تھے۔ آتے ہی ایک آدھ بات کرکے، فرشی نشست سنبھالی اور خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔
مجھے اُن کے خراٹے سن کر شرارت سوجھی تو زوردار آواز میں کہا:''منصور صاحب! خانیوال آگیا ہے''۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھے اور بولے، ''اچھا...جب ملتا ن آجائے تو اُٹھا دینا'' اور یہ کہہ کر دوبارہ لڑھک گئے۔ اُن کے خراٹے گونج رہے تھے اور ہمارے قہقہے۔ وہ ملازمت کے سلسلے میں کبھی ملتان تو کبھی کراچی میں تعینات رہے۔ یہ واقعہ اُن کی ہمہ وقت مصروفیت کا عکاس ہے۔ منصور مرحوم بہت شفیق اور بذلہ سنج انسان تھے۔ انھوں نے میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، ایک مشاعرے میں مصرع طرح پر کہی ہوئی میری نعت کی بہت تعریف کی اور پھر مدت بعد، میری ہائیکو نگاری پر سرائیکی زبان میں مضمون لکھا۔
ہمارے مشرقی ادب میں چند حقیقی یعنی زندہ کردار ظرافت کی مجسم علامت بن کر ہمیشہ کے لیے اَمَر ہوگئے۔ صدیوں پہلے یہاں، ہندوستان میں، مُلّا دوپیازہ اور بِیربَل ہوگزرے ہیں، سندھ میں وَتایو فقیر جیسا منفرد کردار بھی مشہور ہے، جبکہ وسطِ ایشیا کے انتہائی معروف کردار، مُلّا (خواجہ) نصرالدین (نیز بہ روایت دیگر نصیرالدین) کو پورے برّاعظم میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی، حالانکہ وہ ترکی اور موجودہ اُزبکستان میں شامل سابق ریاست بخارا کے ہیرو ہیں۔ اُن کے بہت سارے لطائف اُن کی بے پناہ ذہانت، برجستہ گوئی اور بذلہ سنجی کا پتا دیتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کے بے مثل نابغہ/عبقری [Genius] تھے (اس کے ساتھ 'روزگار' یعنی زمانہ لگانا اضافی اور غیرضروری ہے، کیونکہ نابغہ لاکھوں کروڑوں میں کوئی ایک ہی ہوا کرتا ہے)۔ نصر الدین نگری نگری پھرنے والے سیلانی تھے جنھیں لوگوں نے آوارہ مَنَش بھی کہا، اُن کے حوالے سے اچھی بری بہت سی نجی حکایات بھی منقول ہیں، وہ اپنی علمیت کی بِناء پر شہر کے قاضی [Magistrate ]کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
اُن کا مقبرہ آق شہر (ترکی) میں ہے ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ نصر الدین نے اس مقصد سے بنوایا تھا کہ اُن کی موت کی خبر پھیل جائے اور وہ چپ چاپ ایک بار پھر جہاں گردی کو رَوانہ ہوگئے تھے، یہاں کوئی جسدِخاکی مدفون نہیں....مگر خیر جتنے مُنھ، اُتنی باتیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کسی شاعر نے اُن کے لیے کہا تھا: ''انھوںنے اپنا دل دھرتی کو دے دیا، حالانکہ وہ دنیا بھر میں ہَوا کی طرح چکر لگاتے رہے، اس ہَوا کی طرح جواُن کی موت کے بعد، اُن کے دل کی گلاب جیسی مہک ساری دنیا میں پھیلا آئی۔ دنیا کے ہمہ گیر حُسن کو دیکھنا ہی زندگی کا حُسن ہے۔ وہی زندگی حسین ہے جو ختم ہونے کے بعد، اپنی روح کے خالص جذبات چھوڑجاتی ہے''۔ (داستان خواجہ ٔبخارا، ملّا نصرالدین کی اَزقلم لیوینید سولوویف مترجمہ حبیب الرحمٰن، روہتاس بکس، لاہور: ۱۹۹۲ء)