یومِ شہدا اور دفاعِ وطن
14 اگست 1947 کے بعد شاید 6ستمبر1965وہ پہلا دن تھا جب ہم سب واقعی ایک ہوئے اور ایک نظر بھی آرہے تھے۔
6 ستمبر کو یومِ دفاعِ وطن کے حوالے سے پوری قوم کا افواجِ پاکستان اور اپنے آپ کو سلامِ عقیدت پیش کرنا تو اب ایک روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ 14 اگست 1947 کے بعد شاید 6ستمبر1965وہ پہلا دن تھا جب ہم سب واقعی ایک ہوئے اور ایک نظر بھی آرہے تھے۔
اب اس واقعے کو 56برس گزر چکے ہیں یہ کہنا شائد صحیح نہیں ہوتا کہ ہم آج بھی اُس اتحاد کو اُس طرح سے برقرار رکھے ہوئے ہیں مگر یہ دعوٰی بھی غلط نہ ہوگا کہ اس یاد کی روشن خوشبو ہمیں نہ صرف قومی اتحاد کی شکل میں ایک بار پھر ایک پیج پر جمع کرتی ہے بلکہ اپنے بزرگوں کے ہجوم سے کیے ہوئے وعدوں کو بھی ایک خوب صورت ورثے کی شکل میں نئی نسل کے حوالے کرتی ہے، مزید لطف اور شکر کی بات یہ ہے کہ نئی نسل نہ صرف اس امانت کا پاس کرتی ہے بلکہ اسے آگے لے جانے کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہے ۔
اتفاق سے اس برس ISPR کی طرف سے جو خصوصی قومی نغمہ تیار کیا گیا وہ بھی اسی وعدے اور ورثے ہی کی تھیم پر لکھا گیا ہے اور میں اسے اپنے لیے عزت اور افتخار کی بات سمجھتا ہوں کہ اس کی تحریر کی سعادت میرے حصے میں آئی لیکن اس کے ذکر اور تفصیل سے پہلے اُس خصوصی تقریب کا ذکر ضروری ہے جو ہر سال پاکستانی افواج اور ISPR کی طرف سے GHQ راولپنڈی کے ایک سبزہ زار میں ہمیشہ کی طرح بہت سلیقے اور اہتمام سے منائی گئی اس بار کووڈ 19کی وجہ سے حاضرین اور مہمانانِ خصوصی کی فہرست کو محدود اور مختصر کر دیا گیا تھا یعنی وہ آرٹسٹ جنھیں کسی نہ کسی حوالے سے اسٹیج پر آنا تھا وہ تو اپنی جگہ پر تھے مگر زندگی اور فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبوں سے جن لوگوں کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا اُن کی تعداد بہت کم رکھی گئی تھی۔
لاہور سے میں اور فردوس جمال ایک ساتھ آرہے تھے بہت دیر تک ہماری گفتگو کا موضوع عابد علی مرحوم رہا جس کی دوسری برسی دو دن قبل تھی جب کہ اُس سے ہم دونوں کی مشترکہ آخری ملاقات بھی اسی تقریب کے حوالے سے ہوئی تھی، تقریباً چالیس برس پر محیط اس دورانیے میں ہم تینوں نے مل کر بہت کام کیا تھا اور بہت اچھے دن ایک ساتھ گزارے تھے سو یہ خیال بہت تکلیف دہ تھا کہ اب اس سے اس تقریب میںتو کیا جیتے جی کہیں بھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔
جو گاڑی ہمیں لانے کے لیے بھیجی گئی تھی اُس کے ڈرائیور کا شمار دنیا کے مصروف ترین لوگوں میں کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس شیر کے بچے نے پورے سفر کے دوران شائد ہی کبھی دو منٹ سے زیادہ موبائل پر بات کیے بغیر گزارے ہوں اور مزید کمال کی بات یہ ہے کہ اس کی ساری گفتگو کے دوران کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جسے فوری طور پر کرنا ضروری ہو۔
بریگیڈیئر عمران نقوی ، کرنل ضامن اور اُن کی ٹیم نے مہمانوں کا ضرورت سے بھی زیادہ خیال رکھا کہ اُن کے عملے نے ہم سے ایسی ہدایات پر بھی تاکید سے عمل کروایا جن کی عملی شکل ہوٹل میں قیام سے لے کر تقریب کے اختتام تک کہیں بھی دکھائی نہیں دی۔ میرے استفسار پر ISPR کے دوستوں نے بتایا کہ آپ کے حوالے سے چیکنگ کے یہ تمام مراحل ہمیںبیچ میں لائے بغیر اُن کی ضمانت پر طے ہوتے رہے ہیں۔ فوج کے کردار سے متعلق انفرادی سطح پر کچھ لوگوں اور سیاسی پارٹیوں کے تحفظات اپنی جگہ مگر امرِ واقعہ یہی ہے کہ ڈسپلن کے اعتبار سے یہ ادارہ بہت ہی مستحکم ، شفاف اور فول پروف ہے ۔
دو گھنٹے کے دورانیے پر محیط یہ تقریب اس ڈسپلن کا ایک منہ بولتا ثبوت تھی۔مہمانوں کی آمد، اُن کی سیٹنگ، فوری ضروریات کی فراہمی، آڈیو اور ویڈیو کا عمدہ معیار اور اسٹیج پر ہونے والی ہر کارروائی کی ٹائمنگ، برجستگی اور پیش کش سب کے سب اپنی مثال آپ تھے، میزبانی کے فرائض عزیزی وصی شاہ اور عزیزہ سدرہ اقبال نے سرانجام دیے اور بہت خوش اسلوبی سے اپنی ذمے داریوں کو نبھایا، خصوصاً شہدا کے والدین اور برّی ، بحری اور ہوائی فوج کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف بہت بہادری سے لڑنے والی ایف سی اور پولیس کے محافظوں سے اُن کی گفتگو بہت برمحل، جاندار اور حوصلہ افزا تھی ۔
آخر میں فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اور اس کے سپریم کمانڈر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بہت جچے تلے اور موثر انداز میں یومِ شہدا کے ساتھ ساتھ دفاعِ وطن کے حوالے سے بہت گہری اور عمدہ باتیں کیں۔ تقریب کے آخر میں حسبِ معمول جنرل باجوہ اپنی بیگم اور سینئر افسران کے ہمراہ بیک اسٹیج آئے اور پروگرام میں حصہ لینے والے تمام فن کاروں اور ہم مہمانوں سے ہلکے پھلکے انداز میں اچھی اچھی اور مزے کی باتیں کیں کہ فنونِ لطیفہ سے اُن کی وابستگی اور دلچسپی اُن کی لفٹینی کے زمانے سے چلی آرہی ہے، میرے جس گیت سے اس پروگرام کا آغاز ہوا اسے بھی سراہا اور مجھے ایک بار پھر یاد دلایا کہ وہ پی ٹی وی کے سابقہ جنرل مینجر اور بے مثال میوزک پروڈیوسر سر رفیق وڑائچ کے بھانجے ہیں اور اُن سے میری پہلی ملاقات میرے ایک ڈرامہ سیریل ''فشار'' کے حوالے سے ہوئی تھی ۔
آخر میں اس قومی نغمے کی ایک خاص بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ اس کے حوالے سے بارہا مختلف تبدیلیوں سے گزرنا پڑا اور وہ یہ کہ وعدے اور ورثے کی تھیم تک تو نئی اور پرانی نسل کی ایک پلیٹ فارم پر موجودگی آسان بھی تھی اور بامعنی بھی مگر یہ شرط کہ جو سینئر فن کار اس میں حصہ لیں اُن کی سگی اولاد اُن کے ساتھ ہم آواز ہو بہت سخت کڑی اور مشکل تھی لیکن باہمی مشورے اور ربِ کریم کی نظرِ کرم سے یہ پہاڑ سر ہوگیا اور آپ نے دیکھا کہ شفقت امانت کے ساتھ اُن کا بیٹا سادات، سجاد علی کے ساتھ اُن کی صاحبزادی ضو علی اور عابدہ پروین کے نور چشم سارنگ لطیف نے کس طرح اپنی خوبصورت آوازوں سے اسے ایک ایسے شاہکار کی شکل دے دی ہے جو ایک یادگار کی شکل میں ہمیں شہیدوں کی قربانی اور دفاعِ وطن کی عظمت کا احساس دلاتا رہے گا۔( انشاء اللہ)