سندھ میں نجی جامعات کی رینکنگ روک دی گئی

’رینکنگ کے بجائے گریڈنگ ہوگی‘، فیصلے سے متعلق سفارشات سندھ ایچ ای سی کو پیش

’رینکنگ کے بجائے گریڈنگ ہوگی‘، فیصلے سے متعلق سفارشات سندھ ایچ ای سی کو پیش - فوٹو:فائل

سندھ کی نجی جامعات اور اسناد تفویض کرنے والے اداروں (ڈگری ایوارڈنگ) کو چارٹر تفویض کرنے والے ادارے "چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی" نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے پرائیویٹ یونیورسٹیز کی حالیہ رینکنگ کاعمل روک دیا ہے اور تمام نجی جامعات کے گزشتہ تین سال سے جاری انسپیکشن کی بنیاد پر انہیں رینک نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب ایک اور اہم فیصلہ کرتے ہوئے نجی جامعات کے ساتھ ساتھ سندھ کی سرکاری جامعات کا انسپیکشن کرنے اور انہیں بھی مستقبل میں نجی جامعات کی طرز پر گریڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ مستقبل میں انسپیکشن کی بنیاد پر نجی وسرکاری تمام جامعات کو رینک نہیں دیے جائیں گے بلکہ کیٹگریز بنا کر ان کی گریڈنگ کی جائے گی۔

چارٹر انسپیکشن اینڈ انسپیکشن کمیٹی نے اپنے اس فیصلے سے کنٹرولنگ اتھارتی سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو منظوری کے لیے آگاہ کردیا ہے اور سندھ ایچ ای سی سے منظوری لینے کے بعد ان دونوں فیصلوں سے بالترتیب نجی جامعات اور سرکاری جامعات کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

ادھر سرکاری جامعات کے انسپیکشن کے لیے تعارفی پروفارما تیار کر کے منظوری کے لیے سندھ ایچ ای سی بھی بھجوا دیا گیا ہے۔ چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع نے "ایکسپریس نیوز" کو ان دونوں فیصلوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ "ہم نے نجی جامعات کی انسپیکشن کا عمل مکمل کرلیا ہے تاہم انہیں رینک دینے کے سلسلے میں کارروائی روک دی ہے"۔

فیصلے کی وجہ سے آگاہ کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا تھا کہ "چارٹر انسپیکشن کمیٹی نے سندھ کی اکثریتی نجی جامعات اور اسناد تفویض کرنے والے اداروں کا انسپیکشن کوویڈ 19 کی وبا سے قبل کیا تھا۔ صرف 4 نجی جامعات اقراء یونیورسٹی، ضیاءالدین میڈیکل یونیورسٹی، انڈس یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی باقی رہ گئے تھے جن کے انسپیکشن کوویڈ کی وبا میں تعلیی ادارے بند ہو جانے کے سبب تقریباً ڈیڑھ سال تک نہیں ہوسکے تاہم جب ان مذکورہ چاروں اداروں کے دورے کیے گئے تو تعلیمی اداروں میں اکیڈمک صورتحال تبدیل ہوچکی تھی۔ کلاسز آن لائن تھیں فزیکلی طالب علم موجود نہیں تھے جبکہ کوویڈ میں فیکلٹی کی بھی مطلوبہ تعداد کیمپس میں موجود نہیں ہوتی تھی جس کے سبب ان دونوں کے علاوہ دیگر کچھ componentsکو بھی پر کھا نہیں جاسکا لہذا اگر ان componentsکے بغیر دیگرجامعات کے ساتھ ان اداروں کی رینکنگ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ان جامعات کے ساتھ انصاف نہیں ہوپائے گا"۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا تھا کہ "ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب چونکہ تمام نجی جامعات کے انسپیکشن کاعمل مکمل ہوچکا ہے لہذا انہیں خطوط بھیج کر ان جامعات کو خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ کر دیا جائے گا تاہم رینکنگ نہیں کریں گے"۔


ادھر ذرائع نے بتایا کہ ایک تفصیلی پروفارما تیار کر کے سندھ ایچ ای سی کو بھجوا دیا گیا ہے جو سرکاری جامعات کے انسپیکشن سے متعلق ہے اس پروفارمے کو کمیشن کے ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جا رہا ہے اورمنظوری کے ساتھ ہی اسے سرکاری جامعات کو بھجوا دیا جائے گا جس کے بعد سرکاری جامعات کے انسپیکشن کا عمل بھی شروع ہوگا۔

ادھر ایچ ای سی اور چارٹر کمیٹی کے حکام ابھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ سرکاری جامعات کا انسپیکشن پہلے سے نوٹیفائیڈ وائس چانسلرز کی ٹیم ہی کرے گی یا اس میں نجی شعبے سے بھی ماہرین شامل کیے جائیں گے کیونکہ فی الحال موجود ٹیم میں موجود اراکین کا تعلق سرکاری جامعات سے ہے جو نجی جامعات کا انسپیکشن کرتے ہیں۔

ادھر یہ معاملہ بھی زیرغور ہے کہ اگر سرکاری جامعات کے انسپیکشن کے لیے نجی جامعات سے افراد کو شامل کیا جاتا ہے تو کیا سرکاری جامعات خود اسے تسلیم کریں گی کیونکہ سندھ کی نجی جامعات کی اکثریت میں فیکلٹی اور سربراہان خود سرکاری جامعات کے فارغ التحصیل ہیں اور وہ خود سرکاری جامعات کی ہی پروڈکٹ ہیں۔

علاوہ ازیں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ نجی جامعات کے ساتھ ساتھ سرکاری جامعات کے انسپیکشن کے بعد یونیورسٹیز کو رینک نہیں کیا جائے گا۔

اس حوالے سے چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا تھا کہ "عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ نجی جامعات کو جب رینک دیا جاتا ہے تو یہ داخلوں کے وقت اس کا غلط استعمال کرتی ہیں جبکہ چند مارکس سے ایک یونیورسٹی رینک میں کسی دوسری یونیورسٹی سے نیچے ہوجاتی ہے جس پر اعتراضات آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد بھی اب گزشتہ کئی سال سے رینکنگ کا سلسلہ ختم کر چکا ہے، ہم ایچ ای سی کی منظوری سے اب درجہ بندی کریں گے اور مختلف درجے بناکرجامعات کوان کی کارکردگی کی بنیادپر ان درجوں میں شامل کریں گے جس کاغلط استعمال بھی نہیں ہوسکے گا"۔

واضح رہے کہ چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی اب سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ماتحت ہے اور ڈاکٹر طارق رفیع اس کے نئے مستقل سربراہ ہیں جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ہیں۔ اس سے قبل یہ کمیٹی گورنر سندھ کے ماتحت ہوا کرتی تھی اور سابق چیئرمین چارٹر کمیٹی ڈاکٹر قدیر راجپوت کی تقرری سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کی تھی جبکہ ان کی مدت ملازمت میں اسی عہدے پر سندھ کابینہ کی جانب سے ایک بار پھر توسیع دی گئی تھی۔
Load Next Story