وقت کیسے بچائیں

مشینی زندگی سے پہلے انسان کے پاس وقت بہت تھا، اب نہیں ہے،سبب کیا ہے؟


مشینی زندگی سے پہلے انسان کے پاس وقت بہت تھا، اب نہیں ہے،سبب کیا ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

آج سے سات آٹھ عشرے پیچھے کی دنیا پر نظر ڈالیں، جب سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت زیادہ ترقی نہیں کی تھی، ہر کام کے لیے مشینیں دستیاب نہیں تھیں۔

انسان بیشتر کام ہاتھ سے سر انجام دیتے تھے، گاؤں دیہات میں کھیتی باڑی کے مشکل اور وقت طلب کام بھی انسانی مشقت سے سرانجام پاتے تھے، منہ اندھیرے اْٹھ کر مرد ہل چلانے اور پانی لگانے کے لئے کھیتوں کا رْخ کرتے اور خواتین دن بھر استعمال ہونے والا اناج پیسنے کے لیے چکی جھونکنا شروع کر دیتی تھیں۔

کپڑے اور بستر بنوانے کے لئے دھاگہ تک گھر میں روئی خشک کر کے، چرخے پر کات کر ، باریک پنیوں کی صورت جولاہے کو فراہم کیا جاتا تھا تاکہ افرادِ خانہ کے لیے لباس تیار ہو سکیں۔

عورت ہو یا مرد دونوں کے پاس تمام دن ایک گھڑی کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی ، اس کے باوجود وہ نماز کے بھی عادی تھے اور تلاوتِ کلام بھی ان کی صبح کا لازمی جزو تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی مصروفیت اور جسمانی مشقت کے باوجود ان لوگوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت کی اور نہ کوئی کام وقت نہ ملنے کے بہانے پر ادھورا چھوڑا ۔

تین چار عشرے پیچھے دیکھیں تو مختلف کاموں کے لئے مشینری متعارف ہونا شروع ہوئی اور مرد و زن کو شدید جسمانی مشقت کے امور سے آزادی ملنا شروع ہوئی ، بجلی آئی تو اس کے ساتھ برقی استعمال کی مصنوعات بھی معاشرے میں عام ہونے لگیں ۔ ان سہولیات کو لوگوں نے مثبت استعمال کیا اور زندگی سے لطف اٹھانے کے نئے دور کی طرف قدم بڑھایا ۔ اس سب کے باوجود مرد و زن اپنے وقت کا بامقصد استعمال کرتے رہے اور کبھی کسی ذمہ داری کی انجام دہی کے حوالے سے وقت نہ ہونے کا بہانہ نہیں بنایا ۔

اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا جیسے پلک جھپکنے میں تبدیل ہوگئی ۔ اسمارٹ فون، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ جیسی ایجادات کے عام ہونے نے انسان کو جیسے ایک نئی دنیا کا مکین کر دیا ۔ پوری دنیا ہاتھ میں پکڑی چند انچ کی سکرین کے ذریعے باہم مربوط ہو گئی ۔ گھریلو، صنعتی، دفتری ہر نوعیت کے کام کے لیے طرح طرح کی مشینیں دستیاب ہوتی گئیں اور گھنٹوں میں ہونے والے کام منٹوں میں ہونے لگے ۔

حیرت کا معاملہ یہ ہوا کہ انسانی توانائی اور وقت کی مشینری کے استعمال سے جس قدر بچت ہونی چاہیے تھی ، وہ نہ ہوئی ۔ کہاں وہ زمانہ کہ شدید جسمانی و ذہنی مشقت کے کام کے بعد بھی لوگ ہشاش بشاش، مطمئن، چاک و چوبند اور خوش رہتے تھے، شدید مصروفیات کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ سکھ، خوشی غمی میں بھرپور طریقے سے شامل ہوتے تھے اور وقت کی کمی کا رونا رو کر کسی بھی معاملے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔

آج جب مشینوں نے جسمانی مشقت بہت کم کر دی ہے، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ جیسی سہولیات نے ذہنی مشقت کا بوجھ بھی بانٹ لیا ہے تو عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ انسان وقت کی کمی کی شکار ہو گیا ہے۔ کیا بچے، کیا بزرگ ، کیا گھریلو خواتین اور کیا ملازمت پیشہ و کاروباری طبقہ ... ہر ایک کا دن جیسے چوبیس کی بجائے بارہ گھنٹے کا ہو کر رہ گیا ہے ۔ جس سے پوچھ لیں، اس کے پاس دوسرے کی بات تک سننے کا وقت نہیں ہے، دکھ سکھ کرنے کا وقت نہیں ہے، کسی کے کام آنے کا وقت نہیں ہے ۔

مختلف اسکرینز کے ذریعے انسان پوری دنیا سے تو رابطے میں ہے لیکن اپنے اردگرد موجود لوگوں سے کٹ کر رہ گیا ہے ۔ بے مقصد وقت ضائع کرتا ہے اور پھر وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر خود کو تسلیاں دیتا ہے ۔ وہ سہولیات جو اس کا قیمتی وقت بچانے کے لیے بنائی گئیں، انہی کے ذریعے وقت ضائع کرتا جا رہا ہے ۔

وقت سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہے ۔ یہ ایسی نعمت ہے جس کی گھڑیاں آگے کو بڑھ رہی ہیں اور پیچھے لوٹ آنا ان کے بس میں نہیں ہے ۔ گزر گیا تو گزر گیا ، اب جتنی مرضی کوشش کریں، آپ کے پاس واپس نہیں آئے گا ۔ کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ '' پہلے وقتوں میں انسان وقت گزارتا تھا اور آج وقت ہمیں گزار رہا ہے ۔''

وجہ ہمارا غیر فطری طرزِ زندگی ہے ۔ جتنا ہم فطرت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، وقت بھی اتنا ہی دسترس سے نکلتا جا رہا ہے ۔ اگر ہم اپنے لیے کچھ اصول طے کر لیں تو وقت نہ ہونے اور وقت ضائع ہونے جیسی شکایات پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

1۔ اوقاتِ کار کی تقسیم کریں

جتنی آپ کی زندگی منظم ہو گی ، اتنا ہی آپ کا وقت کم ضائع ہو گا ۔ سونے جاگنے ، کھانے پینے، کام کرنے، آرام ، مطالعہ ، سکرین کے استعمال اور اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنا تک کے اوقات متعین کریں اور سختی سے ان پر عمل کریں ۔ جب آپ اپنی حدود کا تعین کر لیتے ہیں تو معاملات خود بخود آپ کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں۔

جہاں آپ خود کو رعایت دیتے ہیں، وہیں نفس مزید رعایت پر اکساتا ہے اور آپ چیزوں اور معاملات پر گرفت کمزور کرتے چلے جاتے ہیں ۔ خود سے عہد کریں کہ وقت ضائع نہیں کرنا اور ہر لمحہ متعین اوقاتِ کار کے مطابق گزارنا ہے۔

2۔ مثبت اور تعمیری کام کریں

زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا اولین تقاضا اسے بامقصد اور تعمیری کاموں میں صرف کرنا ہے۔ زندگی ہر طرح کے لوگوں کی گزر جاتی ہے کیونکہ اس کا کام ہی گزرنا ہے ، لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنا وقت اور توانائی لوگوں اور معاشرے کے فائدے کے لیے استعمال کی، وہ انسانی تاریخ میں امر ہو گئے ۔ کوشش کریں کہ روزانہ کم از کم ایک ایسے مثبت کام میں بھی وقت لگائیں، جس سے آپ کی دنیا و آخرت بہتر ہو سکے۔

3۔ احساسِ ذمہ داری اپنائیں

یاد رکھیں آپ کے پاس موجود وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے ، یہ وہ سرمایہ ہے جسے کھونے کے بعد انسان فقط ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے لیکن یہ واپس نہیں آتا، اس لیے بعد میں پچھتانے اور کفِ افسوس ملنے سے بہتر ہے کہ آپ اس خزانے کی اہمیت کا احساس کریں اور اسے بھرپور استعمال کریں ۔ انسان کے ہاتھ میں سب سے زیادہ قیمتی چیز یہی وقت ہے، اس لیے اس کی اہمیت کا ادراک کریں، خود کو بہتر بنانے کی کوشش ہر لمحہ جاری رکھیں ، سیکھنے اور سکھانے کا عمل جاری رکھیں۔

زندگی کے ہر پل کا پوری ذمہ داری اور نعمت کی قدر کے احساس کے ساتھ استعمال کریں اور آپ دیکھیں گے کہ یہ مختصر سی زندگی کتنی بھرپور اور معنی خیز ہو جائے گی ۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ آدمی کے فہم و دانش کا تقاضا ہے کہ وہ ختم ہو جانے والی زندگی کے اوقات و ادوار کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے، زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کو مد نظر رکھے کہ اس کی ہر چیز، ہر عمل، ہر قول و فعل کی بازپرس ہو گی ، تو وہ کبھی وقت ضائع نہ کرے۔

4۔ ناقدری مت کریں

وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے اور قدردانی یہ ہے کہ آپ وقت کا صحیح استعمال کریں، اسے بیکار اور فضول ضائع نہ کریں، وقت کو فضول ضائع کر دینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے ، وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے ۔ سوائے ندامت کے آپ کے پاس تدارک کی کوئی اور صورت نہیں رہ جاتی۔ جو لمحہ ، جو گھڑی ہاتھ سے نکل گئی، وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آ سکتی۔

زندگی چند محدود گھڑیوں سے عبارت ہے، لہذا وقت کی پوری نگہداشت کریں اور ادھر ادھر کی باتوں، خرافات اور لغویات میں اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہ کریں ۔ یاد رہے کہ آپ کے وقت کا ہر سیکنڈ، ہرگھڑی اور ہر منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتی ۔ جس نے وقت کی قدر کرنا سیکھ لیا اس نے گویا خود کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ۔

5۔ کاہلی اور بے مقصدیت ترک کر دیں

جو لوگ کاہلی کو قریب نہیں آنے دیتے، زندگی کا قیمتی وقت بے مقصد نہیں گزارتے، کامیابی انہی کے ہم قدم ہوتی ہے۔ جس شخص نے اپنے وقت کو بامقصد بنا لیا، اس نے تمام عناصر قدرت کو گویا اپنے ہاتھ میں لے لیا، وہ چاہے تو فضاؤں کو تسخیر کر لے، چاہے تو پہاڑوں کو گلزار بنا دے اور چاہے تو زمانہ کی قیادت سنبھال لے ۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس قیمتی خزانے کو اپنی سستی، کاہلی اور بے مقصدیت کی نذر کر دیتے ہیں، وقت بھی ان پر رحم نہیں کرتا اور انہیں اسی طرح ضائع کر کے ناکام بنا دیتا ہے ۔ وقت ایک تند و تیز ہوا کی طرح ہے، جو بغیر رکے اڑتا چلا جا رہا ہے، آپ نے اپنی رفتار کو اس کے ساتھ ملانا ہے، ورنہ یہ آپ کو روند کر آگے بڑھ جائے گا ۔

عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے '' وقت تلوار کی طرح ہے، اگر تم اس کو نہیں کاٹو گے تو وہ تمہیں ضرور کاٹ دے گا ۔'' دن بھر موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ٹیلی ویژن کی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر وقت گزار کر ہم ایک بے مقصد زندگی جی رہے ہیں جو ہماری اندرونی بے چینی اور بے سکونی کا سبب بن رہی ہے ۔ ایسا کر کے ہم نہ صرف اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں بلکہ اپنی قسمت کے دروازے بھی اپنی کاہلی کے ہاتھوں خود پر بند کر رہے ہیں ۔

6۔ وقت میں برکت کی کوشش اور دعا

دن رات کے اوقات آج بھی وہی چوبیس گھنٹے ہیں جو ہمیشہ سے تھے۔ ہمارے بزرگوں کے دور میں بھی یہی اوقات تھے، لیکن وہ کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ وقت کا مثبت، بھرپور اور تعمیری استعمال کر کے ہر لمحے کو گزارتے تھے، اسے ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو ضائع نہیں کرتے، بلکہ ان کا بہترین استعمال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی کوشش میں برکت ڈال دیتا ہے اور جن لوگوں کے وقت میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دے ، ان کا وقت نفع بخش کاموں میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بھاگتی اس تیز رفتار زندگی میں کچھ تعمیری کر کے اپنا حصہ ڈالیں تو اس کے لیے خود کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک فطری اور منظم طرزِ زندگی ہی وقت کو ضائع ہونے سے بچانے میں معاون ہو سکتا ہے. اگر آپ خود کو فطری طرزِ زندگی اختیار کرنے کی کوشش میں کامیاب کر پاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں وہ آپ کے وقت میں برکت عطا فرمائے تاکہ آپ زندگی کا حق بھی ادا کر سکیں اور اس سے لطف اندوز بھی ہو سکیں۔

آج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز ہی وقت بن چکا ہے۔ لوگ ہوٹلوں، نجی محفلوں میں اسکرین کی طرف منہ کیے گھنٹوں بے مقصد گزار دیتے ہیں اور اس سے سر اٹھائیں تو کتنا ہی وقت نکتہ چینی، غیبت اور بے تحاشا سونے میں ضائع کر دیتے ہیں۔

اندازہ کریں روز قیامت انسان کی سب سے بڑی آرزو ہی یہ ہو گی کہ کسی طرح اسے گزری زندگی کا ایک لمحہ ہی میسر آ جائے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کی تلافی کر کے اس امتحان میں سرخرو ہو جائے لیکن آج لمحہء موجود میں ہم ان لمحات کی قدر و قیمت نہیں پہچان پا رہے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں وقت کی قدر اور مختصر زندگی میں اس کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں