پینٹاگون کی سیکرٹ آرمی
امریکا نے دنیا بھر میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ایک خفیہ فوج کھڑی کر لی…چشم کشا انکشافات
یہ 29اگست2021ء کی دوپہرہے۔سورج آب وتاب سے چمک رہا ہے۔افغان دارالحکومت ،کابل کے ایک محلے میں سڑک پہ تین چار گاڑیاں کھڑ ی ہیں۔
گاڑیوں میں مرد،خواتین اور بچے سوار ہیں۔یہ خاندان کابل ہوائی اڈے جا رہے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ وہاں سے امریکا پرواز کر جائیں۔خاندان کے مرد عالمی اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔جب طالبان نے اقتدار سنھالا تو انھیں خوف محسوس ہوا کہ طالبان میں شامل شدت پسند غیرملکیوں کے لیے کام کرنے پہ انھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اسی لیے انھوں نے امریکا جانے کا ارداہ کر لیا۔انھیں امریکی ویزہ بھی مل گیا۔
اس دوپہر وہ ہوائی اڈے جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک ان پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ہوا یہ کہ جہاں ان کی گاڑیاں کھڑی تھیں،اس کے قریب ہی ایک اور بھی گاڑی موجود تھی۔ایک امریکی ڈرون نے اس پہ میزائل دے مارا۔میزائیل نے پورے علاقے میں تباہی مچا دی۔اس گاڑی کے علاوہ اردگرد کھڑی گاڑیاں بھی آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔
امریکا کے اس حملے میں دس افغان مارے گئے۔ان میں ''سات بچے''بھی شامل تھے جن کی عمریں چار پانچ سال تھیں۔بچوں کو مردہ دیکھ کر ان کے بچ جانے والے والدین غم وغصّے سے پاگل ہو گئے۔امریکی حکومت نے تو ان کی دنیا ہی اندھیر کر دی۔
امریکاکا دعویٰ ہے کہ ٹارگٹ شدہ گاڑی میں آئی ایس آئی خراسان کا دہشت گرد موجود تھا۔اس نے کابل ہوائی اڈے پہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔اسے مارنے کے لیے ہی میزائیل چھوڑا گیا۔مگر امریکی ہتھیار نے بے گناہ اور معصوم افغانوں کی بھی جانیں لے لیں۔
یہ عام خفیہ فوج نہیں: گاڑی میں ''دہشت گرد''موجود ہونے کی اطلاع امریکی حکومت کو اس کے ایک مقامی افغان ایجنٹ نے دی تھی ۔یہ ایجنٹ امریکا کی اس وسیع خفیہ فوج کا حصہ تھا جو آج دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیل چکی۔دور حاضر میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کُل عالم میں اپنے مفادات پورے کرنے والی سرگرمیاں باقاعدہ افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بجائے اسکی اپنی خفیہ فوج یا سیکرٹ آرمی کے سپرد کر رہی ہے۔
یہ امریکی حکمران طبقے کی فکر وعمل میں در آنے والی بہت بڑی تبدیلی ہے جس نے بتدریج حادثہ نائن الیون کے بعد جنم لیا۔پاکستان کو چھوڑئیے،امریکا میں بھی عوام اس خفیہ فوج کی موجودگی سے بے خبر تھے۔وہ تو بھلا ہو ایک بہادر امریکی صحافی کا جس نے اس سیکرٹ آرمی کے راز افشا کر ڈالے۔ایسے جرنلسٹ و محقق ہر ملک میں ہونے چاہیں تاکہ وہ اپنی حکومتوں کی چال بازیاں اور خامیاں اجاگر کرتے رہیں۔
یہ کوئی عام خفیہ فوج نہیں،اس کا دائرہ کار پوری دنیا کے انسانوں اور ان کی زندگیوں کے مختلف پہلوئوں اور شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔اب امریکی حکومت اسی فوج کی مدد سے امریکا ہی نہیں دنیا بھر کے مردوزن پہ نظر رکھے ہوئے ہے۔
جو بھی فرد یا افراد امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنے،خفیہ فوج کے کارندے کسی نہ کسی طرح اسے جان سے مار ڈالتے ہیں...مگر اس عیّاری سے کہ کوئی جان ہی نہیں پاتا کہ قتل کے پیچھے کون سی طاقت چھپی بیٹھی ہے۔یہ سیکرٹ آرمی تشکیل دے کر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جاسوسی،نگرانی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے خطرناک اعمال کو نئے معنی پہنا دئیے۔
کمیونسٹوں کا مخالف روسی ادیب: وطن عزیز میں کم ہی لوگ یوگنی زمیاتین(Yevgeny Zamyatin)سے واقف ہیں مگر یہ روس کا انقلابی و دلیر ادیب گزرا ہے۔ایک پادری کا بیٹا تھا لیکن نوجوانی میں عیسائی ہم وطنوں کے دقیانوسی اعمال سے برگشتہ ہو کر کمیونسٹ ہو گیا۔اس نے پھر روس کی شاہی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت میں حصّہ لیا۔گرفتار ہو کر قید ہوا ۔
جیل میں اسے تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔رہائی کے بعد برطانیہ چلا گیا۔جب 1917ء میں کمیونسٹوں نے روس کی حکومت سنبھالی تو واپس آ گیا۔یوگنی زمیاتین سمجھتا تھا کہ ایک صحت مند انسانی معاشرہ اسی وقت تشکیل پاتا ہے جب انسانوں کی سوچ پہ ناجائز طور پر پہرے نہ بٹھائے جائیں۔انھیں تحریر وتقریر کی آزادی حاصل ہو۔دانشورکھل کر خصوصاً حکومت پہ تنقید کریں تاکہ وہ راہ حق سے ہٹنے نہ پائے اور عوام کی ترقی وخوشحالی کو مدنظر نہ رکھے۔مگر کیمونسٹوں نے اقتدار سنبھال کر جلد آزادی تحریر وتقریر پہ پابندیاں لگا دیں۔
ادب،صحافت اور فنون لطیفہ بھی سینسر شپ کی زد میں آ گئے۔کمیونسٹ ہونے کے باوجود یوگنی زمیاتین کو اپنی حکومت کی روش پسند نہیں آئی۔وہ مضامین لکھ کر کمیونسٹ گورنمنٹ پر شدید تنقید کرنے لگا۔اس نے یہ نکتہ ابھارا کہ حکومت عوام کے جذبات و احساسات کو پروپیگنڈے کے بل پہ کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
مدعا یہ ہے کہ عام لوگ بھی اپنی زندگیاں کمیونسٹ نظریات کے مطابق ڈھال سکیں۔زمیاتین کے نزدیک یہ چلن انسان کی آزادی کا گلا گھونٹنے اور اپنی مرضی اس پہ مسلط کرنے کے مترادف تھا۔گویا کمیونسٹوں نے روس میں ایک طرح کی مطلق العنانیت (Totalitarianism) رائج کر دی۔ایسی حکومت میں حزب اختلاف تقریباً عنقا ہوتی ہے اور کسی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
اس وقت روس میں جو اب سوویت یونین کہلانے لگا تھا،بیشتر ادیب کمیونسٹوں کی مدح میں لکھ رہے تھے۔ان میں مشہور لکھاری،میکسم گورکی بھی شامل تھا۔مگر زمیاتین آزادی اظہار پہ پابندیاں لگنے کی وجہ سے خوش نہ تھا۔وہ ایک بہادر ادیب تھا۔اسے علم تھا کہ سرکاری خفیہ ایجنسیاں اس کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔مگر اس نے تنقید کرنا ترک نہ کیا۔
حتی کہ کمیونسٹوں کی مطلق العانینت اجاگر کرنے کے لیے ایک ناول''وی''(We)لکھ ڈالا۔یہ تاریخ ساز ناول1921ء تا 1922ء کے مابین لکھا گیا جب کمیونسٹ روس کو اپنے مخصوص نظریات پہ ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔چونکہ ناول میں حکومت کی خامیاں اور کوتاہیاں اجاگر کی گئیں،اسی لیے اس پہ پابندی لگا دی گئی۔ناول سویت یونین میں چھپ نہ سکامگر زمیاتین ناول کا مسّودہ بیرون ملک اسمگل کرنے میں کامیاب رہا۔چنانچہ ناول انگریزی میں ترجمہ ہو کر 1924ء میں نیویارک سے شائع ہوا۔
حکومت کے غلام شہری: ''وی ''میں ایک ایسا انسانی معاشرہ دکھایا گیا ہے جو حکومت وقت کے مکمل کنٹرول میں ہے۔حتی کہ لوگ شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں ۔مقصد یہ کہ خفیہ پولیس کے ارکان ہر وقت عوام پہ نظر رکھ سکیں۔گھروں کے پردے صرف ایک گھنٹے کے لیے گرائے جاتے تاکہ شہریوں کو لمحاتِ قرب میسر آ جائیں۔کوئی شہری نام نہیں رکھتا بلکہ اپنے نمبر سے جانا جاتا ہے۔ہر شہری حکومت کی منشا و مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور اپنی خوشیوں یا تمنائوں کی خاطر کوئی حکومت مخالف اقدام نہیں کر سکتا۔ورنہ اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
غرض اس معاشرے میں انسان کی تمام آزادیاں سلب ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی حکومت کا ایک لحاظ سے غلام بن جاتا ہے۔ زمیاتین نے جس آمرانہ و ظالم حکومت کا تصّور اپنے ناول میں باندھا تھا، اس نے جوزف اسٹالن کے اقتدار میں حقیقت کا چولا پہن لیا۔سویت آمر اسٹالن نے 1940ء تا 1948ء کے دوران سویت یونین میں قتل وغارت کا بازار گرم رکھا۔کمیونسٹ حکومت کے لاکھوں مخالفین اور نقاد ''غدار ''قرار دے کر موت کی نیند سلا دئیے گئے۔
اس قتل عام کے بعد سویت حکومت عوام کی زندگیوں پر حاوی ہو گئی۔عام شہری ہر معاملے میں،چاہے وہ غمی کا ہو یا خوشی کا، سرکاری ہدایات پہ عمل کرنے لگے۔یوں اسٹالن رعایا کو اپنی انگلیوں پہ نچانے لگا اور وہ کٹھ پتلی بن گئے۔ان میں اتنی ہمت نہ رہی کہ حکومت کے ناروا اور عوام دشمن اقدامات کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔
''وی''ناول میں جو نظریاتی پلاٹ پیش کیا گیا ،اس کی طرز پہ بعد ازاں دیگر ادبا نے بھی ناول لکھے اور جو بہت مقبول ہوئے۔ان میں آلڈس ہکسلے کے ناول''بریو نیو ورلڈ''(brave new world)اور جارج آرویل کے ناول ''1984''کو زیادہ شہرت ملی۔جیک لندن کے ناول ''دی آئرن ہیل''(The Iron Heel)اور ''وی''کو ادب کی خصوصی صنف''ڈائسٹوپیا''(dystopia)کے اولیّں نمونے کہا جاتا ہے۔اس طرز ادب میں تخلیق کردہ ناول،افسانے اور شاعری ایسا انسانی معاشرہ پیش کرتے ہیں جو حکومتی پابندیوں میں جکڑا ہوا اور اور نہایت خوفناک ہو۔
دور جدید کے بعض ماہرین عمرانیات کا دعوی ہے کہ دنیا میں بتدریج ایسی مطلق العنان حکومتیں وجود میں آ رہی ہیں جو اپنے شہریوں اور عوام کو ہر طرح سے اپنا مطیع بنا لینا چاہتی ہیں۔ان کی تمنا ہے کہ حکومت کوئی غلط کام کرے تب بھی شہری خاموش رہیں اور کوئی احتجاج نہ کریں۔وہ انسان کی آزادیاں ختم کرنے کے درپے ہیں۔گویا زمیاتین،آلڈس ہکسلے اور جارج آرویل نے اپنے ناولوں میں حکومتوں کے ظلم وجبر کا شکار جس افسانوی انسانی معاشروں کا تصّور کیا تھا،وہ بھی رفتہ رفتہ عملی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
''پیگاسس'' کی دریافت: چند ماہ قبل انکشاف ہوا تھا کہ ایک اسرائیلی کمپنی کا ساختہ سافٹ وئیر ''پیگاسس''حکومتیں خرید رہی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کر کے انہیں نقصان پہنچایا جا سکے۔یہ سافٹ وئیر خاموشی سے بذریعہ انٹرنیٹ کسی بھی سمارٹ فون میں گھس جاتا ہے۔وہ پھر مالک ِفون کی جاسوسی کرتا ہے۔حتی کہ کیمرا چلا کر اس کی وڈیو بھی بناتا ہے۔تازہ اعداد وشمار کی رو سے پاکستان کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ سے زائد مردوزن اپنے موبائلوں میں نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔گویادنیا کی کوئی بھی حکومت چاہے تو پیگاسس یا کسی دوسرے سافٹ وئیر کی مدد سے ان کی جاسوسی کر سکتی ہے۔
حال ہی میں ایک اور زبردست انکشاف ہوا ہے،یہ کہ امریکی حکومت نے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ فوج یا سیکرٹ آرمی تشکیل دے رکھی ہے۔اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ چوری چھپے دنیا کے تمام انسانوں خصوصاً امریکا کے ہر مخالف پہ نظر رکھے اور ان کی ذاتی و نجی سرگرمیوں سے واقف وباخبر رہے۔اس خفیہ فوج کے ارکان اپنی شناخت ہر ممکن طریقے سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔وہ عام آدمیوں میں گھل مل جاتے اور ٹارگٹ شدہ مردو زن کے پل پل کی خبر امریکی اسٹیبلشمنٹ تک پہنچاتے ہیں۔حکومت امریکا نے قومی سلامتی(نیشنل سیکورٹی)کے نام پر دنیا بھر میں یہ خفیہ ڈراما رچا رکھا ہے اور وہ بے دھڑک بنی نوع انسان کی پرائیوسی میں دخل اندازی کر رہی ہے۔
مفادات کی تکمیل: امریکا کا قیام انسانیت کی آزادی،جمہوریت اور انسانی حقوق کا بول بالا کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔مگر جب انیسویں صدی میں امریکا عسکری ومعاشی لحاظ سے عالمی قوت بن گیا تو اعلی اخلاقی اقدار تج کر اس کے حکمران استعماری بن بیٹھے۔اب زر،زمین اور زن کا حصول ان کے لیے مطمع نظر بن گیا۔وہ طاقت کے نشے میں آ کر کمزور ممالک پہ چڑھائی کرنے لگے تاکہ وہاں کے وسائل پر قابض ہو کر ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے امریکی حکومت نے ہر ملک میں اپنے جاسوس چھوڑ دئیے۔وہ وہاں نہ صرف حکومت کی سن گن لیتے بلکہ امریکا کا اثرورسوخ بڑھانے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔خاص طور پر عالم اسلام میں جو حکمران امریکی مفادات پورے کرنے میں رکاوٹ بن جائے،اسے کسی بھی طریقے سے ہٹا کر مملکت میں کٹھ پتلیاں بٹھا دی جاتی ہیں۔
اکیسویں صدی میں چین اور روس کے اتحاد سے امریکا کا اثر ورسوخ کم ہو رہا ہے۔افغانستان،عراق اور شام میں شکستوں سے بھی امریکی فخر وغرور کو دھچکا لگا۔امریکی حکمران طبقہ مگر آسانی سے ہار ماننے والا نہیں،اسی لیے وہ پچھلے پندرہ سال کے دوران خاموشی سے ایسی ایلیٹ خفیہ فوج تیار کر چکا جو دنیا بھر میں چوری چھپے امریکا کے مفادات پورے کرنے میں اس کا ہاتھ بٹا سکے۔یہ خفیہ فوج امریکی محکمہ دفاع المعروف بہ پنٹاگون یعنی جرنیلوں کی ماتحت ہے۔پچھلے دنوں ایک باضمیر و دلیر امریکی صحافی اس خفیہ فوج کے خدوخال پہلی بار اہل زمین کے سامنے لے آیا۔
''ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس'': پینسٹھ سالہ ولیم ارکین(William Arkin ) امریکا کا ممتاز محقق،ادیب اور صحافی ہے۔چار سال امریکی ملٹری انٹیلی جنس سے منسلک رہا۔بعد ازاں تحقیق و تصنیف وتالیف کے کاموں میں مشغول ہو گیا۔مشہور امریکی اخبارات اور این جی اوز سے منسلک رہا۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کی جنگیں اس کا خاص موضوع ِتحقیق ہیں۔ولیم کا نظریہ ہے کہ امریکی حکمران ازخود جنگیں چھیڑتے ہیں تاکہ اپنے ''ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس''کو زندہ رکھ سکیں جو معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھتا ہے۔
اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پچھلے پندرہ سال میں ایک سیکرٹ آرمی کھڑی کر لی۔ولیم ارکین بڑی تحقیق اور سیکڑوں لوگوں سے بہ دقت انٹرویو کر کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔اس خفیہ فوج کے بارے میں اسے جو آگاہی ملی،وہ ولیم نے ایک مضمون میں بیان کر دی۔یہ مضمون پہلی بار ہفت روزہ نیوزویک میں شائع ہوا۔بعد ازاں دیگر نیوز سائٹس نے بھی اسے طبع کیا۔
ولیم ارکین کے مطابق امریکا کی سیکرٹ فوج کے سبھی ارکان جعلی کاغذات رکھتے ہیں تاکہ اپنی اصل شناخت پوشیدہ رکھ سکیں۔وہ اپنے نام ہی نہیں جسمانی ہئیت بدل کر بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔اس ضمن میں جیمز بانڈ فلموں کی طرح خصوصی لیبارٹریوں بنائی گئی ہیں جہاں سائنس داں خفیہ فوج کے ارکان کے کام آنے والے مختلف آلات وسامان ایجاد کرتے ہیں۔
یہ آلات پھر کام انجام دینے میں مدد دیتے ہیں۔امریکی محکمہ دفاع میں یہ سیکرٹ فوج ''سگنیچر ریڈکشن''(Signature Reduction)نامی پروگرام کے تحت سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔سگنیچر ریڈکشن اس ٹکنالوجی کا نام ہے جو اشیا سے پھوٹنے والی شعاعیں مدھم کرنے میں کام آتی ہے۔امریکی سیکرٹ آرمی پر یہ نام بخوبی منطبق ہو گیا کہ اس کے ارکان بھی اپنی شناخت چھپانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
انتہائی خفیہ: سگنیچر ریڈکشن پروگرام امریکی اسٹیلشمنٹ کا انتہائی خفیہ منصوبہ ہے۔بجٹ دستاویزات میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔امریکی میڈیا بھی اب تک اس کے بارے میں خاموش تھا۔ولیم ارکین کو بھی اتفاق سے اس پروگرام کی بھنک ملی۔
ہوا یہ کہ دس برس قبل وہ نئی ملازمت کی تلاش میں تھا۔چناں چہ وہ پنٹاگون کے دئیے گئے ملازمتوں کے سبھی اشتہار پڑھنے لگا۔تبھی اس کے سامنے سے چند ایسے اشتہار گزرے جن میں سگنیچر ریڈکشن پروگرام کے لیے ملازمتیں طلب کی گئی تھیں۔ولیم نے سوچا کہ یہ پروگرام کیا بلا ہے؟اس نے دوست احباب سے معلوم کیا مگر کوئی بھی منصوبے کی بابت نہیں جانتا تھا۔اب ولیم متجسّس ہو کر اس پروگرام کے بارے میں چھان بین کرنے لگا۔یوں اس کی تحقیق کا آغاز ہوا جو دس برس پہ محیط ہے۔
امریکی صحافی کی اسی قیمتی تحقیق سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے چھپے راز منظرعام پہ آئے اور افشا ہوا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں وہ امریکیوں اور غیر امریکیوں کی نجی زندگی میں دخل دیتی اور ان کی جاسوسی کرتی پھرتی ہے۔اصل مفاد یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقہ دنیا پہ اپنی گرفت بدستور مضبوط رکھنے کا متمنی ہے تاکہ اپنی طاقت و حیثیت کو قائم ودائم رکھ سکے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ مگر تاریخ کا یہ انمول سبق بھلا بیٹھی ہے کہ ہر عروج کو آخر زوال آ کر رہتا ہے۔ہر قوم ہمیشہ سربلند نہیں رہتی۔اسے دوسری اقوام کے لیے بام دنیا پر جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔یہ قانون ِقدرت ہے جس سے مفر ممکن نہیں!
پہلا گروہ: امریکی محقق کی تحقیق کے مطابق پنٹاگون کے ماتحت سیکرٹ آرمی کا حجم ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔اس کی نفری میں مرد وخواتین ،دونوں شامل ہیں۔اس خفیہ فوج کے تین بڑے حصیّ یا دستے ہیں۔پہلے دستے کا نام ''اسپیشل آپریشنز ورلڈ''( special-operations world)ہے۔اس حصے سے تقریباً تیس ہزار مردوزن وابستہ ہیں۔
ان کی اکثریت غیر امریکی ہے۔جیسا کہ نام نام سے عیاں ہے،اس دستے کے ارکان پوری دنیا میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات پر تقویض کردہ آپریشن انجام دیتے ہیں۔اس قسم کے آپریشن ''بلیک''(سیاہ)بھی کہلاتے ہیں۔اسپشل آپریشنز ورلڈ کے کارندے بھیس بدل کر اور مختلف آلات کی مدد سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔جب کوئی امریکی ایسے آپریشن کا حصّہ بنے تو وہ عموماً حقیقی نام سے ٹارگٹ ملک تک سفر کرتا ہے۔مگر وہاں پہنچتے ہی بھیس بدل کر اپنی اصلی شناخت چھپا لیتا ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں کئی غیرملکی سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔ان میں سے چند پاکستان میں مستقل طور پر رک جاتے ہیں جیسے سنتھیا رچی وغیرہ۔مگر اہل وطن کو ایسے غیرملکی مردوزن سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ وہ امریکی سیکرٹ آرمی کے دستے، اسپیشل آپریشنز ورلڈکا حصہ ہو سکتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ اس دستے کے پاکستانی تنخواہ دار ایجنٹ ہمارے میڈیا کا بھی حصّہ بن جائیں۔یعنی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایسے کارندے جو اپنے زہریلے پروپیگنڈے سے پاکستانی قوم میں ملک وقوم کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہوں۔پاکستان کو ناکام اور کرپٹ مملکت ثابت کرنا ان کا مشن ہو۔وہ ارض پاک میں مایوسی اور بددلی پھیلانا چاہتے ہوں۔
دوسرا خطرناک دستہ: امریکی سیکرٹ آرمی کا دوسرا حصہ یا گروہ ''ہیومن انٹیلی جنس آپریٹر''(human intelligence operator)کہلاتا ہے۔اس حصّے کے لوگ اپنے ٹارگٹ افراد کی ''برقی''سرگرمیوں پہ نظر رکھتے ہیں۔یعنی ٹارگٹ شخص ٹیلی فون،موبائل،وائرلیس، سیٹلائٹ فون وغیرہ کے ذریعے کسی سے رابطہ کرے تو وہ گفتگو سننے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔یہ مقصد پانے کی خاطر جدید ترین آلات جاسوسی اس کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔
ان آلات کی مدد سے ہیومن انٹیلیجنس آپریٹر اس سیل فون ٹاور میں وہ سگنل دریافت کر لیتا جس پہ ٹارگٹ شدہ فرد محو گفتگو ہو۔ہیومن انٹیلی جنس آپریٹروں کا گروہ بھی کئی ہزار مرد وزن پہ مشتمل ہے۔یہ دنیا بھر میں پھیلے ہیں۔امریکی حکومت انھیں ٹارگٹ تقویض کرتی ہے۔گروہ کے کارندے کوئی نہ کوئی چال چل کر ٹارگٹ شخص کی رہائش گاہ کے نزدیک قیام کرتے ہیں۔وہ پھر اپنے آلات کی مدد سے موبائل فون،وائرلیس،ٹیلی فون وغیرہ پر اس کی گفتگو سننے کی سعی کرتے ہیں۔یہ ایجنٹ امریکی ہو سکتے ہیں اور مقامی بھی۔جن ممالک میں امریکا ناپسندیدہ حیثیت رکھتا ہے،وہاں خصوصاً مقامی ایجنٹوں ہی سے کام کرائے جاتے ہیں۔
سب سے فعال گروہ: امریکی سیکرٹ آرمی کا تیسرا گروپ ''سائبر آپریٹر''کہلاتا ہے۔نام سے عیاں ہے کہ اس گروہ میں شامل مردوزن دنیائے انٹرنیٹ میں سرگرم رہتے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دئیے گئے کام انجام دیتے ہیں۔ان کا پہلا اہم کام امریکا دشمن ممالک ،شخصیات اور تنظیموں مثلاً القاعدہ،داعش وغیرہ کی آن لائن نگرانی کرنا ہے۔اس فہرست میں چین،روس،ایران،وینزویلا بھی شامل ہے۔تاہم سائبر آپریٹر تقریباً ہر ملک کی جاسوسی کرتے ہیں تاکہ وہاں کی حکومتوں کے عزائم سے باخبر ہو سکیں۔
سائبر آپریٹروں کی دوسری اہم ذمے داری امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پروپیگنڈا کرنا ہے۔وہ مختلف طریقوں سے آن لائن دنیا میں امریکی حکومت کا موقف نمایاں کرتے ہیں،چاہے وہ حق وانصاف سے متصادم ہی ہو۔جبکہ امریکا کے دشمنوں کے خلاف جھوٹی (فیک)خبروں کا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔اس ضمن میں گوگل کے علاوہ سوشل میڈیا سائٹس مثلاً فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام ،وٹس اپ وغیرہ سے بھرپور مدد ملتی ہے۔اسی لیے بعض امریکی ماہرین کا دعوی ہے کہ درج بالا سوشل میڈیا سائٹس امریکی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن چکیں۔وہ ان کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کراتی ہے۔
ولیم ارکین کی رو سے فی الوقت امریکی سیکرٹ آرمی کا یہی تیسرا گروہ سب سے زیادہ فعال ہے۔وجہ یہ کہ دنیائے آن لائن میں اپنی شناخت چھپانا آسان ہے۔مزید براں یہ گروپ ایسے زبردست سافٹ وئیر رکھتا ہے کہ ٹارگٹ مردو عورت کے سمارٹ فون میں داخل ہو کر اس کی بات چیت سن سکے۔
حتیّ کہ کیمرا چلا کر یہ امر ریکارڈ کر لے کہ وہ کس سے ملتا جلتا ہے۔یہ طریق جاسوسی سستا اور سہل ہے،اسی لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ اس طریقے کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔خیال ہے کہ سائبر آپریٹروں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔پوری دیا ان کی مرکز توجہ اور جولان گاہ ہے۔
نیٹ کی آزادی ختم ہو چکی: انٹرنیٹ دنیا میں حکومتوں کی خفیہ ایجنسیوں کے دخول اور بہت سرگرم ہونے سے ولیم ارکین کے نزدیک اس دنیا کی آزادی کو بہت نقصان پہنچا ہے۔پہلے یہ خیال تھا کہ دنیائے انٹرنیٹ پر کسی کی اجارہ داری نہیں لہذا وہاں ہر کوئی آزادی سے اظہار خیال کر سکے گا۔یوں عمل ِاحتساب فروغ پائے گا۔لیکن دنیائے انٹرنیٹ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے متحرک ہونے سے اس کی آزادی تقریباً ختم ہو چکی۔اب عام آدمی نہیں جان پاتا کہ وہ نیٹ پہ کسی نیوزسائٹ سے جو خبریں یا تحریریں پڑھ رہا ہے،وہ سچ پر مبنی ہیں یا جھوٹ پر!سرکاری پروپیگنڈے نے سچ اور جھوٹ کو غلط ملط کر دیا ہے اور ان کے مابین تمیز کرنا عام آدمی کے لیے خاصا مشکل کام بن چکا۔
اس وقت دنیائے نیٹ پہ بے حساب ڈیٹا موجود ہے۔امریکا سمیت کسی بھی ملک کی حکومت اتنے وسائل نہیں رکھتی کہ سارے ڈیٹا سے فائدہ اٹھا سکے۔لیکن مصنوعی ذہانت کی ٹکنالوجی بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ولیم ارکین کا کہنا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب مصنوعی ذہانت کے حامل سپر کمپیوٹر دنیائے نیٹ کا سارا ڈیٹا پروسیس کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔تب حکومتوں کے ہاتھ اپنی بقا کی خاطر اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ایک نیا خطرناک ہتھیار لگ جائے گا۔مستقبل میں بھی ٹینک،میزائیل،جنگی جہاز موجود ہوں گے۔
لیکن ڈیٹا کا بڑھتا سیلاب انھیں رفتہ رفتہ فرسودہ کر دے گا۔تب ممالک ڈیٹا کے ذریعے بھی ایک دوسرے کے خلاف خفیہ وعیاں کارروائیوں کریں گے۔مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے۔یوں ایک نئی طرح کی جنگ جنم لے گی جس میں اسلحہ کم ہی استعمال ہو گا۔اس کے بجائے غیر عسکری طریقوں سے دشمن کو معاشی و معاشرتی طور پہ تباہ کرنے کی کوششیں ہوں گی۔یہ طریقے ممالک کی خفیہ فوج انجام دے گی۔ولیم ارکین کو یقین ہے کہ چین اور روس بھی امریکا کی سیکرٹ آرمی سے ملتی جلتی خفیہ فوج تیار کر چکے۔دنیائے نیٹ اور حقیقی دنیا میں بھی یہ معاصر افواج ایک دوسرے کے خلاف چالیں چل رہی ہیں۔
ظالم و جابر کا روپ: دنیا کی کوئی بھی حکومت جائز طریقوں سے بھی اپنے مفادات پورے کر سکتی ہے۔مگر کوئی حکومت اپنے مفادات کی خاطر دوسرے ممالک کو نقصان پہنچانے لگے تو جھگڑا شروع ہوتا اور شر جنم لیتا ہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کے قول وفعل سے عیاں ہے کہ وہ اپنے مفادادت پانے کے لیے دیگر ملکوں کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتی۔اپنا مفاد خطرے میں نظر آئے تو امریکی حکمران غیر ممالک کے انسانوں کا خون بھی کر دیتے ہیں،چاہے وہ معصوم اور بے گناہ ہی ہوں۔جیسا کہ کابل میں معصوم بچے مار ڈالے گئے۔
یہ سچائی امریکی حکومت کو جمہور پسند اور انسانی حقوق کی داعی نہیں ظالم و جابر کے روپ میں پیش کرتی ہے۔افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ امریکی صدر،جو بائیڈن بین الاقوامی امور کے بجائے قومی معاملات پہ زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ پنٹاگون کا ''سگنیچر ریڈکشن''پروگرام بھی رول بیک کر دیں گے؟مگر اسٹیبلشمنٹ انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔وجہ یہی کہ وہ اب بیشتر کام سیکرٹ آرمی ہی سے کرانے لگی ہے۔ اس سیٹ اپ پہ زیادہ خرچہ نہیں آتا اور مفادات بھی پورے ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے قومی ادارے،ایف بی آر نے مختلف ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔ان کا کنٹرول سینٹر اسلام آباد میں ہے۔وہاں تقریباً چھ سو کمپوٹر اور ڈیٹا سرور موجود ہیں۔13اگست 2021 ء کی رات دو بجے (عینی 14اگست کو )ہیکروں نے کنٹرول سینٹر پہ حملہ کر کے ساڑھے تین سو کمپیوٹر بند کر دئیے۔
یوں ایف بی آر کی ویب سائٹس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔بہتر گھنٹے بعد ہی انھیں درست کیا جا سکا۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سائبر حملہ بھارتی فوج کی خفیہ فوج سے وابستہ ہیکروں نے انجام دیا۔یہ حملہ آشکارا کرتا ہے کہ مستقبل کی جنگوں میں معاصر ایک دوسرے کی نیٹ تنصیبات پہ اکثر دھاوا بولا کریں گے۔اس تناظر میں ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بھی دفاعی خفیہ فوج تیار کر لے تاکہ دشمنوں کے حملوں کا بھرپور دفاع کیا جا سکے۔
گاڑیوں میں مرد،خواتین اور بچے سوار ہیں۔یہ خاندان کابل ہوائی اڈے جا رہے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ وہاں سے امریکا پرواز کر جائیں۔خاندان کے مرد عالمی اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔جب طالبان نے اقتدار سنھالا تو انھیں خوف محسوس ہوا کہ طالبان میں شامل شدت پسند غیرملکیوں کے لیے کام کرنے پہ انھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اسی لیے انھوں نے امریکا جانے کا ارداہ کر لیا۔انھیں امریکی ویزہ بھی مل گیا۔
اس دوپہر وہ ہوائی اڈے جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک ان پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ہوا یہ کہ جہاں ان کی گاڑیاں کھڑی تھیں،اس کے قریب ہی ایک اور بھی گاڑی موجود تھی۔ایک امریکی ڈرون نے اس پہ میزائل دے مارا۔میزائیل نے پورے علاقے میں تباہی مچا دی۔اس گاڑی کے علاوہ اردگرد کھڑی گاڑیاں بھی آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔
امریکا کے اس حملے میں دس افغان مارے گئے۔ان میں ''سات بچے''بھی شامل تھے جن کی عمریں چار پانچ سال تھیں۔بچوں کو مردہ دیکھ کر ان کے بچ جانے والے والدین غم وغصّے سے پاگل ہو گئے۔امریکی حکومت نے تو ان کی دنیا ہی اندھیر کر دی۔
امریکاکا دعویٰ ہے کہ ٹارگٹ شدہ گاڑی میں آئی ایس آئی خراسان کا دہشت گرد موجود تھا۔اس نے کابل ہوائی اڈے پہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔اسے مارنے کے لیے ہی میزائیل چھوڑا گیا۔مگر امریکی ہتھیار نے بے گناہ اور معصوم افغانوں کی بھی جانیں لے لیں۔
یہ عام خفیہ فوج نہیں: گاڑی میں ''دہشت گرد''موجود ہونے کی اطلاع امریکی حکومت کو اس کے ایک مقامی افغان ایجنٹ نے دی تھی ۔یہ ایجنٹ امریکا کی اس وسیع خفیہ فوج کا حصہ تھا جو آج دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیل چکی۔دور حاضر میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کُل عالم میں اپنے مفادات پورے کرنے والی سرگرمیاں باقاعدہ افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بجائے اسکی اپنی خفیہ فوج یا سیکرٹ آرمی کے سپرد کر رہی ہے۔
یہ امریکی حکمران طبقے کی فکر وعمل میں در آنے والی بہت بڑی تبدیلی ہے جس نے بتدریج حادثہ نائن الیون کے بعد جنم لیا۔پاکستان کو چھوڑئیے،امریکا میں بھی عوام اس خفیہ فوج کی موجودگی سے بے خبر تھے۔وہ تو بھلا ہو ایک بہادر امریکی صحافی کا جس نے اس سیکرٹ آرمی کے راز افشا کر ڈالے۔ایسے جرنلسٹ و محقق ہر ملک میں ہونے چاہیں تاکہ وہ اپنی حکومتوں کی چال بازیاں اور خامیاں اجاگر کرتے رہیں۔
یہ کوئی عام خفیہ فوج نہیں،اس کا دائرہ کار پوری دنیا کے انسانوں اور ان کی زندگیوں کے مختلف پہلوئوں اور شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔اب امریکی حکومت اسی فوج کی مدد سے امریکا ہی نہیں دنیا بھر کے مردوزن پہ نظر رکھے ہوئے ہے۔
جو بھی فرد یا افراد امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنے،خفیہ فوج کے کارندے کسی نہ کسی طرح اسے جان سے مار ڈالتے ہیں...مگر اس عیّاری سے کہ کوئی جان ہی نہیں پاتا کہ قتل کے پیچھے کون سی طاقت چھپی بیٹھی ہے۔یہ سیکرٹ آرمی تشکیل دے کر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جاسوسی،نگرانی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے خطرناک اعمال کو نئے معنی پہنا دئیے۔
کمیونسٹوں کا مخالف روسی ادیب: وطن عزیز میں کم ہی لوگ یوگنی زمیاتین(Yevgeny Zamyatin)سے واقف ہیں مگر یہ روس کا انقلابی و دلیر ادیب گزرا ہے۔ایک پادری کا بیٹا تھا لیکن نوجوانی میں عیسائی ہم وطنوں کے دقیانوسی اعمال سے برگشتہ ہو کر کمیونسٹ ہو گیا۔اس نے پھر روس کی شاہی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت میں حصّہ لیا۔گرفتار ہو کر قید ہوا ۔
جیل میں اسے تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔رہائی کے بعد برطانیہ چلا گیا۔جب 1917ء میں کمیونسٹوں نے روس کی حکومت سنبھالی تو واپس آ گیا۔یوگنی زمیاتین سمجھتا تھا کہ ایک صحت مند انسانی معاشرہ اسی وقت تشکیل پاتا ہے جب انسانوں کی سوچ پہ ناجائز طور پر پہرے نہ بٹھائے جائیں۔انھیں تحریر وتقریر کی آزادی حاصل ہو۔دانشورکھل کر خصوصاً حکومت پہ تنقید کریں تاکہ وہ راہ حق سے ہٹنے نہ پائے اور عوام کی ترقی وخوشحالی کو مدنظر نہ رکھے۔مگر کیمونسٹوں نے اقتدار سنبھال کر جلد آزادی تحریر وتقریر پہ پابندیاں لگا دیں۔
ادب،صحافت اور فنون لطیفہ بھی سینسر شپ کی زد میں آ گئے۔کمیونسٹ ہونے کے باوجود یوگنی زمیاتین کو اپنی حکومت کی روش پسند نہیں آئی۔وہ مضامین لکھ کر کمیونسٹ گورنمنٹ پر شدید تنقید کرنے لگا۔اس نے یہ نکتہ ابھارا کہ حکومت عوام کے جذبات و احساسات کو پروپیگنڈے کے بل پہ کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
مدعا یہ ہے کہ عام لوگ بھی اپنی زندگیاں کمیونسٹ نظریات کے مطابق ڈھال سکیں۔زمیاتین کے نزدیک یہ چلن انسان کی آزادی کا گلا گھونٹنے اور اپنی مرضی اس پہ مسلط کرنے کے مترادف تھا۔گویا کمیونسٹوں نے روس میں ایک طرح کی مطلق العنانیت (Totalitarianism) رائج کر دی۔ایسی حکومت میں حزب اختلاف تقریباً عنقا ہوتی ہے اور کسی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
اس وقت روس میں جو اب سوویت یونین کہلانے لگا تھا،بیشتر ادیب کمیونسٹوں کی مدح میں لکھ رہے تھے۔ان میں مشہور لکھاری،میکسم گورکی بھی شامل تھا۔مگر زمیاتین آزادی اظہار پہ پابندیاں لگنے کی وجہ سے خوش نہ تھا۔وہ ایک بہادر ادیب تھا۔اسے علم تھا کہ سرکاری خفیہ ایجنسیاں اس کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔مگر اس نے تنقید کرنا ترک نہ کیا۔
حتی کہ کمیونسٹوں کی مطلق العانینت اجاگر کرنے کے لیے ایک ناول''وی''(We)لکھ ڈالا۔یہ تاریخ ساز ناول1921ء تا 1922ء کے مابین لکھا گیا جب کمیونسٹ روس کو اپنے مخصوص نظریات پہ ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔چونکہ ناول میں حکومت کی خامیاں اور کوتاہیاں اجاگر کی گئیں،اسی لیے اس پہ پابندی لگا دی گئی۔ناول سویت یونین میں چھپ نہ سکامگر زمیاتین ناول کا مسّودہ بیرون ملک اسمگل کرنے میں کامیاب رہا۔چنانچہ ناول انگریزی میں ترجمہ ہو کر 1924ء میں نیویارک سے شائع ہوا۔
حکومت کے غلام شہری: ''وی ''میں ایک ایسا انسانی معاشرہ دکھایا گیا ہے جو حکومت وقت کے مکمل کنٹرول میں ہے۔حتی کہ لوگ شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں ۔مقصد یہ کہ خفیہ پولیس کے ارکان ہر وقت عوام پہ نظر رکھ سکیں۔گھروں کے پردے صرف ایک گھنٹے کے لیے گرائے جاتے تاکہ شہریوں کو لمحاتِ قرب میسر آ جائیں۔کوئی شہری نام نہیں رکھتا بلکہ اپنے نمبر سے جانا جاتا ہے۔ہر شہری حکومت کی منشا و مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور اپنی خوشیوں یا تمنائوں کی خاطر کوئی حکومت مخالف اقدام نہیں کر سکتا۔ورنہ اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
غرض اس معاشرے میں انسان کی تمام آزادیاں سلب ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی حکومت کا ایک لحاظ سے غلام بن جاتا ہے۔ زمیاتین نے جس آمرانہ و ظالم حکومت کا تصّور اپنے ناول میں باندھا تھا، اس نے جوزف اسٹالن کے اقتدار میں حقیقت کا چولا پہن لیا۔سویت آمر اسٹالن نے 1940ء تا 1948ء کے دوران سویت یونین میں قتل وغارت کا بازار گرم رکھا۔کمیونسٹ حکومت کے لاکھوں مخالفین اور نقاد ''غدار ''قرار دے کر موت کی نیند سلا دئیے گئے۔
اس قتل عام کے بعد سویت حکومت عوام کی زندگیوں پر حاوی ہو گئی۔عام شہری ہر معاملے میں،چاہے وہ غمی کا ہو یا خوشی کا، سرکاری ہدایات پہ عمل کرنے لگے۔یوں اسٹالن رعایا کو اپنی انگلیوں پہ نچانے لگا اور وہ کٹھ پتلی بن گئے۔ان میں اتنی ہمت نہ رہی کہ حکومت کے ناروا اور عوام دشمن اقدامات کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔
''وی''ناول میں جو نظریاتی پلاٹ پیش کیا گیا ،اس کی طرز پہ بعد ازاں دیگر ادبا نے بھی ناول لکھے اور جو بہت مقبول ہوئے۔ان میں آلڈس ہکسلے کے ناول''بریو نیو ورلڈ''(brave new world)اور جارج آرویل کے ناول ''1984''کو زیادہ شہرت ملی۔جیک لندن کے ناول ''دی آئرن ہیل''(The Iron Heel)اور ''وی''کو ادب کی خصوصی صنف''ڈائسٹوپیا''(dystopia)کے اولیّں نمونے کہا جاتا ہے۔اس طرز ادب میں تخلیق کردہ ناول،افسانے اور شاعری ایسا انسانی معاشرہ پیش کرتے ہیں جو حکومتی پابندیوں میں جکڑا ہوا اور اور نہایت خوفناک ہو۔
دور جدید کے بعض ماہرین عمرانیات کا دعوی ہے کہ دنیا میں بتدریج ایسی مطلق العنان حکومتیں وجود میں آ رہی ہیں جو اپنے شہریوں اور عوام کو ہر طرح سے اپنا مطیع بنا لینا چاہتی ہیں۔ان کی تمنا ہے کہ حکومت کوئی غلط کام کرے تب بھی شہری خاموش رہیں اور کوئی احتجاج نہ کریں۔وہ انسان کی آزادیاں ختم کرنے کے درپے ہیں۔گویا زمیاتین،آلڈس ہکسلے اور جارج آرویل نے اپنے ناولوں میں حکومتوں کے ظلم وجبر کا شکار جس افسانوی انسانی معاشروں کا تصّور کیا تھا،وہ بھی رفتہ رفتہ عملی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
''پیگاسس'' کی دریافت: چند ماہ قبل انکشاف ہوا تھا کہ ایک اسرائیلی کمپنی کا ساختہ سافٹ وئیر ''پیگاسس''حکومتیں خرید رہی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کر کے انہیں نقصان پہنچایا جا سکے۔یہ سافٹ وئیر خاموشی سے بذریعہ انٹرنیٹ کسی بھی سمارٹ فون میں گھس جاتا ہے۔وہ پھر مالک ِفون کی جاسوسی کرتا ہے۔حتی کہ کیمرا چلا کر اس کی وڈیو بھی بناتا ہے۔تازہ اعداد وشمار کی رو سے پاکستان کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ سے زائد مردوزن اپنے موبائلوں میں نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔گویادنیا کی کوئی بھی حکومت چاہے تو پیگاسس یا کسی دوسرے سافٹ وئیر کی مدد سے ان کی جاسوسی کر سکتی ہے۔
حال ہی میں ایک اور زبردست انکشاف ہوا ہے،یہ کہ امریکی حکومت نے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ فوج یا سیکرٹ آرمی تشکیل دے رکھی ہے۔اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ چوری چھپے دنیا کے تمام انسانوں خصوصاً امریکا کے ہر مخالف پہ نظر رکھے اور ان کی ذاتی و نجی سرگرمیوں سے واقف وباخبر رہے۔اس خفیہ فوج کے ارکان اپنی شناخت ہر ممکن طریقے سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔وہ عام آدمیوں میں گھل مل جاتے اور ٹارگٹ شدہ مردو زن کے پل پل کی خبر امریکی اسٹیبلشمنٹ تک پہنچاتے ہیں۔حکومت امریکا نے قومی سلامتی(نیشنل سیکورٹی)کے نام پر دنیا بھر میں یہ خفیہ ڈراما رچا رکھا ہے اور وہ بے دھڑک بنی نوع انسان کی پرائیوسی میں دخل اندازی کر رہی ہے۔
مفادات کی تکمیل: امریکا کا قیام انسانیت کی آزادی،جمہوریت اور انسانی حقوق کا بول بالا کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔مگر جب انیسویں صدی میں امریکا عسکری ومعاشی لحاظ سے عالمی قوت بن گیا تو اعلی اخلاقی اقدار تج کر اس کے حکمران استعماری بن بیٹھے۔اب زر،زمین اور زن کا حصول ان کے لیے مطمع نظر بن گیا۔وہ طاقت کے نشے میں آ کر کمزور ممالک پہ چڑھائی کرنے لگے تاکہ وہاں کے وسائل پر قابض ہو کر ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے امریکی حکومت نے ہر ملک میں اپنے جاسوس چھوڑ دئیے۔وہ وہاں نہ صرف حکومت کی سن گن لیتے بلکہ امریکا کا اثرورسوخ بڑھانے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔خاص طور پر عالم اسلام میں جو حکمران امریکی مفادات پورے کرنے میں رکاوٹ بن جائے،اسے کسی بھی طریقے سے ہٹا کر مملکت میں کٹھ پتلیاں بٹھا دی جاتی ہیں۔
اکیسویں صدی میں چین اور روس کے اتحاد سے امریکا کا اثر ورسوخ کم ہو رہا ہے۔افغانستان،عراق اور شام میں شکستوں سے بھی امریکی فخر وغرور کو دھچکا لگا۔امریکی حکمران طبقہ مگر آسانی سے ہار ماننے والا نہیں،اسی لیے وہ پچھلے پندرہ سال کے دوران خاموشی سے ایسی ایلیٹ خفیہ فوج تیار کر چکا جو دنیا بھر میں چوری چھپے امریکا کے مفادات پورے کرنے میں اس کا ہاتھ بٹا سکے۔یہ خفیہ فوج امریکی محکمہ دفاع المعروف بہ پنٹاگون یعنی جرنیلوں کی ماتحت ہے۔پچھلے دنوں ایک باضمیر و دلیر امریکی صحافی اس خفیہ فوج کے خدوخال پہلی بار اہل زمین کے سامنے لے آیا۔
''ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس'': پینسٹھ سالہ ولیم ارکین(William Arkin ) امریکا کا ممتاز محقق،ادیب اور صحافی ہے۔چار سال امریکی ملٹری انٹیلی جنس سے منسلک رہا۔بعد ازاں تحقیق و تصنیف وتالیف کے کاموں میں مشغول ہو گیا۔مشہور امریکی اخبارات اور این جی اوز سے منسلک رہا۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کی جنگیں اس کا خاص موضوع ِتحقیق ہیں۔ولیم کا نظریہ ہے کہ امریکی حکمران ازخود جنگیں چھیڑتے ہیں تاکہ اپنے ''ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس''کو زندہ رکھ سکیں جو معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھتا ہے۔
اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پچھلے پندرہ سال میں ایک سیکرٹ آرمی کھڑی کر لی۔ولیم ارکین بڑی تحقیق اور سیکڑوں لوگوں سے بہ دقت انٹرویو کر کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔اس خفیہ فوج کے بارے میں اسے جو آگاہی ملی،وہ ولیم نے ایک مضمون میں بیان کر دی۔یہ مضمون پہلی بار ہفت روزہ نیوزویک میں شائع ہوا۔بعد ازاں دیگر نیوز سائٹس نے بھی اسے طبع کیا۔
ولیم ارکین کے مطابق امریکا کی سیکرٹ فوج کے سبھی ارکان جعلی کاغذات رکھتے ہیں تاکہ اپنی اصل شناخت پوشیدہ رکھ سکیں۔وہ اپنے نام ہی نہیں جسمانی ہئیت بدل کر بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔اس ضمن میں جیمز بانڈ فلموں کی طرح خصوصی لیبارٹریوں بنائی گئی ہیں جہاں سائنس داں خفیہ فوج کے ارکان کے کام آنے والے مختلف آلات وسامان ایجاد کرتے ہیں۔
یہ آلات پھر کام انجام دینے میں مدد دیتے ہیں۔امریکی محکمہ دفاع میں یہ سیکرٹ فوج ''سگنیچر ریڈکشن''(Signature Reduction)نامی پروگرام کے تحت سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔سگنیچر ریڈکشن اس ٹکنالوجی کا نام ہے جو اشیا سے پھوٹنے والی شعاعیں مدھم کرنے میں کام آتی ہے۔امریکی سیکرٹ آرمی پر یہ نام بخوبی منطبق ہو گیا کہ اس کے ارکان بھی اپنی شناخت چھپانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
انتہائی خفیہ: سگنیچر ریڈکشن پروگرام امریکی اسٹیلشمنٹ کا انتہائی خفیہ منصوبہ ہے۔بجٹ دستاویزات میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔امریکی میڈیا بھی اب تک اس کے بارے میں خاموش تھا۔ولیم ارکین کو بھی اتفاق سے اس پروگرام کی بھنک ملی۔
ہوا یہ کہ دس برس قبل وہ نئی ملازمت کی تلاش میں تھا۔چناں چہ وہ پنٹاگون کے دئیے گئے ملازمتوں کے سبھی اشتہار پڑھنے لگا۔تبھی اس کے سامنے سے چند ایسے اشتہار گزرے جن میں سگنیچر ریڈکشن پروگرام کے لیے ملازمتیں طلب کی گئی تھیں۔ولیم نے سوچا کہ یہ پروگرام کیا بلا ہے؟اس نے دوست احباب سے معلوم کیا مگر کوئی بھی منصوبے کی بابت نہیں جانتا تھا۔اب ولیم متجسّس ہو کر اس پروگرام کے بارے میں چھان بین کرنے لگا۔یوں اس کی تحقیق کا آغاز ہوا جو دس برس پہ محیط ہے۔
امریکی صحافی کی اسی قیمتی تحقیق سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے چھپے راز منظرعام پہ آئے اور افشا ہوا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں وہ امریکیوں اور غیر امریکیوں کی نجی زندگی میں دخل دیتی اور ان کی جاسوسی کرتی پھرتی ہے۔اصل مفاد یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقہ دنیا پہ اپنی گرفت بدستور مضبوط رکھنے کا متمنی ہے تاکہ اپنی طاقت و حیثیت کو قائم ودائم رکھ سکے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ مگر تاریخ کا یہ انمول سبق بھلا بیٹھی ہے کہ ہر عروج کو آخر زوال آ کر رہتا ہے۔ہر قوم ہمیشہ سربلند نہیں رہتی۔اسے دوسری اقوام کے لیے بام دنیا پر جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔یہ قانون ِقدرت ہے جس سے مفر ممکن نہیں!
پہلا گروہ: امریکی محقق کی تحقیق کے مطابق پنٹاگون کے ماتحت سیکرٹ آرمی کا حجم ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔اس کی نفری میں مرد وخواتین ،دونوں شامل ہیں۔اس خفیہ فوج کے تین بڑے حصیّ یا دستے ہیں۔پہلے دستے کا نام ''اسپیشل آپریشنز ورلڈ''( special-operations world)ہے۔اس حصے سے تقریباً تیس ہزار مردوزن وابستہ ہیں۔
ان کی اکثریت غیر امریکی ہے۔جیسا کہ نام نام سے عیاں ہے،اس دستے کے ارکان پوری دنیا میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات پر تقویض کردہ آپریشن انجام دیتے ہیں۔اس قسم کے آپریشن ''بلیک''(سیاہ)بھی کہلاتے ہیں۔اسپشل آپریشنز ورلڈ کے کارندے بھیس بدل کر اور مختلف آلات کی مدد سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔جب کوئی امریکی ایسے آپریشن کا حصّہ بنے تو وہ عموماً حقیقی نام سے ٹارگٹ ملک تک سفر کرتا ہے۔مگر وہاں پہنچتے ہی بھیس بدل کر اپنی اصلی شناخت چھپا لیتا ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں کئی غیرملکی سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔ان میں سے چند پاکستان میں مستقل طور پر رک جاتے ہیں جیسے سنتھیا رچی وغیرہ۔مگر اہل وطن کو ایسے غیرملکی مردوزن سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ وہ امریکی سیکرٹ آرمی کے دستے، اسپیشل آپریشنز ورلڈکا حصہ ہو سکتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ اس دستے کے پاکستانی تنخواہ دار ایجنٹ ہمارے میڈیا کا بھی حصّہ بن جائیں۔یعنی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایسے کارندے جو اپنے زہریلے پروپیگنڈے سے پاکستانی قوم میں ملک وقوم کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہوں۔پاکستان کو ناکام اور کرپٹ مملکت ثابت کرنا ان کا مشن ہو۔وہ ارض پاک میں مایوسی اور بددلی پھیلانا چاہتے ہوں۔
دوسرا خطرناک دستہ: امریکی سیکرٹ آرمی کا دوسرا حصہ یا گروہ ''ہیومن انٹیلی جنس آپریٹر''(human intelligence operator)کہلاتا ہے۔اس حصّے کے لوگ اپنے ٹارگٹ افراد کی ''برقی''سرگرمیوں پہ نظر رکھتے ہیں۔یعنی ٹارگٹ شخص ٹیلی فون،موبائل،وائرلیس، سیٹلائٹ فون وغیرہ کے ذریعے کسی سے رابطہ کرے تو وہ گفتگو سننے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔یہ مقصد پانے کی خاطر جدید ترین آلات جاسوسی اس کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔
ان آلات کی مدد سے ہیومن انٹیلیجنس آپریٹر اس سیل فون ٹاور میں وہ سگنل دریافت کر لیتا جس پہ ٹارگٹ شدہ فرد محو گفتگو ہو۔ہیومن انٹیلی جنس آپریٹروں کا گروہ بھی کئی ہزار مرد وزن پہ مشتمل ہے۔یہ دنیا بھر میں پھیلے ہیں۔امریکی حکومت انھیں ٹارگٹ تقویض کرتی ہے۔گروہ کے کارندے کوئی نہ کوئی چال چل کر ٹارگٹ شخص کی رہائش گاہ کے نزدیک قیام کرتے ہیں۔وہ پھر اپنے آلات کی مدد سے موبائل فون،وائرلیس،ٹیلی فون وغیرہ پر اس کی گفتگو سننے کی سعی کرتے ہیں۔یہ ایجنٹ امریکی ہو سکتے ہیں اور مقامی بھی۔جن ممالک میں امریکا ناپسندیدہ حیثیت رکھتا ہے،وہاں خصوصاً مقامی ایجنٹوں ہی سے کام کرائے جاتے ہیں۔
سب سے فعال گروہ: امریکی سیکرٹ آرمی کا تیسرا گروپ ''سائبر آپریٹر''کہلاتا ہے۔نام سے عیاں ہے کہ اس گروہ میں شامل مردوزن دنیائے انٹرنیٹ میں سرگرم رہتے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دئیے گئے کام انجام دیتے ہیں۔ان کا پہلا اہم کام امریکا دشمن ممالک ،شخصیات اور تنظیموں مثلاً القاعدہ،داعش وغیرہ کی آن لائن نگرانی کرنا ہے۔اس فہرست میں چین،روس،ایران،وینزویلا بھی شامل ہے۔تاہم سائبر آپریٹر تقریباً ہر ملک کی جاسوسی کرتے ہیں تاکہ وہاں کی حکومتوں کے عزائم سے باخبر ہو سکیں۔
سائبر آپریٹروں کی دوسری اہم ذمے داری امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پروپیگنڈا کرنا ہے۔وہ مختلف طریقوں سے آن لائن دنیا میں امریکی حکومت کا موقف نمایاں کرتے ہیں،چاہے وہ حق وانصاف سے متصادم ہی ہو۔جبکہ امریکا کے دشمنوں کے خلاف جھوٹی (فیک)خبروں کا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔اس ضمن میں گوگل کے علاوہ سوشل میڈیا سائٹس مثلاً فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام ،وٹس اپ وغیرہ سے بھرپور مدد ملتی ہے۔اسی لیے بعض امریکی ماہرین کا دعوی ہے کہ درج بالا سوشل میڈیا سائٹس امریکی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن چکیں۔وہ ان کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کراتی ہے۔
ولیم ارکین کی رو سے فی الوقت امریکی سیکرٹ آرمی کا یہی تیسرا گروہ سب سے زیادہ فعال ہے۔وجہ یہ کہ دنیائے آن لائن میں اپنی شناخت چھپانا آسان ہے۔مزید براں یہ گروپ ایسے زبردست سافٹ وئیر رکھتا ہے کہ ٹارگٹ مردو عورت کے سمارٹ فون میں داخل ہو کر اس کی بات چیت سن سکے۔
حتیّ کہ کیمرا چلا کر یہ امر ریکارڈ کر لے کہ وہ کس سے ملتا جلتا ہے۔یہ طریق جاسوسی سستا اور سہل ہے،اسی لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ اس طریقے کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔خیال ہے کہ سائبر آپریٹروں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔پوری دیا ان کی مرکز توجہ اور جولان گاہ ہے۔
نیٹ کی آزادی ختم ہو چکی: انٹرنیٹ دنیا میں حکومتوں کی خفیہ ایجنسیوں کے دخول اور بہت سرگرم ہونے سے ولیم ارکین کے نزدیک اس دنیا کی آزادی کو بہت نقصان پہنچا ہے۔پہلے یہ خیال تھا کہ دنیائے انٹرنیٹ پر کسی کی اجارہ داری نہیں لہذا وہاں ہر کوئی آزادی سے اظہار خیال کر سکے گا۔یوں عمل ِاحتساب فروغ پائے گا۔لیکن دنیائے انٹرنیٹ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے متحرک ہونے سے اس کی آزادی تقریباً ختم ہو چکی۔اب عام آدمی نہیں جان پاتا کہ وہ نیٹ پہ کسی نیوزسائٹ سے جو خبریں یا تحریریں پڑھ رہا ہے،وہ سچ پر مبنی ہیں یا جھوٹ پر!سرکاری پروپیگنڈے نے سچ اور جھوٹ کو غلط ملط کر دیا ہے اور ان کے مابین تمیز کرنا عام آدمی کے لیے خاصا مشکل کام بن چکا۔
اس وقت دنیائے نیٹ پہ بے حساب ڈیٹا موجود ہے۔امریکا سمیت کسی بھی ملک کی حکومت اتنے وسائل نہیں رکھتی کہ سارے ڈیٹا سے فائدہ اٹھا سکے۔لیکن مصنوعی ذہانت کی ٹکنالوجی بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ولیم ارکین کا کہنا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب مصنوعی ذہانت کے حامل سپر کمپیوٹر دنیائے نیٹ کا سارا ڈیٹا پروسیس کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔تب حکومتوں کے ہاتھ اپنی بقا کی خاطر اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ایک نیا خطرناک ہتھیار لگ جائے گا۔مستقبل میں بھی ٹینک،میزائیل،جنگی جہاز موجود ہوں گے۔
لیکن ڈیٹا کا بڑھتا سیلاب انھیں رفتہ رفتہ فرسودہ کر دے گا۔تب ممالک ڈیٹا کے ذریعے بھی ایک دوسرے کے خلاف خفیہ وعیاں کارروائیوں کریں گے۔مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے۔یوں ایک نئی طرح کی جنگ جنم لے گی جس میں اسلحہ کم ہی استعمال ہو گا۔اس کے بجائے غیر عسکری طریقوں سے دشمن کو معاشی و معاشرتی طور پہ تباہ کرنے کی کوششیں ہوں گی۔یہ طریقے ممالک کی خفیہ فوج انجام دے گی۔ولیم ارکین کو یقین ہے کہ چین اور روس بھی امریکا کی سیکرٹ آرمی سے ملتی جلتی خفیہ فوج تیار کر چکے۔دنیائے نیٹ اور حقیقی دنیا میں بھی یہ معاصر افواج ایک دوسرے کے خلاف چالیں چل رہی ہیں۔
ظالم و جابر کا روپ: دنیا کی کوئی بھی حکومت جائز طریقوں سے بھی اپنے مفادات پورے کر سکتی ہے۔مگر کوئی حکومت اپنے مفادات کی خاطر دوسرے ممالک کو نقصان پہنچانے لگے تو جھگڑا شروع ہوتا اور شر جنم لیتا ہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کے قول وفعل سے عیاں ہے کہ وہ اپنے مفادادت پانے کے لیے دیگر ملکوں کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتی۔اپنا مفاد خطرے میں نظر آئے تو امریکی حکمران غیر ممالک کے انسانوں کا خون بھی کر دیتے ہیں،چاہے وہ معصوم اور بے گناہ ہی ہوں۔جیسا کہ کابل میں معصوم بچے مار ڈالے گئے۔
یہ سچائی امریکی حکومت کو جمہور پسند اور انسانی حقوق کی داعی نہیں ظالم و جابر کے روپ میں پیش کرتی ہے۔افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ امریکی صدر،جو بائیڈن بین الاقوامی امور کے بجائے قومی معاملات پہ زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ پنٹاگون کا ''سگنیچر ریڈکشن''پروگرام بھی رول بیک کر دیں گے؟مگر اسٹیبلشمنٹ انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔وجہ یہی کہ وہ اب بیشتر کام سیکرٹ آرمی ہی سے کرانے لگی ہے۔ اس سیٹ اپ پہ زیادہ خرچہ نہیں آتا اور مفادات بھی پورے ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے قومی ادارے،ایف بی آر نے مختلف ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔ان کا کنٹرول سینٹر اسلام آباد میں ہے۔وہاں تقریباً چھ سو کمپوٹر اور ڈیٹا سرور موجود ہیں۔13اگست 2021 ء کی رات دو بجے (عینی 14اگست کو )ہیکروں نے کنٹرول سینٹر پہ حملہ کر کے ساڑھے تین سو کمپیوٹر بند کر دئیے۔
یوں ایف بی آر کی ویب سائٹس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔بہتر گھنٹے بعد ہی انھیں درست کیا جا سکا۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سائبر حملہ بھارتی فوج کی خفیہ فوج سے وابستہ ہیکروں نے انجام دیا۔یہ حملہ آشکارا کرتا ہے کہ مستقبل کی جنگوں میں معاصر ایک دوسرے کی نیٹ تنصیبات پہ اکثر دھاوا بولا کریں گے۔اس تناظر میں ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بھی دفاعی خفیہ فوج تیار کر لے تاکہ دشمنوں کے حملوں کا بھرپور دفاع کیا جا سکے۔