اب تم نہیں ہم بولیں گے

آج تم یہ سب صرف سنو گے آج تم سنو گے وہ آوازیں جنھیں تم سننا نہیں چاہتے وہ آوازیں جن سے تم دور بھاگتے ہو۔

aftabkhanzada2@yahoo.com

تھیبیز کے شاہ کے سامنے ایک اندھا کاہن تیریسیاس نے کہا تھا '' گوتم بادشاہ وقت ہو، لیکن بولنا صرف تمہارا ہی نہیں میرا بھی حق ہے۔'' اسی لیے ہمارے حکمرانوں آج تم نہیں بولو گے بلکہ ہم بولیں گے کیونکہ بولنا صرف تمہارا ہی نہیں ہمارا بھی حق ہے۔

آج تم صرف سنو گے 22 کروڑ صدائیں 22 کروڑ آہیں و بکائیں 22 کروڑ المیے۔ آج تم یہ سب صرف سنو گے آج تم سنو گے وہ آوازیں جنھیں تم سننا نہیں چاہتے وہ آوازیں جن سے تم دور بھاگتے ہو کیونکہ کہیں وہ آوازیں تمہارا سکھ و چین غارت نہ کردیں۔ تمہارے عیش و آرام میں خلل نہ ڈال دیں۔ کہیں تمہاری میٹھی نیندیں برباد نہ کردیں۔

زندگی جو کچھ ہمیں دیتی ہے وہ ہی تو ہم لوٹاتے ہیں۔ اس لیے ہماری آوازیں ویسی ہی بن جاتی ہیں جو ہم پاتے ہیں اگر ہماری آوازیں وحشت ناک ہیں تو ہم کیا کریں ۔ ہم نے جو پایا ہے وہ ہی تو لوٹا رہے ہیں تم ہی بتاؤ اجڑے آنگنوں میں سے کیا سریلے گیت سنائی دے سکتے ہیں۔ ماتم کرتے اپنے آپ کو پیٹتے انسانوں میں سے کیا ہنسی سنائی دے سکتی ہے۔ فاقہ زدوں کے ہونٹوں پہ کیا مسکراہٹ دکھائی دے سکتی ہے۔ یاد رکھو! یہ جو المیے ہمارے سائے بن گئے ہیں اس کے ذمے دار تم ہی ہو۔

عظیم یونانی ڈرامہ نگار اور شاعر سوفو کلینر کے المیہ ڈرامے '' شاہ او ئی دی پوس'' کے ایک منظر میں بادشاہ کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گزاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے۔ ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے۔

بادشاہ اوئی دی پوس دروازے میں داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے آج تم عرض گذاروں کے روپ میں سر پر کافور کی ٹہنیاں سجائے ہوئے کیوں آئے ہو شہر میں لوبان کی خوشبو کیوں پھیلی ہوئی ہے۔ اذیتوں کو دور کرنے کے لیے کیوں دعائیں مانگی جا رہی ہیں ، میں نے یہ مناسب سمجھا کہ خود آکر دیکھوں نہ کہ پیامبر کو بھیجوں تم سب سے عمر رسیدہ ہو تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ سب کی ترجمانی کرو تم مجھے بتاؤ کہ میری قربان گاہ کے سامنے کیوں جمع ہو۔ پجاری کہتا ہے۔

اے مالک ، بادشاہ وقت ہم سب بزرگ و جوان یہاں جمع ہوئے ہیں کچھ پجاری ہیں کچھ خوبصورت نوجوان ہیں اور میں زیوس کا پجاری ہوں۔ عالی مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوکہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے چار سو موت پھیلی ہوئی ہے۔ زمین پر فصلوں میں چراگاہوں میں جو مویشی گھوم رہے ہیں موت کی زد میں ہیں ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں وہ بھی اس کی زد میں ہیں۔

شہر میں طاؤن پھیل رہا ہے اور ہر شے کو گھیر ے میں لے رہا ہے۔ کیڈس کا گھرانہ تباہ ہورہا ہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کربناک چیخ و پکار جاری ہے یہ ہی وجہ ہے کہ بچے اور میں تمہارے پاس آئے ہیں ہم تمہیں دیوتا نہیں سمجھتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فانی انسانوں میں سے تمہیں یہ مقام حاصل ہے کہ تم ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکو جن سے انسان دوچار ہے اور جن مسائل کا حل دیوتاؤں نے انسان کو دیا ہے۔

ہماری کچھ مدد کرو ، اپنی مدد کے لیے خواہ کسی دیوتا یا انسان کو ہی کیوں نہ بلاؤ ہمیں یقین ہے کہ تم ہماری مدد کرو گے، اے آقا ہمارے شہر کی رونقیں بحال کردے اپنی شہرت کا پاس کرو، ہمارا تحفظ کرو، تمہیں ایک دفعہ نیک شگون ملے تھے اور تم نے ہمارے لیے قسمت کی راہیں کھول دی تھیں ان شگونوں کو ایک دفعہ پھر ڈھونڈو ، اگر تم نے اس ملک پر حکومت ہی کرنی ہے تو لوگوں پر حکومت کرو اس دیوار پر نہیں جو ویرانوں کو گھیر ے ہوتی ہے انسانوں کے بغیر نہ ہی کوئی دیوار شہر اور نہ ہی کوئی جنگی بیڑہ مستحکم ہوتے ہیں۔''

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کیا ہمارے ملک کا آج کا منظر اس ڈرامے کے منظر سے مختلف ہے۔ کیا آج ہمارے ملک میں چاروں طرف بربادی ہی بربادی نہیں پھیلی ہوئی ہے۔ کیا آج ہمارے ملک میں چار سو موت نہیں پھیلی ہوئی ہے ۔ کیا آج ہمارے شہروں میں لوبان کی خوشبو نہیں پھیلی ہوئی ہے کیا گھر گھر اذیتوں کو دور کرنے کے لیے دعائیں نہیں مانگی جارہی ہیں۔کیا آج ہر شخص خوفزدہ اور ڈرا ہوا نہیں ہے۔ کیاآج ملک میں سارے امید کے درخت سوکھ کر گر نہیں گئے ہیں۔ کیا آج ملک میں قبرستان کم نہیں پڑگئے ہیں۔


اگر یہ سب سچ ہے تو پھر آؤ ہم بھی سب اپنے حاکم وقت کے محلوں کی طرف چلتے ہیں اور ان محلوں کے سامنے بیٹھ کر حاکم وقت سے ہاتھ جوڑ کر التجائیں کرتے ہیں کہ فانی انسانوں میں تمہیں یہ مقام حاصل ہے کہ تم ہمارے مسائل کا حل ڈھونڈ نکال لا سکتے ہو۔ خدارا ہماری مدد کرو ہمارا تحفظ کرو، ہمیں اذیتوں سے نجات دلوا دو۔ ہم بھی تمہاری ہی طرح انسان ہیں، ہمیں بھی جینے اور خوش ہونے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ تمہیں حاصل ہے۔ ہمارا دل بھی پیٹ بھر کے روٹی کھانے کو چاہتا ہے ہمارا دل بھی خدا کی دی گئی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے تڑپتا ہے ہمیں بھی سکون اور امن چاہیے۔

خدارا ہمارے خوابوں کو زندہ درگور مت کرو ، انھیں زندہ رہنے دو ، انھیں سولی پہ مت چڑھاؤ ہماری خواہشوں کو اتنا ذلیل مت کرو۔ ہماری آوازوں کی اتنی بے حرمتی مت کرو ، ہمیں بھی جینے دو، یاد رکھو اختیار اور طاقت ہمیشہ ایک جگہ نہیں رہتیں بلکہ وہ جگہیں بدلتی رہتی ہیں وہ اپنے مقام تبدیل کرتے رہتی ہیں۔

آج جس جگہ تم کھڑے ہو اور جس جگہ ہم کھڑے ہیں یہ جگہیں بدل بھی سکتی ہیں۔ دنیا بھر کے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنے وقت میں اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے تھے اور جو دوسرے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگ گئے تھے۔

آج ان کی قبروں کی وحشت دیکھ کر لوگوں کوکئی کئی رات نیند تک نہیں آتی ہے آج جس جگہ تم ہو کل وہ بھی اسی جگہ پر تھے اور آج وہ جس جگہ پر ہیں۔ کل ہم سب بھی اسی جگہ پر ہونگے نہ ہم سے پہلے والوں کی جگہ بدل سکی ہے اور نہ ہی کبھی ہماری جگہ بدلے گی۔ اس لیے ہماری آوازیں سنو ! اس سے پہلے کہ تم کچھ بھی سننے کے قابل نہ رہو۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تمہاری عمر لگ بھگ ستر سال کے قریب ہوگئی ہے وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہے۔ آج تمہارے پاس وقت ہے ہوسکتا کل نہ ہو۔

جوزف ایڈیسن نے کہا تھا '' میں جب حسین لوگوں کے کتبے پڑھتا ہوں تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتا ہے اور جب میں والدین کی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور انا کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جانا ہے جب میں بادشاہ ہوں کو ان کی سازشوں کے ساتھ قبروں میں لیٹے دیکھتا ہوں۔

فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں اور یا پھر ان مذہبی جنونیوں کی قبریں ملاحظہ کرتا ہوں کہ جنھوں نے اپنی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دینا کو کار زار بنا دیا تھا تو میں حیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں، مقابلوں ، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں سوچتا ہوں جب میں قبروں پر لکھی تاریخیں پڑھتا ہوں جن میں سے کچھ کل فوت ہوئے تھے اور کچھ چھ سو سال پہلے ، تو میں اس عظیم دن کے بارے میں سو چتا ہوں کہ جب ہم سب ہمعصر بن کے اکٹھے زندہ کیے جائیں گے '' آج تمہارے پاس کچھ وقت ہے اس لیے تم زندگی کی سچائی کو ابھی سمجھ سکتے ہو ۔ ورنہ کل کوئی اور جوزف ایڈیسن تمہاری قبر پر کوئی اور ایسا ہی اقتباس لکھ رہا ہوگا ۔

میں ایک بار پھر اپنے گزشتہ کالموں میں کہی گئی یہ بات دہرانا چاہتا ہوںکہ ہمارے ملک کے سیاسی قائدین کی اکثریت 60 سال کی عمر کی حد پار کر چکی ہے ، ان سے قوم کو بہت امیدیں تھیں کہ وہ ان کی زندگیوں میں فرق پیدا کریں گے ، ان کی زندگیوں میں آسانیاں لائیں گے اور دنیا کے دیگر لوگوں کی طر ح وہ بھی ایک خوشحال ، کامیاب ، عزت دار زندگی کے مالک بن سکیں گے لیکن بدقسمتی سے ان کی کوئی بھی امید پوری نہ ہوسکی اور زندگی میں فرق اور آسانی تو دور کی بات ان کی تو زندگی اور مشکل سے مشکل ہوتی چلی گئی۔

ہمارے کرتا دھرتاؤں نے ہمیشہ آسان راستہ اپنایا اور ماضی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے محافظوں کا کردار ادا کرتے رہے ، انھوں نے اپنے لیے ایک معمولی اور عام قسم کی زندگی گذارنے کا انتخاب کیا ، دوسری طرف کروڑوں امیدیں ترستی آنکھوں سے ان کا انتظار کرتی رہیں کہ شاید کبھی انھیں ہمارا بھی خیال آجائے ، لیکن انھیں اپنے علاوہ کبھی دوسروں کا خیال نہ آیا افریقی کہاوت ہے ''جب کلہاڑا جنگل میں داخل ہوتا ہے تو درخت آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیںکہ دیکھو ، اس کا دستہ ہم میں سے ہی ہے۔ '' ہمارے حکمران اور سیاست دانوں کے ذہن میں رہے کہ پاکستان کے 22 کروڑ انسانوں کی تمہارے بارے میں سرگوشیاں جنگل کے درختوں کی سرگوشیوں سے مختلف نہیں ہیں۔

تمہیں یہ بھی یاد رہے کہ جلد یا بدیر تم عمرکے اس حصے تک پہنچ جاؤگے کہ جب تم کچھ بھی نہ کرنے کے قابل ہوجاؤ گے اور پھر تم اگر چاہو گے بھی تو اس وقت تک اتنی دیر ہوچکی ہوگی کہ تمہارے پاس ''کاش '' کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہوگا لیکن ابھی تمہارے پاس وقت ہے کہ تم کچھ مختلف کرسکتے ہو، کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں فرق لاسکتے ہو انھیں یکسر تبدیل کرسکتے ہو ان گنت دعاؤں کے در اپنے لیے کھول سکتے ہو، اپنے آپ کو سرخرو کرسکتے ہو، اپنے آپ کو لا فانی بنا سکتے ہو ، ابدی بنا سکتے ہو، ورنہ وہ دن اب دور نہیں ہے کہ تم بھی اپنے پیاروں سے سرگوشی میں کہہ رہے ہو۔ '' بیٹے زندگی اس طرح مت گذارنا جیسے میں نے گذاری ہے۔''
Load Next Story