دوزخ کی آگ سے بچو

ہم اور ہماری حکومت اس قسم کے واقعات کی روک تھام سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔

چند روز قبل کراچی کے علاقے کورنگی، مہران ٹاؤن میں سفری سامان بنانے والی ایک فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی۔ آگ لگنے کی وجہ فیکٹری کے دروازے کے قریب رکھے ہوئے کیمیکل کے ڈرم تھے۔

ایک ڈرم میں آگ کیسے لگی یہ ہنوز معلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ ایک ڈرم میں لگنے والی آگ نے قریب رکھے دوسرے ڈرموں تک رسائی حاصل کی کیمیکل فرش پر پھیل گیا اور اسی کے ساتھ آگ بھی پھیلتی چلی گئی۔ پڑوس میں واقع دوسری فیکٹریوں کے مزدوروں نے فائر بریگیڈ کو فوری اطلاع دی۔

چشم دید گواہان کا کہنا ہے کہ فائر بریگیڈ حسب معمول دیر سے پہنچی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی آگ نے لوگوں کا صبر و قرار چھین لیا ہو اور انھیں فائر بریگیڈ کی آمد میں تاخیر محسوس ہو رہی ہو، مگر اتنی تاخیر نہ ہوئی ہو۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ اطلاع ملنے پر فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی موقع پر پہنچ سکی اور جب خود فائر آفیسر نے محسوس کیا کہ آگ تیسرے درجے میں داخل ہوگئی ہے تو اس نے دوسری گاڑیوں کو بھی طلب کیا جو ظاہر ہے کہ دیر ہو جانے کے باعث آگ پر فوری قابو نہ پاسکیں۔اس ہولناک آتش زدگی کے نتیجے میںکئی افراد لقمہ اجل بن گئے۔

فیکٹری کے بارے میں اب جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق کورنگی، مہران ٹاؤن میں رہائشی علاقے کے ایک مکان نمبر C-40 میں یہ فیکٹری قائم تھی۔ ظاہر ہے کہ رہائشی علاقے میں اس قسم کی فیکٹری کا قیام ہی ناجائز تھا۔ ایسی غیر قانونی فیکٹریوں کا قیام اور ان کا جاری رہنا بجائے خود غیر قانونی ہے مگر اخباری اطلاعات کے مطابق جیسا ہمارا انتظامی ڈھانچہ ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، محکمہ لیبر اور دیگر ادارے ایسی فیکٹریوں سے ماہانہ بنیاد پر بھتہ وصول کرتے رہتے ہیں اور یہ غیر قانونی کام جاری رہتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کارخانے کی پہلی منزل پر سفری سامان بنانے کے علاوہ گوداموں کے لیے بھی جگہ مقرر ہے یہ کرائے پر دی جاتی ہے۔ گوداموں کو چوری سے بچانے کے لیے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں مثلاً کھڑکیوں پر گرل لگا دی گئی ہے اور اسی وجہ سے کھڑکیوں سے نکلنا ممکن نہیں رہا تھا۔ فیکٹری کا صرف آمد و رفت کا ایک دروازہ ہے اسی دروازے سے ملحق ڈرم رکھے تھے جن میں آگ لگی۔

گویا باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ اوپر کی منزل پر جانے کے جو دروازے تھے مبینہ طور پر وہ بھی مقفل تھے اس لیے دوسری منزل سے اوپر جا کر باہر کود جانے کا بھی امکان نہیں رہا۔ آگ، دھواں، انگارے، شعلے اور جھلستے ہوئے انسان جو چیخ پکار کر رہے تھے۔ وقفے وقفے سے ان کی چیخوں کی آوازیں آتیں پھر دب جاتیں اور بالآخر خاموشی چھا گئی۔ زندگی ہار گئی اور موت کا راج ہو گیا۔

مرنے والوں کے متعلقین آہ و زاری کرتے رہے، لوگ ان کے حال زار پر نوحہ کناں رہے۔ زخمیوں کو بمشکل نکالا جاسکا اسنارکل کے ذریعے بچے کچھے زخمی نکالے گئے جس کے نتیجے میں امدادی ٹیم کے دو کارکن بھی زخمی ہوئے۔ چند روز ان خبروں کو اہمیت دی جاتی رہے گی اور پھر لوگ اس حادثے کو اسی طرح بھول جائیں گے جیسے بلدیہ ٹاؤن کی آتش زدگی کو بھلا دیا گیا۔


بلدیہ ٹاؤن کا حادثہ اس سے کہیں زیادہ خوف ناک اور اتنا ہی شرم ناک بھی تھا۔ کیونکہ اس میں آگ لگی نہیں لگائی گئی تھی اور سیکڑوں کے حساب سے مزدور، جوان، ادھیڑ عمر، خاندان کے واحد کفیل، بہنوں کے اکلوتے بھائی، ماؤں کے بڑھاپے کے سہارے ان گنت لوگ زندہ جلا کر مار ڈالے گئے تھے۔

اس اندوہناک حادثے پر بھی کئی دن بڑی لے دے ہوتی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے اس آتش زنی کے مجرموں کی تلاش بھی غیر ضروری ہوگئی۔ چند غیر متعلقہ لوگوں کو قصوروار قرار دیا گیا۔ کچھ بااثر لوگ اپنا دامن یوں بھی بچا گئے۔ اس کے بعد اخبارات میں کچھ یہی خبریں آتی رہیں کہ متاثرین کو معاوضہ یا تو ادا ہی نہیں کیا گیا یا انھیں ترسایا جاتا رہا۔ وقفے وقفے سے یہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں مگر جن کے جگرگوشے ان سے جدا کردیے گئے وہ ذہنی مریض تو ہوگئے ان کے دکھ کا مداوا نہیں ہو سکا۔

اب تازہ ترین اطلاع ملی ہے کہ مہران ٹاؤن فیکٹری کے منیجر، سپروائزر اور چوکیدار کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ اس میں مالک کا کہیں ذکر نہیں ہے گویا فیکٹری کا چوکیدار ہی وہ شخص ہے جس نے یہ فیکٹری قائم کی۔ اسی نے کھڑکیوں پر گرل لگوائی۔ اسی نے رہائشی علاقے میں فیکٹری کی تنصیب کی غیر قانونی حرکت کی ہے۔ اسی نے فیکٹری میں آمد و رفت کا صرف ایک دروازہ رکھا ہے اور سپروائزر اور منیجر کا تقرر بھی اسی نے کیا ہے، اگر یہ سارا مقدمہ اسی طرح عدالت میں جائے تو کسی کو کوئی سزا نہیں ہوسکے گی۔

ایک اخبار نے یہ ہولناک خبر بھی دی ہے کہ اسی مہران ٹاؤن میں 35 کیمیکل فیکٹریاں اور قائم ہیں اور سب رہائشی علاقے میں غیر قانونی طور پر قائم کی گئی ہیں۔ متعلقہ اداروں کے علم میں ان کا قیام ہے نہ علم ہے بلکہ ان سے ان اداروں اور اس کے متعلقہ حکام کو آمدنی بھی ہوتی ہے اور اس آمدنی کے بل پر وہ خوب پھل پھول رہے ہیں۔

ہم اور ہماری حکومت اس قسم کے واقعات کی روک تھام سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ اس لیے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔ نتیجہ خیز اقدام نہ کرنے کے باعث ہرچند سال بعد کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے۔ جب حادثہ ہو جاتا ہے تو ایک شور مچ جاتا ہے چند روز گرما گرمی رہتی ہے اور پھر سارا معاملہ گاؤ خورد ہو جاتا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران ایسی حرکات کا سدباب کرنے اور ایسے حادثات کی روک تھام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ورنہ نتیجہ خیز اقدامات کے ذریعے ان ہولناک حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اب حالیہ حادثے کو لے لیجیے۔ رہائشی علاقے میں کارخانہ قائم کرنے اور اس میں کیمیکل کے ڈرم رکھنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے ،متاثرہ مزدوروں کے لواحقین کو معاوضہ دلوایا جائے۔ درست ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کی ذمے دار ہے مگر وہ اپنے پاس سے اس وقت معاوضہ دے جب متعلقہ پارٹی دیوالیہ ہو۔ کھاتے پیتے سیٹھوں سے معاوضہ دلوایا جائے تو آیندہ کسی کو ایسی جگہ، ایسی غیر معیاری فیکٹری قائم کرنے کی ہمت ہی نہ ہوگی۔

دیکھا جائے کہ اس جگہ فیکٹری قائم کرنے کی سفارش محکمہ لیبر یا کسی دوسرے ادارے کے کس افسر نے کی تھی۔ اس کی تنخواہ سے بھی شہدا کے ورثا کو معاوضہ دلوایا جائے اگر سفارش کرنے والا افسر سبکدوش ہو چکا ہو تو اس کی پنشن سے ماہانہ بنیاد پر کٹوتی کی جاتی رہے۔

اسی طرح وہ سرکاری افسران جو اس وقت فیکٹریوں کے معائنے پر مقرر ہیں ان کو یا تو ملازمت سے سبکدوش کردیا جائے یا پھر ان کی تنخواہوں کا ایک حصہ ایسے معاوضوں کی ادائیگی کی مد میں کاٹا جاتا رہے۔ ایسے جرأت مندانہ اقدام کے نتیجے میں جہاں رشوت ستانی اور بھتہ خوری سے نجات ملے گی وہیں کسی کو ایسی غیر قانونی تجارت کرنے اور اس سے اپنے متعلقین کے لیے دوزخ کی آگ بھرنے سے بھی نجات ملے گی۔
Load Next Story