قناعت کی برکات و فضائل

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مبارک ہے وہ شخص جس کو حق تعالیٰ شانہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہو۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مبارک ہے وہ شخص جس کو حق تعالیٰ شانہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہو۔ فوٹو : فائل

قناعت، عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں: ''جو مل جائے اُس پر راضی رہنا اور اسے ہی اپنی قسمت تصور کرنا۔''

یہ ایک ایسا عمدہ اور نیک وصف ہے، جس کے ذریعے انسان انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی گزارہ کر کے اپنے پروردگار کا قُرب حاصل کرکے خوش و خرم زندگی گزار سکتا ہے۔

ملتا تو انسان کو وہی ہے جو ربِ کائنات نے اُس کی قسمت میں لکھ رکھا ہوتا ہے، تو پھر خواہ مخواہ اپنی قسمت اور مقدر کو کوس کر کڑھ کڑھ کر زندگی گزارنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان قناعت اختیار کرلے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو مل جائے اسے خوشی خوشی دل و جان سے قبول کرکے اسی پر راضی رہے اور اُسی پر اﷲ تعالیٰ کا شُکر ادا کرے۔

آج ہماری زندگی میں خوشیاں کیوں نہیں ہیں؟ راحت و سکون کیوں اُٹھ چکا ہے؟ بے برکتوں اور نحوستوں نے کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟ اسی لیے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہیں ہیں! ہم اپنے مقدر پر خوش نہیں ہیں! ہم اپنی قسمت سے نالاں ہیں! حالاں کہ اگر آج ہی ہم زُہد و قناعت اور صبر و شُکر والی زندگی گزارنا شروع کردیں تو یقین جانیے ہماری زندگی میں خوشیاں دوبارہ لوٹ آئیں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہونے لگ جائے اور ہمارے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں۔

اور پھر مزے کی بات یہ کہ اس کے لیے ہمیں اجتماعی اور عالمی سطح پر نہیں بلکہ صرف انفرادی سطح پر محنت شروع کرنا ہوگی اور ہماری زندگی خود بہ خود خوش حال ہونا شروع ہوجائے گی، ہمارے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے اور ہم ایک اسلامی معاشرے میں ایک اچھے مسلمان کہلانے کے مستحق ہوجائیں گے۔

اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ اس قسم کے بے شمار واقعات سے لبریز ہے جس میں مسلمانوں نے انتہائی کسم پرسی اور دگرگوں حالات کے باوجود بڑی خوش حال اور آسودہ زندگی گزاری ہے۔ چناں چہ اصحابِ سیر نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا: تم اس وقت یہاں کہاں ؟ جناب ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ''بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا۔'' حضرت عمرؓ نے عرض کیا: واﷲ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں۔ یہ دونوں حضرات یہ گفت گو کر ہی رہے تھے کہ سردار دو عالم نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے۔

ان کو دیکھ کر دریافت فرمایا: تم اس وقت کہاں ؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ ! بھوک نے پریشان کیا ، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔ تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے، وہ تشریف نہیں رکھتے تھے، بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا۔

حضور اقدس ﷺ نے دریافت فرمایا: ''ابو ایوب کہاں گئے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا: ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں۔ اتنے میں ابو ایوبؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرط خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''سارا خوشہ کیوں توڑا ؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے۔


انہوں نے عرض کیا: اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں جو پسند ہو وہ نوش فرمائیں۔ (بعض مرتبہ پکی ہوئی سے ادھ کچری زیادہ پسند ہوتی ہیں) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا کچھ سالن تیار کرلیا۔

حضور اقدس ﷺ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابو ایوبؓ کو دیا کہ یہ حضرت فاطمہؓ کو پہنچا دو، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا۔ وہ فوراً پہنچا کر آئے، ان حضرات نے بھی سیر ہوکر نوش فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھو! یہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں۔ یہ فرما کر نبی اکرم ﷺ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا: اُس پاک ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہوگا۔

اسی طرح مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازمؒ کوبڑے اِصرار سے لکھا کہ آپ کو کچھ ضرورت ہوا کرے تو مجھ سے منگا لیا کریں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں نے اپنی ضرورتیں اپنے آقا کی خدمت میں پیش کردیں۔ اُس نے اُن پر جو کچھ مجھے عطا فرما دیا، میں نے اُس پر قناعت کرلی۔ (فضائل ذکر)

حضورِ اقدس ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ مبارک ہے وہ شخص جس کو حق تعالیٰ شانہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہو، اور صرف ضرورت کے بہ قدر اُس کی روزی ہو اور وہ اُس پر قناعت کرنے والا ہو۔ (بخاری و مسلم) اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ تُو متقی بن جا، سب سے بڑا عبادت کرنے والا ہوجائے گا اور (کم سے کم مقدار پر) قناعت کرنے والا بن جا، تُو سب سے زیادہ شُکر گزار ہوجائے گا۔ اور اپنے بھائی کے لیے بھی اُس چیز کو پسند کر جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہے تو کامل مومن بن جائے گا۔

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو یہ خط لکھا کہ دُنیا میں جتنی روزی مل رہی ہے تم اُس پر راضی رہو اور اسی پر قناعت کرلیا کرو، کیوں کہ رحمٰن نے اپنے بندوں کو کم زیادہ روزی دی ہے۔ اور یوں اﷲ تعالیٰ ہر ایک کو آزمانا چاہتے ہیں کہ جسے روزی زیادہ دی ہے اسے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ میرا شُکر کیسے ادا کرتا ہے ؟ اور اﷲ تعالیٰ کا اصل شُکر یہ ہے کہ اُس نے جو دیا ہے اسے وہاں خرچ کرے جہاں وہ چاہتا ہے۔ (کنز العمال)

محمد بن واسعؒ مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ سوکھی روٹی کو پانی میں بھگو کر کھا لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو اس پر قناعت کرلے وہ کسی کا بھی محتاج نہ ہو۔ ایک حکیم کا ارشاد ہے کہ میں نے سب سے زیادہ غم میں مبتلا رہنے والا حسد کرنے والے کو پایا اور سب سے بہترین زندگی گزارنے والا قناعت کرنے والے کو پایا۔

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ فقر بہت محمود چیز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شخص قناعت کرنے والا ہو۔ لوگوں کے پاس جو مال ہیں اُن میں طمع نہ رکھتا ہو۔ اُن کی طرف ذرا بھی التفات نہ کرتا ہو۔ اور نہ مال کے کمانے کی اُس میں حرص ہو۔ اور یہ سب چیزیں جب ہی ہوسکتی ہیں جب کہ آدمی اپنے اخراجات میں نہایت کمی کرنے والا ہو۔

کھانے میں، لباس میں، مکان میں کم سے کم اور مجبوری کے درجہ پر کفایت کرنے والا ہو۔ اور گھٹیا سے گھٹیا چیز پر قناعت کرنے والا ہو۔ اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو ایک مہینہ کے اندر اندر کی ضرورت کا تو خیال ہو ، اس سے آگے کی کسی چیز کی طرف اپنے خیال اور دھیان کو نہ لگائے۔ اگر اس سے آگے کی سوچ میں پڑجائے گا تو قناعت کی عزت سے محروم حرص و طمع کی ذلت میں پھنس جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے بُری عادتیں پیدا ہوجائیں گی۔ مکروہ چیزیں اختیار کرنا پڑجائیں گی۔ اس لیے کہ آدمی بالطبع حریص ہے۔

آنحضرتؐ صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دینؒ کے مندرجہ بالا فرامین و معمولات ِ زندگی کا حاصل اور نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ اپنی زندگی میں خوش حالی و آسودگی اور راحت و سکون لانے کا یہی ایک نسخہ ہے کہ آدمی اپنے اندر قناعت کی صفت پیدا کرلے، خواہشاتِ نفسانیہ (حرص و طمع اور بے صبری و ناشکری اور ناحق اپنی قسمت پر رونے) جیسی مذموم صفات ایک ایک کرکے اُس کے دل سے نکلنا شروع ہوجائیں گی اور اُس کی زندگی خوش حالی و فراوانی اور مرفہ الحالی و آسودگی کا گہوارہ بن جائے گی اور اسے اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کے اندر بھی لذت محسوس ہوگی۔
Load Next Story