علم اور معلّم کی فضیلت

اسلام نے جہاں حصول علم کو فرض قرار دیا وہیں استاد کو بھی معزز و اعلیٰ مرتبہ دیا ہے۔

اسلام نے جہاں حصول علم کو فرض قرار دیا، وہیں استاد کو بھی معزز و اعلیٰ مرتبہ دیا ہے۔ فوٹو: فائل

انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے لیکن اس کے اندر بھی کئی مدارج رکھے گئے ہیں، اور ان تمام مدارج کی بنیاد اساس علم پر ہے جس کی وجہ سے اسے بلند ترین رتبے پر فائز کیا گیا ہے۔

کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فضیلت ہے لیکن جب علم سے اس کا واسطہ پڑا تو کائنات کا اعلیٰ فرد بن گیا۔ علم انسان کے اندر نیکی، تقویٰ، پرہیز گاری، زہد و اطاعت، خوف خدا اور حسن خلق جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔

رب تعالیٰ نے جب ظلمت و اندھیروں میں ڈوبی انسانیت کی ہدایت کا فیصلہ کیا تو نبی آخر الزماں سرور کونین محمد مُصطفٰی ﷺ کو معلّم انسانیت بنا کر ابدی صداقت سے تاریکی کو دُور کرنے کے لیے بھیجا اور جہالت کو علم کی روشنی سے منور کیا۔

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ معلم انسانیت آقائے دو جہاں ﷺ وہ راہ بر و محسن تھے جنھوں نے میدان جنگ سے گرفتار ہونے والے پڑھے لکھے قیدیوں کی رہائی کی شرط مسلمانوں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی رکھ دی۔ قرآن پاک نے انسانیت سے سوال کیا، مفہوم: ذرا بتاؤ! تو سہی کہ بھلا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔

اسلام نے علم و حکمت کو خیر کثیر کہا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت سی بھلائی عطا کی گئی۔ علم سکھانے والا معلّم ہے۔ اور کائنات کی سب سے عظیم ہستی جناب نبی کریم ﷺ جن کی وجہ سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی وہ خود فرما رہے ہیں: ''بے شک! مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔''

استاد کی حیثیت و اہمیت کا اندازہ اسی قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ فرض شناس استاد ہی کسی قوم کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے بہ احسن عہدہ برا ہو سکیں۔ اساتذہ روحانی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماں باپ اس دنیا میں لاتے ہیں اور استاد علم و ہنر سکھا کر انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔


ایک زمانہ تھا جس میں استاد کی عزت و احترام کا یہ عالم تھا کہ شاہوں کی شاہی بھی اساتذہ کے سامنے سرنگوں ہوتی تھی۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی انسان نے مادی ترقی کی منازل طے کیں اور اتنی ''ترقی'' کر لی کہ ہر رشتہ، ہر لحاظ، ہر واسطہ و تعلق کو فراموش کردیا۔ اور استاد کی عزت و احترام بھی کہیں کھو گئی۔ آج استاد کو محض ایک تن خواہ دار ملازم کی حیثیت دی جاتی ہے اور جب اس سوچ کے ساتھ جب علم حاصل کیا جائے تو وہ ایک ڈگری ایک کاغذ کے حصول سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ اور پھر ایسے میں انسانیت کہیں دور تاریکیوں میں بھٹک جاتی ہے۔

معاشرے جرائم کی آماج گاہ بن جاتے ہیں۔ ان رویوں کے ذمے دار کسی حد تک والدین بھی ہیں۔ یہ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ استاد کی عزت و تکریم اولاد کو سکھائیں۔ ناصرف اولاد بلکہ معاشرے میں ہر فرد کے ساتھ مودب رویہ اپنانے کی تلقین کریں۔ استاد کے مقام و اہمیت سے روشناس کروائیں۔ غریب و نادار لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بتائیں۔

اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں استاد کو بھی معزز و اعلیٰ مرتبہ دیا۔ حضور اکرم ﷺ جب صحابہ کرامؓ کو درس دے رہے ہوتے تھے تو وہ اس قدر خاموش اور مستعد ہو کر بیٹھتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں اور اگر انھوں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے۔

آپؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ، اس کے فرشتے، حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور سمندر میں مچھلیاں بھی اس شخص کے لیے دعا کرتی ہیں جو علم نافع سیکھتا اور سکھاتا ہے۔ علماء و اساتذہ علم کی ترویج اور اس کے فروغ کا وسیلہ ہیں اور ان کی قدر و منزلت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے، مفہوم: ''علماء انبیائؑ کے وارث ہیں۔'' استاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ معلم کے لیے کائنات کی ہر شے دعائے خیر کرتی ہے۔

ایک دفعہ خلیفہ مامون الرشید کے دونوں بیٹوں کے استاد محترم کو کہیں جانا پڑا۔ وہ اٹھے تو دونوں شہزادے استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے دوڑ پڑے اور ایک ساتھ وہاں پہنچے اور دونوں نے ایک ایک جوتی سیدھی کرلی۔ خلیفہ مامون کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو انھوں نے استاد کو بلا بھیجا اور سوال کیا: آج دنیا میں سب سے معزز انسان کون ہے۔

استاد نے جواب دیا: آپ سے بڑھ کر کون معزز ہو سکتا ہے؟ مامون الرشید نے کہا: ہرگز ایسا نہیں ہے، اصل معزز تو وہ ہے جس کے جوتے سیدھے کرنے کے لیے حکم ران کے بیٹے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہوں اور اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھیں۔

سکندر اعظم کو آدھی دنیا کا فاتح کہا جاتا ہے لیکن وہ اپنی کام یابی کو اپنے استاد کی مرہون منت کہتا ہے۔ سکندر اعظم کے یہ الفاظ تاریخ میں رقم ہیں: ''میرا باپ مجھے زمین پر لایا اور میرے استاد نے مجھے آسمان تک پہنچا دیا۔'' استاد کی تکریم کے بغیر ان سے کسب فیض ممکن نہیں۔ کیوں کہ علم نافع احترام سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ احترام نہ ہو تو کتابیں ازبر کرکے کاغذ کا ٹکڑا (ڈگری) تو لی جاسکتی ہے مگر تربیت و فیض کے نور سے قلب و ذہن کو منور نہیں کیا جاسکتا۔
Load Next Story