پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کی نظریاتی بنیاد اب بھی موجود ہے امریکا

یمن میں موجود القاعدہ کا نیٹ ورک امریکا کے خلاف حملے کی طاقت رکھتا ہے، ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس جیمز كلیپر


ویب ڈیسک January 30, 2014
القاعدہ کی 5 ذیلی تنظیمیں عملی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور یہ تنظیمیں دنیا کے 12 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں، ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس۔ فوٹو؛ فائل

امریکی خفیہ اداروں نے کہا ہے کہ القاعدہ کا نیٹ ورک کمزور نہیں ہوا ہے اور اس کی نظریاتی بنیاد اب بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے۔

امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس جیمز كلیپر کا کہنا تھا کہ القاعدہ کا نیٹ ورک کمزور ضرور نہیں ہوا اور اس کا خطرہ اب بھی باقی ہے، القاعدہ کی نظریاتی بنیادیں اب بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ کی 5 ذیلی تنظیمیں عملی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور یہ تنظیمیں دنیا کے 12 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

جیمز كلیپر کا کہنا تھا کہ یمن میں موجود القاعدہ کا نیٹ ورک امریکا کے خلاف حملے کی طاقت رکھتا ہے اور شام میں موجود القاعدہ کا القاعدہ کا نیٹ ورک امریکا پر حملے کا خواہش مند ہے اور اس کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، شام میں القاعدہ کی ایک نئی فورس تیار ہو رہی ہو جس میں مخلتف ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو شامل ہو رہے ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں کم سے کم 26 ہزار شدت پسند ہیں جن میں سے 7 ہزار غیرملكي ہیں اور یہ یورپ سمیت 50 مختلف مملک سے آئے ہیں۔

نیشنل انٹیلی جنس کی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے لیکن اگر پاکستان کو لگا کہ اس کی خود مختاری کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو اس صورت میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آ سکتی ہے، وزیراعظم نوازشریف پاکستان کی معیشت، توانائی اور سكيورٹی کے معاملات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں اور ان معاملات میں کامیابی کے لئے وہ امریکہ سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ نواز شریف پاکستان کی خارجہ امور اور نیشنل سكيورٹی کی پالیسی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں جو ان کے اور پاک فوج کے سربرا جنرل راحیل شریف کے تعلقات کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں