درآمدات اور برآمدات بحوالہ چین و افغانستان
اب پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ برآمدات میں اضافے پر بھی دینا ہوگی۔
KARACHI:
گزشتہ دنوں درآمدات کا جائزہ لینے سے متعلق ایک اہم اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ یکایک درآمدات میں ایک ارب ڈالر مزید کا اضافہ کیونکر ہوگیا۔
بات کچھ ایسی تھی کہ درآمدات کے متعلق ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے اور حکام نے اس مرتبہ پچھلے تین برسوں کی اوسط کی بنیاد پر اندازہ لگایا تھا کہ درآمدی حجم کا تخمینہ 5.5 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے، لیکن پاکستان بیورو آف اسٹیٹیکس کے محنتی عملے نے پورے مہینے کے درآمدات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے تو اگست میں درآمدات6.5 ارب ڈالرز رہیں۔
اس کے نتیجے میں سال بہ سال کی بنیاد پر تجارتی خسارہ ماہ اگست 2021 میں 144 فی صد بڑھ کر 4.2 ارب ڈالر رہا۔ اب اگر ابتدائی مہینوں میں ہی اتنا زیادہ تجارتی خسارہ ہوتا ہے تو کیا اس سال 50 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہو سکتا ہے۔ معاشی حکام جوکہ ماہانہ درآمدات کا تخمینہ لگا رہے ہیں ان کو اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کی برآمدات سے دگنا تجارتی خسارہ ہو جائے۔
مالی سال 2020-21 کی درآمدات 56 ارب 40 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز تھیں جب کہ اس سے بھی پہلے والے مالی سال 2019-20 کے دوران درآمدات کا حجم 44 ارب 55 کروڑ30 لاکھ ڈالرز رہیں یعنی درآمدات میں 26.60 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا تھا ، لیکن رواں مالی سال میں اگر حکومت نے درآمدات سے متعلق بہت سے اقدامات نہ اٹھائے جن میں خوراک کی درآمدات پرکنٹرول کرنا اور خاص طور پر اشیائے تعیشات کی درآمدات اور قیمتی گاڑیوں کی درآمد سے متعلق پالیسی اور دیگر کئی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو درآمدات کا حجم 80 ارب ڈالر سے بڑھ کر رہے گا۔
یہاں پر واضح رہے کہ ہر وہ درآمدات جوکہ برآمدات کے لیے ہوں یا جن کا نعم البدل ملک میں موجود نہ ہو جوکہ متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں نعم البدل تو تیارکیے جاتے ہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ کوالٹی اور کئی دیگر امور میں غیر ملکی مصنوعات کا مدمقابل تسلیم نہیں کیا جاتا لہٰذا صارف درآمدی اشیا یا مصنوعات کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ ماہ اگست میں جتنی درآمدات کرلی گئیں وہ کسی بھی ایک ماہ کی بلند ترین درآمدات تھیں۔ لہٰذا حکام کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، اگرچہ حکام نے سال بھر کے لیے جو اندازے لگائے ہیں کہ درآمدات کا حجم 70 ارب ڈالر رہے گا۔
بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کے اندازے اگر غلط ہو جائیں یا ان میں بڑا فرق آجائے جیساکہ ماہانہ بنیاد پر درآمدات کا اندازہ لگاتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ 10 ارب ڈالر یا کم زیادہ کا فرق آسکتا ہے۔ بھلا بتائیے معیشت پر اس کے منفی اور مہلک اثرات کہاں کہاں مرتب نہیں ہوں گے؟
آخر نتیجہ کیا نکلے گا کہ مہنگائی کا طوفان اور اس سیلاب میں غریب عوام لاکھوں کی تعداد میں بہہ کر غربت کی کھائی میں جاگریں گے۔ حکومت کتنے ہی دعوے کرتی رہے لیکن اب تک پاکستان کو 1960 کی دہائی کی طرح صنعتی میدان میں کامیاب نہیں کر پائے گی ، جب تک بند صنعتوں کو کھولنے اور نئی صنعتوں کے قیام اور بیرونی سرمایہ کاری کا عمل تیز نہیں ہوگا روزگار کے مواقع نہیں بڑھیں گے۔
معیشت میں یہ باتیں ترقی پذیر ملکوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ وہ تجارتی خسارے کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں۔ ایسا کنٹرول جس سے صنعتی ترقی اور معاشی ترقی منفیت کا شکار نہ ہو۔ ان میٹریلز کی درآمدات پر کوئی رکاوٹ نہ ہو جوکہ صنعتوں کے پھیلاؤ برآمدات میں اضافے کے لیے ضروری ہوں۔ ان مشینریوں وغیرہ کی درآمدات کی حوصلہ افزائی ہو جس سے نئی صنعتوں کا قیام یا پھر صنعتوں کی توسیع کے لیے ضروری ہوں وغیرہ وغیرہ۔
اب ہم رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ہونے والے تجارتی خسارے کا جائزہ لیتے ہیں۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق مالی سال کے پہلے دو ماہ یعنی جولائی اگست 2021 میں تجارتی خسارے میں 119.4 فیصد اضافے کے ساتھ 7 ارب 49 کروڑ ڈالر سے زائد رہا ، جب کہ برآمدات کا حجم ان دو ماہ میں 27.59 فیصد اضافے کے ساتھ 4 ارب 57 کروڑ ڈالرز تک کا تھا۔ ان دو ماہ میں درآمدات 72.59 فیصد اضافے کے ساتھ 12 ارب 6 کروڑ ڈالرز کی رہیں۔ جب کہ مالی سال 2020-21 کے دو ماہ میں درآمدات کا حجم 6 ارب 99 کروڑ ڈالرز رہا۔
اب پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ برآمدات میں اضافے پر بھی دینا ہوگی۔ ملکوں کے اعتبار سے جن ممالک کو برآمدات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ، ان میں سب سے اہم ملک چین ہے کیونکہ چین سے ہم بڑی بھاری مقدار میں درآمدات کر رہے ہیں اور اب تک چین کے ساتھ تجارتی توازن ناموافق ہی رہا ہے۔ البتہ گزشتہ سال اگست کی نسبت رواں سال اگست میں چین کے لیے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
صرف ماہ اگست میں ہی پاکستان کی چین کو برآمدات 197.27 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں ، جو اگست 2020 میں 94.4 ملین ڈالرز تھیں۔ اس طرح پاکستان کی چین کو برآمدات میں 109 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ اب چین پاکستان کے لیے دوسرا برآمدی ملک بن رہا ہے۔