بطور ’ڈی جی پروٹوکول‘ چار وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا
’وفاقی محتسب انشورنس‘ بننے کے بعد فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی شرح صفر ہوگئی، ڈاکٹر خاور جمیل سے گفتگو
شہرِقائد میں بھی بہت سی جگہوں پر پرانی کتابوں کے بازار سجتے ہیں، جہاں آج کے 'انٹرنیٹ' اور 'اسمارٹ فون' کے دور میں بھی تِشنگان علم بہترین کتب کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔۔۔ بہت سے قدر دانوں کو یہاں سے ایسے ایسے نایاب موتی ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔
یہاں دراصل ایسے بہت سے خزانے بڑے اساتذہ ومحققین کی ''کم علم'' اور ''ناسمجھ'' اولاد کی 'کرم فرمائی' کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں، جو والد کی آنکھ بند ہوتے ہی اور کبھی تو اِن کی آنکھ سے بچا کر ان کے قیمتی ذخیرے کو کوڑیوں کے مول اور کبھی تو ردی کے بھائو تول کر فروخت کر ڈالتے ہیں۔۔۔ ایسے میں اگر علم و ہنر کے کسی قدآور اور گھنے پیڑ کی شاخوں میں کوئی اس پھل کی سَمائی رکھنے والا موجود ہو تو یہ یقیناً اُس محقق کی خوش نصیبی کے ساتھ خود اس کے اپنے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہوتی ہے۔
دوسری طرف اس علمی ورثے کی امانت داری پر سماج کے ہر ہر طالب علم کو بھی اس کا شکر گزار ہونا واجب ہو جاتا ہے۔۔۔ گذشتہ دنوں کی ایک سہ پہر ہمیں ایک ایسی ہی وفاشعار اولاد سے شرف باریابی حاصل ہوا۔۔۔ اور ہم نے ان کے والد ڈاکٹر جمیل جالبی سے کبھی نہ مل سکنے کی خواہش کا ازالہ اسی بالمشافہ ملاقات میں کرنے کی کوشش کی۔۔۔
ڈاکٹر خاور جمیل۔۔۔، جو ان دنوں 'وفاقی محتسب انشورنس' کے عہدے پر فائز ہیں، بتاتے ہیں کہ ابّا (ڈاکٹر جمیل جالبی) کے ذاتی کتب خانے میں ایک لاکھ سے زائد کتب تھیں، ہر کمرے میں، ہر جگہ کتابیں۔۔۔ 2014ء میں جب وہ وفاقی سیکریٹری تھے، تو 'برٹش لائبریری' نے ان کتب کے عوض ایک بڑی رقم کی پیش کش کی۔ انھوں نے معذرت کی کہ میں اپنے والد کا نام نہیں بیچ سکتا۔ پھر 'جاپانی کلچرل سینٹر' والوں نے بھی اسے 'آن لائن' کرنے کے ساتھ ایک ایسی خطیر پیش کش کی، ان سے بھی معذرت چاہی۔
پھر اس وقت کے شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی ڈاکٹر محمد قیصر سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں اپنے والد کی کتب عطیہ کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے اپنی ایک ٹیم بھیجی، جس نے رپورٹ دی کہ یہ موجودہ لائبریری کی پوری ایک منزل میں بھی نہیں سما سکتیں، 2016ء میں جامعہ کراچی کے 'سینڈیکیٹ' نے ایک قرارداد منظور کی کہ 'ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری' کے لیے مرکزی کتب خانے 'ڈاکٹر محمود حسین لائبریری' کے ساتھ ایک الگ عمارت بنائی جائے، اس کے بعد ڈاکٹر قیصر سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوگئے۔
کچھ ماہ بعد ڈاکٹر قیصر کا فون آیا اور انھوں نے جامعہ کراچی کی خراب مالی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو 100 والی چیز 90 روپے میں ملے گی، ہمارے ہاں ہزار میں لے کر آئیں گے، تو جہاں آپ اتنی کتابیں دے رہے ہیں، تو اس کے لیے ایک عمارت بھی بنوا دیجیے! جس کے بعد میں نے اپنے چچا اور ماموں وغیرہ سے مشورہ کیا اور پھر یہ کام شروع کرایا۔ یہ بڑا منصوبہ اکیلے پورا نہیں کر سکے، چناں چہ گذشتہ سال 'حکومت سندھ' کے تعاون سے اِسے مکمل کیا۔
مذہب سے قریب ہونے والے خاور جمیل نے زمانۂ طالب علمی میں 'لبرل ونگ' سے جُڑنے کا ذکر کیا، تو ہم اس تبدیلی کا سوال کیے بنا نہ رہ سکے، وہ کہنے لگے کہ ''بس یہ اللہ کی طرف سے ہے۔'' ہم نے جواب میں تشنگی پا کر استفسار کیا، تو انھوں نے بتایا کہ 'ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا کہ وہ اس طرف آگئے۔۔۔ ایک وقت تھا، والدہ ڈانٹ کر جمعہ پڑھنے بھیجتی تھیں، پھر اللہ نے اتنی سعادت دی کہ دو دفعہ کعبے کے اندر جانے کا موقع ملا۔۔۔!
انھوں نے بتایا کہ وہ نوازشریف کے پہلے دور میں وزیراعظم کے 'ڈی جی پروٹوکول' تھے۔ اس زمانے میں سعودی حکومت کے تعاون سے گلبدین حکمت یار اور دیگر افغان گروہوں کا معاہدہ کرانا تھا، تاریخ یاد نہیں، یہ چیزیں 'فارن آفس' دیکھ رہا ہوتا تھا۔ انھوں نے چار وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا۔
1993ء میں نوازشریف کے بعد بلخ شیر مزاری بطور نگراں آگئے، پھر عدالتی حکم پر نوازشریف بحال ہوگئے، اور پھر ان کے مستعفی ہونے کے بعد معین قریشی کو نگراں وزیراعظم نام زَدکیا گیا اور عام انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو آگئیں، ان کے ساتھ تین ماہ کام کیا، پھر گھر والوں سے قریب ہونے کی خاطر اپنا تبادلہ کرا لیا۔ ہم نے مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ کام کے تجربات ٹٹولنا چاہے، تو وہ بڑے محتاط رہے اور کہنے لگے کہ ''سارے صحیح تھے، ہمارا تعلق وزیراعظم کے پروٹوکول کے لوازمات کو دیکھنا تھا، سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا۔''
ڈاکٹر خاور جمیل نے 'سی ایس ایس' کا مرحلہ 1977-78ء میں ماسٹرز کے ساتھ ہی طے کرلیا، ان کی پہلی تقرری کمشنر سندھ سوشل سیکیورٹی کے طور پر ہوئی، پھر ایم ڈی سائٹ، ڈائریکٹر لیبر سندھ، ڈی سی او جام شورو، کمشنر SEESI اور پورٹ قاسم میں ڈی جی فنانس وغیرہ رہے، پھر وہاں سے 22 گریڈ میں وفاقی سیکرٹری ہوگئے، والد کی علالت کے سبب شہر میں تبادلے کی سفارش کی اور چیئرمین ایکسپورٹ پروسسنگ بیورو بن گئے۔
ڈاکٹر خاور کہتے ہیں کہ انھوں نے ہر محکمے میں نت نئے تصورات دیے، تاہم 'سوشل سیکیورٹی' کا تجربہ زیادہ اچھا لگا، وہاں مزدوروں کے لیے کراچی کی پانچوں انڈسٹریل ایسوسی ایشنز یعنی سائٹ، نارتھ کراچی، لانڈھی، کورنگی اور فیڈرل بی ایریا میں مفت میڈیکل کیمپ لگوائے، جہاں بلامعاوضہ دوائوں کے ساتھ تمام ٹیسٹ مع ایکسرے، الٹرا سائونڈ وغیرہ کیے گئے، نتیجتاً وہاں رجسٹریشن میں اضافہ ہوا، اور ہمارا ریونیو بڑھا۔
ڈاکٹر خاور جمیل جنوری 2020ء میں 'وفاقی محتسب انشورنس' بنے، جس کے بعد عمرے پر چلے گئے، پھر 'کورونا' کی وبا کے سبب تعطل آگیا۔ یہاں کے تجربات کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں غلط بیانی کر کے بہت سی 'انشورنس پالیسیاں' بیچی جاتی ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ پانچ سال تک پیسے دیتے رہیں گے تو اتنے پیسے ہوجائیں گے اور موت کی صورت میں یہ سب لواحقین کو ملیں گے۔ اس میں 'بینک انشورنس' یا بینکاانشورنس (Bancassurance) کا بہت منفی اثر سامنے آیا اور بہت زیادہ جھوٹ بول کر پالیسیاں دی گئیں، ایک بار وہ خود بھی جھانسے میں آگئے کہ تین سال تک پیسے دینے کا کہہ کر بینک کے افسر تو برانچ سے چلے گئے، لیکن میں اس کا 'پریمیم' دیتا ہوں!
یہاں کے معمولات سے جُھوجھنے پر روشنی ڈالتے ہوئے خاور جمیل یوں گویا ہوئے کہ ''جب آپ کسی 'مافیا' سے لڑتے ہیں، تو یہ آسان نہیں ہوتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی منفی اثر آئے، کیوں کہ ہماری 'جی ڈی پی' میں بیمے کا حصہ صفر اعشاریہ آٹھ فی صد ہے، جو ہمارے خطے میں سب سے کم ہے۔۔۔ ہندوستان کا ایک اعشاریہ نو فی صد تک ہے۔ کوشش ہے کہ اعشاریہ آٹھ سے ایک سے اوپر لے کر جائوں۔ اس کے علاوہ یہاں 'پراسیکیوشن ' پر کافی کام کیا، ہمارے فیصلے کے خلاف کمپنی یا دوسرا فریق 'اپیل' میں چلا جاتا تھا، اس پر کام کیا۔
ایک سال کے اندر دسمبر 2020ء تک ہمارے فیصلوں پر اپیلیں صفر ہوگئیں۔۔۔ اسے یقینی بنانے کے لیے قائل کرنے کی طرف گئے کہ کسی بھی تنازع پر دونوں فریق راضی ہو جائیں، یہ مشکل کام ہوتا ہے کہ ہم دلائل کے ذریعے کوئی راستہ نکالیں۔''
وہ کہتے ہیں کہ میرے آنے سے پہلے 'وفاقی انشورنس محتسب' میں سالانہ 410 ملین کا ریلیف تھا، اب ہم نے مختلف کمپنیوں سے پیسے لے کر 2.13 بلین کا ریلیف دلایا، ہم سے وزیر نے پوچھا بھی تھا کہ کمپنیاں تو شکایت کریں گی، تو انھیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے، ان کے پاس بہت پیسہ ہے۔ میں ان کمپنیوں کے سی ای او، ایم ڈی اور چیئرمین وغیرہ سے میٹنگ کرتا ہوں، انھیں کہتا ہوں کہ تصفیے کی طرف جائیں، لڑائی جھگڑے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر سال میں ایک لاکھ کما رہے ہیں، اور وہاں ایک روپیے کے بہ جائے پانچ روپے دینے پڑیں، تو کوئی حرج نہیں۔
ہم نے خاور جمیل سے اِن مسائل میں زیادہ خرابی کا دوش پوچھنا چاہا، تو خاور جمیل کہنے لگے کہ خرابی دونوں طرف سے ہے، لوگ بھی انشورنس کراتے ہوئے بیماریاں چھپاتے ہیں، تاہم اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ دو سال تک کی پالیسی کے بعد چاہے بیماریاں چھپائی بھی گئی ہوں، تب بھی بیمہ کمپنی اسے ادائی کرے گی۔
ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے خاور جمیل نے بتایا کہ ایک دن انھوں نے اپنے کمرے سے باہر ایک خاتون کے رونے کی آواز سنی، پتا چلا کہ یہ 'بینکا انشورنس' کا معاملہ تھا، وہ کہہ رہی تھیں، میں دو سال سے آرہی ہوں، بینک 40، 45 لاکھ کے بہ جائے 30، 40 ہزار روپے دے رہا ہے۔ میں نے خاتون سے 15 دن کا وقت لیا اور اس سے پہلے ہی ان کو چیک دلوا دیا۔ ہم نے پوچھا کہ اس پر بینک نے اعتراض نہیں کیا، تو وہ بولے کہ نہیں، انھیں بھی اپنے کمزور نکات پتا ہوتے ہیں، ہم نے انھیں سمجھا دیا، دلائل سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کے پاس 'ڈنڈا' ہو، لیکن آپ اس کا استعمال نہ کریں۔
ڈاکٹر خاور جمیل نے بتایا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس، نیشنل انشورنس اور پوسٹل لائف۔۔۔ بیمے کے یہ تین سرکاری ادارے ان کے اختیار میں نہیں، ہم نے انھیں اپنے دائرہ اختیار میں لانے کے لیے لکھا ہے، اس پر کام جاری ہے۔ 'وفاقی محتسب انشورنس' میں شکایت درج کرانے کے لیے سادے کاغذ پر درخواست بھی کافی ہے۔
درخواست 'آن لائن' بھی وصول کی جاتی ہے، 24 گھنٹے کے اندر رجسٹریشن نمبر مل جاتا ہے اور 60 دن میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ فیصلے کے بعد نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے، اور اس کے بعد صدر مملکت سے اپیل کا مرحلہ ہوتا ہے اور پھر ہم سے 'کمنٹ' لیے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ سال سے اپیل صفر ہو چکی ہیں۔ 'وفاقی محتسب انشورنس' کے دیگر شہروں میں ہمارے مشیر موجود ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ہمارا دفتر بن گیا ہے۔ اِن سے بہ ذریعہ ویڈیو لنک رابطہ ہوتا ہے، سماعت یہیں سینئر ایڈوائزر کرتے ہیں، وہ ان تمام فیصلوں اور شنوائی کو دیکھتے اور پھر مہر ثبت کرتے ہیں۔
ہم نے ڈاکٹر خاور جمیل سے اہداف پوچھے، تو وہ بولے کہ 'جی ڈی پی' میں بیمے کا حصہ ایک اعشاریہ پانچ فی صد یا اس سے اوپر لے کر آنا ہے، یہ رقم اربوں روپے میں بنتی ہے، ساتھ ہی کوشش ہے کہ لوگوں کو پتا چلے کہ اس طرح کا کوئی ادارہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔
پہلے صاحب دیوان شاعر شاہ عالم ثانی آفتاب کا دیوان مرتب کیا
ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہونہار سپوت ڈاکٹر خاور جمیل، بلاشبہ برصغیر پاک وہند کے ایک نمایاں علمی خانوادے سے ہیں، اپنے ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ پیر کالونی کے گھر میں دادا، دادی اور چچا وغیرہ سمیت 18 افراد رہتے تھے، ایک ہی ہانڈی بنتی تھی، کوئی بھی بڑا ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام کی ایسی عادت پڑی کہ جب دوسرے شہر میں الگ رہنا بڑا تو یہ بہت دشوار رہا۔
1964-65ء میں ہم نارتھ ناظم آباد آگئے۔ پھر خاندان بڑھا، تو کچھ لوگ امریکا چلے گئے۔ پہلے میرے چچا 1962ء میں کیمیکل انجینئرنگ کے بعد وہاں منتقل ہوئے، بعد میں انھوں نے اپنے بھائیوں کو بھی بلا لیا، وہاں وہ اچھے عہدے پر فائز ہوئے، بہت خوش حال ہیں، ان کو ایک چھوٹا جہاز ملا ہوا ہے۔ اب ہمارے خاندان کے 75 فی صد افراد امریکا میں مقیم ہیں۔
ڈاکٹر خاور جمیل 23 ستمبر 1956ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، کہتے ہیں کہ دو ڈگریوں کے سوا ساری تعلیم جامعہ کراچی کی ہے، 'لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن' کا حصہ بھی رہا، 1978ء میں جامعہ کراچی سے معاشیات میں 'ماسٹرز' کیا۔ ساتھ 'سی ایس ایس' کے امتحانات دیے اور پھر 'ایل ایل بی، ایل ایل ایم، ایم اے سیاسیات اور پھر امریکا کی 'اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی' سے 'ایم بی اے' فائنانس کیا۔ 'لندن اسکول آف اکنامکس' سے 'پلاننگ اینڈ مینجمنٹ' کی ڈگری لی، پھر جامعہ کراچی سے 'پی ایچ ڈی' کا مرحلہ طے کیا۔
'ڈاکٹریٹ' میں شاہ عالم ثانی آفتاب کا دیوان مرتب کیا، جنھیں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام برٹش میوزیم (لندن) سے جا کر نکالا اور مرتب کیا۔ اورنگ زیب عالم گیر کے بعد شاہ عالم ثانی آفتاب مغل بادشاہوں میں ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔
خاور جمیل نے بتایا کہ وہ حیدرآباد کے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان سے بہت متاثر ہوئے، جنھیں 'حاضر ولی' کہا جاتا تھا، وہ ابا (جمیل جالبی) کے بہت قریب تھے، میں انھیں چچا کہتا تھا۔ ابّا کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے بعد ان کی کوئی اولاد ان کی چیزوں کو سنبھالے، میری اتنی بساط نہیں تھی، لیکن پھر بھی جتنا کر سکا کیا، لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، دیگر موضوعات تو پیشہ وارانہ تقاضا تھے، لیکن زمانۂ طالب علمی سے 'جنگ' اور 'ڈان' وغیرہ میں ادب کے حوالے سے لکھنا لکھانا رہا۔ ادبی تصانیف اور تالیف کی تعداد نو ہے، جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی پر لکھے گئے مختلف مضامین کا ضخیم مجموعہ نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈاکٹر نسیم فاطمہ کے ساتھ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مصاحبات و مختلف مکاتیب بھی مرتب کیے ہیں۔
جامعہ کراچی کے حوالے سے یادوں کا ذکر ہوا، تو انھوں نے بتایا کہ جب تک ہم تھے، تب حالات ایسے خراب نہیں تھے، کبھی آتشیں اسلحہ نہیں دیکھا، بس چاقو نکال آتا تھا۔۔۔ جامعہ کراچی میں نہ رینجرز تھی نہ پولیس۔۔۔ سابق وفاقی مشیر وقار مسعود، خواجہ تنویر (خواجہ نوید کے چھوٹے بھائی) اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سردار رحیم وغیرہ ان کے ہم جماعتوں میں شامل رہے۔۔۔
یہاں دراصل ایسے بہت سے خزانے بڑے اساتذہ ومحققین کی ''کم علم'' اور ''ناسمجھ'' اولاد کی 'کرم فرمائی' کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں، جو والد کی آنکھ بند ہوتے ہی اور کبھی تو اِن کی آنکھ سے بچا کر ان کے قیمتی ذخیرے کو کوڑیوں کے مول اور کبھی تو ردی کے بھائو تول کر فروخت کر ڈالتے ہیں۔۔۔ ایسے میں اگر علم و ہنر کے کسی قدآور اور گھنے پیڑ کی شاخوں میں کوئی اس پھل کی سَمائی رکھنے والا موجود ہو تو یہ یقیناً اُس محقق کی خوش نصیبی کے ساتھ خود اس کے اپنے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہوتی ہے۔
دوسری طرف اس علمی ورثے کی امانت داری پر سماج کے ہر ہر طالب علم کو بھی اس کا شکر گزار ہونا واجب ہو جاتا ہے۔۔۔ گذشتہ دنوں کی ایک سہ پہر ہمیں ایک ایسی ہی وفاشعار اولاد سے شرف باریابی حاصل ہوا۔۔۔ اور ہم نے ان کے والد ڈاکٹر جمیل جالبی سے کبھی نہ مل سکنے کی خواہش کا ازالہ اسی بالمشافہ ملاقات میں کرنے کی کوشش کی۔۔۔
ڈاکٹر خاور جمیل۔۔۔، جو ان دنوں 'وفاقی محتسب انشورنس' کے عہدے پر فائز ہیں، بتاتے ہیں کہ ابّا (ڈاکٹر جمیل جالبی) کے ذاتی کتب خانے میں ایک لاکھ سے زائد کتب تھیں، ہر کمرے میں، ہر جگہ کتابیں۔۔۔ 2014ء میں جب وہ وفاقی سیکریٹری تھے، تو 'برٹش لائبریری' نے ان کتب کے عوض ایک بڑی رقم کی پیش کش کی۔ انھوں نے معذرت کی کہ میں اپنے والد کا نام نہیں بیچ سکتا۔ پھر 'جاپانی کلچرل سینٹر' والوں نے بھی اسے 'آن لائن' کرنے کے ساتھ ایک ایسی خطیر پیش کش کی، ان سے بھی معذرت چاہی۔
پھر اس وقت کے شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی ڈاکٹر محمد قیصر سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں اپنے والد کی کتب عطیہ کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے اپنی ایک ٹیم بھیجی، جس نے رپورٹ دی کہ یہ موجودہ لائبریری کی پوری ایک منزل میں بھی نہیں سما سکتیں، 2016ء میں جامعہ کراچی کے 'سینڈیکیٹ' نے ایک قرارداد منظور کی کہ 'ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری' کے لیے مرکزی کتب خانے 'ڈاکٹر محمود حسین لائبریری' کے ساتھ ایک الگ عمارت بنائی جائے، اس کے بعد ڈاکٹر قیصر سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوگئے۔
کچھ ماہ بعد ڈاکٹر قیصر کا فون آیا اور انھوں نے جامعہ کراچی کی خراب مالی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو 100 والی چیز 90 روپے میں ملے گی، ہمارے ہاں ہزار میں لے کر آئیں گے، تو جہاں آپ اتنی کتابیں دے رہے ہیں، تو اس کے لیے ایک عمارت بھی بنوا دیجیے! جس کے بعد میں نے اپنے چچا اور ماموں وغیرہ سے مشورہ کیا اور پھر یہ کام شروع کرایا۔ یہ بڑا منصوبہ اکیلے پورا نہیں کر سکے، چناں چہ گذشتہ سال 'حکومت سندھ' کے تعاون سے اِسے مکمل کیا۔
مذہب سے قریب ہونے والے خاور جمیل نے زمانۂ طالب علمی میں 'لبرل ونگ' سے جُڑنے کا ذکر کیا، تو ہم اس تبدیلی کا سوال کیے بنا نہ رہ سکے، وہ کہنے لگے کہ ''بس یہ اللہ کی طرف سے ہے۔'' ہم نے جواب میں تشنگی پا کر استفسار کیا، تو انھوں نے بتایا کہ 'ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا کہ وہ اس طرف آگئے۔۔۔ ایک وقت تھا، والدہ ڈانٹ کر جمعہ پڑھنے بھیجتی تھیں، پھر اللہ نے اتنی سعادت دی کہ دو دفعہ کعبے کے اندر جانے کا موقع ملا۔۔۔!
انھوں نے بتایا کہ وہ نوازشریف کے پہلے دور میں وزیراعظم کے 'ڈی جی پروٹوکول' تھے۔ اس زمانے میں سعودی حکومت کے تعاون سے گلبدین حکمت یار اور دیگر افغان گروہوں کا معاہدہ کرانا تھا، تاریخ یاد نہیں، یہ چیزیں 'فارن آفس' دیکھ رہا ہوتا تھا۔ انھوں نے چار وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا۔
1993ء میں نوازشریف کے بعد بلخ شیر مزاری بطور نگراں آگئے، پھر عدالتی حکم پر نوازشریف بحال ہوگئے، اور پھر ان کے مستعفی ہونے کے بعد معین قریشی کو نگراں وزیراعظم نام زَدکیا گیا اور عام انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو آگئیں، ان کے ساتھ تین ماہ کام کیا، پھر گھر والوں سے قریب ہونے کی خاطر اپنا تبادلہ کرا لیا۔ ہم نے مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ کام کے تجربات ٹٹولنا چاہے، تو وہ بڑے محتاط رہے اور کہنے لگے کہ ''سارے صحیح تھے، ہمارا تعلق وزیراعظم کے پروٹوکول کے لوازمات کو دیکھنا تھا، سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا۔''
ڈاکٹر خاور جمیل نے 'سی ایس ایس' کا مرحلہ 1977-78ء میں ماسٹرز کے ساتھ ہی طے کرلیا، ان کی پہلی تقرری کمشنر سندھ سوشل سیکیورٹی کے طور پر ہوئی، پھر ایم ڈی سائٹ، ڈائریکٹر لیبر سندھ، ڈی سی او جام شورو، کمشنر SEESI اور پورٹ قاسم میں ڈی جی فنانس وغیرہ رہے، پھر وہاں سے 22 گریڈ میں وفاقی سیکرٹری ہوگئے، والد کی علالت کے سبب شہر میں تبادلے کی سفارش کی اور چیئرمین ایکسپورٹ پروسسنگ بیورو بن گئے۔
ڈاکٹر خاور کہتے ہیں کہ انھوں نے ہر محکمے میں نت نئے تصورات دیے، تاہم 'سوشل سیکیورٹی' کا تجربہ زیادہ اچھا لگا، وہاں مزدوروں کے لیے کراچی کی پانچوں انڈسٹریل ایسوسی ایشنز یعنی سائٹ، نارتھ کراچی، لانڈھی، کورنگی اور فیڈرل بی ایریا میں مفت میڈیکل کیمپ لگوائے، جہاں بلامعاوضہ دوائوں کے ساتھ تمام ٹیسٹ مع ایکسرے، الٹرا سائونڈ وغیرہ کیے گئے، نتیجتاً وہاں رجسٹریشن میں اضافہ ہوا، اور ہمارا ریونیو بڑھا۔
ڈاکٹر خاور جمیل جنوری 2020ء میں 'وفاقی محتسب انشورنس' بنے، جس کے بعد عمرے پر چلے گئے، پھر 'کورونا' کی وبا کے سبب تعطل آگیا۔ یہاں کے تجربات کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں غلط بیانی کر کے بہت سی 'انشورنس پالیسیاں' بیچی جاتی ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ پانچ سال تک پیسے دیتے رہیں گے تو اتنے پیسے ہوجائیں گے اور موت کی صورت میں یہ سب لواحقین کو ملیں گے۔ اس میں 'بینک انشورنس' یا بینکاانشورنس (Bancassurance) کا بہت منفی اثر سامنے آیا اور بہت زیادہ جھوٹ بول کر پالیسیاں دی گئیں، ایک بار وہ خود بھی جھانسے میں آگئے کہ تین سال تک پیسے دینے کا کہہ کر بینک کے افسر تو برانچ سے چلے گئے، لیکن میں اس کا 'پریمیم' دیتا ہوں!
یہاں کے معمولات سے جُھوجھنے پر روشنی ڈالتے ہوئے خاور جمیل یوں گویا ہوئے کہ ''جب آپ کسی 'مافیا' سے لڑتے ہیں، تو یہ آسان نہیں ہوتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی منفی اثر آئے، کیوں کہ ہماری 'جی ڈی پی' میں بیمے کا حصہ صفر اعشاریہ آٹھ فی صد ہے، جو ہمارے خطے میں سب سے کم ہے۔۔۔ ہندوستان کا ایک اعشاریہ نو فی صد تک ہے۔ کوشش ہے کہ اعشاریہ آٹھ سے ایک سے اوپر لے کر جائوں۔ اس کے علاوہ یہاں 'پراسیکیوشن ' پر کافی کام کیا، ہمارے فیصلے کے خلاف کمپنی یا دوسرا فریق 'اپیل' میں چلا جاتا تھا، اس پر کام کیا۔
ایک سال کے اندر دسمبر 2020ء تک ہمارے فیصلوں پر اپیلیں صفر ہوگئیں۔۔۔ اسے یقینی بنانے کے لیے قائل کرنے کی طرف گئے کہ کسی بھی تنازع پر دونوں فریق راضی ہو جائیں، یہ مشکل کام ہوتا ہے کہ ہم دلائل کے ذریعے کوئی راستہ نکالیں۔''
وہ کہتے ہیں کہ میرے آنے سے پہلے 'وفاقی انشورنس محتسب' میں سالانہ 410 ملین کا ریلیف تھا، اب ہم نے مختلف کمپنیوں سے پیسے لے کر 2.13 بلین کا ریلیف دلایا، ہم سے وزیر نے پوچھا بھی تھا کہ کمپنیاں تو شکایت کریں گی، تو انھیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے، ان کے پاس بہت پیسہ ہے۔ میں ان کمپنیوں کے سی ای او، ایم ڈی اور چیئرمین وغیرہ سے میٹنگ کرتا ہوں، انھیں کہتا ہوں کہ تصفیے کی طرف جائیں، لڑائی جھگڑے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر سال میں ایک لاکھ کما رہے ہیں، اور وہاں ایک روپیے کے بہ جائے پانچ روپے دینے پڑیں، تو کوئی حرج نہیں۔
ہم نے خاور جمیل سے اِن مسائل میں زیادہ خرابی کا دوش پوچھنا چاہا، تو خاور جمیل کہنے لگے کہ خرابی دونوں طرف سے ہے، لوگ بھی انشورنس کراتے ہوئے بیماریاں چھپاتے ہیں، تاہم اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ دو سال تک کی پالیسی کے بعد چاہے بیماریاں چھپائی بھی گئی ہوں، تب بھی بیمہ کمپنی اسے ادائی کرے گی۔
ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے خاور جمیل نے بتایا کہ ایک دن انھوں نے اپنے کمرے سے باہر ایک خاتون کے رونے کی آواز سنی، پتا چلا کہ یہ 'بینکا انشورنس' کا معاملہ تھا، وہ کہہ رہی تھیں، میں دو سال سے آرہی ہوں، بینک 40، 45 لاکھ کے بہ جائے 30، 40 ہزار روپے دے رہا ہے۔ میں نے خاتون سے 15 دن کا وقت لیا اور اس سے پہلے ہی ان کو چیک دلوا دیا۔ ہم نے پوچھا کہ اس پر بینک نے اعتراض نہیں کیا، تو وہ بولے کہ نہیں، انھیں بھی اپنے کمزور نکات پتا ہوتے ہیں، ہم نے انھیں سمجھا دیا، دلائل سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کے پاس 'ڈنڈا' ہو، لیکن آپ اس کا استعمال نہ کریں۔
ڈاکٹر خاور جمیل نے بتایا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس، نیشنل انشورنس اور پوسٹل لائف۔۔۔ بیمے کے یہ تین سرکاری ادارے ان کے اختیار میں نہیں، ہم نے انھیں اپنے دائرہ اختیار میں لانے کے لیے لکھا ہے، اس پر کام جاری ہے۔ 'وفاقی محتسب انشورنس' میں شکایت درج کرانے کے لیے سادے کاغذ پر درخواست بھی کافی ہے۔
درخواست 'آن لائن' بھی وصول کی جاتی ہے، 24 گھنٹے کے اندر رجسٹریشن نمبر مل جاتا ہے اور 60 دن میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ فیصلے کے بعد نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے، اور اس کے بعد صدر مملکت سے اپیل کا مرحلہ ہوتا ہے اور پھر ہم سے 'کمنٹ' لیے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ سال سے اپیل صفر ہو چکی ہیں۔ 'وفاقی محتسب انشورنس' کے دیگر شہروں میں ہمارے مشیر موجود ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ہمارا دفتر بن گیا ہے۔ اِن سے بہ ذریعہ ویڈیو لنک رابطہ ہوتا ہے، سماعت یہیں سینئر ایڈوائزر کرتے ہیں، وہ ان تمام فیصلوں اور شنوائی کو دیکھتے اور پھر مہر ثبت کرتے ہیں۔
ہم نے ڈاکٹر خاور جمیل سے اہداف پوچھے، تو وہ بولے کہ 'جی ڈی پی' میں بیمے کا حصہ ایک اعشاریہ پانچ فی صد یا اس سے اوپر لے کر آنا ہے، یہ رقم اربوں روپے میں بنتی ہے، ساتھ ہی کوشش ہے کہ لوگوں کو پتا چلے کہ اس طرح کا کوئی ادارہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔
پہلے صاحب دیوان شاعر شاہ عالم ثانی آفتاب کا دیوان مرتب کیا
ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہونہار سپوت ڈاکٹر خاور جمیل، بلاشبہ برصغیر پاک وہند کے ایک نمایاں علمی خانوادے سے ہیں، اپنے ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ پیر کالونی کے گھر میں دادا، دادی اور چچا وغیرہ سمیت 18 افراد رہتے تھے، ایک ہی ہانڈی بنتی تھی، کوئی بھی بڑا ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام کی ایسی عادت پڑی کہ جب دوسرے شہر میں الگ رہنا بڑا تو یہ بہت دشوار رہا۔
1964-65ء میں ہم نارتھ ناظم آباد آگئے۔ پھر خاندان بڑھا، تو کچھ لوگ امریکا چلے گئے۔ پہلے میرے چچا 1962ء میں کیمیکل انجینئرنگ کے بعد وہاں منتقل ہوئے، بعد میں انھوں نے اپنے بھائیوں کو بھی بلا لیا، وہاں وہ اچھے عہدے پر فائز ہوئے، بہت خوش حال ہیں، ان کو ایک چھوٹا جہاز ملا ہوا ہے۔ اب ہمارے خاندان کے 75 فی صد افراد امریکا میں مقیم ہیں۔
ڈاکٹر خاور جمیل 23 ستمبر 1956ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، کہتے ہیں کہ دو ڈگریوں کے سوا ساری تعلیم جامعہ کراچی کی ہے، 'لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن' کا حصہ بھی رہا، 1978ء میں جامعہ کراچی سے معاشیات میں 'ماسٹرز' کیا۔ ساتھ 'سی ایس ایس' کے امتحانات دیے اور پھر 'ایل ایل بی، ایل ایل ایم، ایم اے سیاسیات اور پھر امریکا کی 'اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی' سے 'ایم بی اے' فائنانس کیا۔ 'لندن اسکول آف اکنامکس' سے 'پلاننگ اینڈ مینجمنٹ' کی ڈگری لی، پھر جامعہ کراچی سے 'پی ایچ ڈی' کا مرحلہ طے کیا۔
'ڈاکٹریٹ' میں شاہ عالم ثانی آفتاب کا دیوان مرتب کیا، جنھیں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام برٹش میوزیم (لندن) سے جا کر نکالا اور مرتب کیا۔ اورنگ زیب عالم گیر کے بعد شاہ عالم ثانی آفتاب مغل بادشاہوں میں ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔
خاور جمیل نے بتایا کہ وہ حیدرآباد کے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان سے بہت متاثر ہوئے، جنھیں 'حاضر ولی' کہا جاتا تھا، وہ ابا (جمیل جالبی) کے بہت قریب تھے، میں انھیں چچا کہتا تھا۔ ابّا کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے بعد ان کی کوئی اولاد ان کی چیزوں کو سنبھالے، میری اتنی بساط نہیں تھی، لیکن پھر بھی جتنا کر سکا کیا، لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، دیگر موضوعات تو پیشہ وارانہ تقاضا تھے، لیکن زمانۂ طالب علمی سے 'جنگ' اور 'ڈان' وغیرہ میں ادب کے حوالے سے لکھنا لکھانا رہا۔ ادبی تصانیف اور تالیف کی تعداد نو ہے، جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی پر لکھے گئے مختلف مضامین کا ضخیم مجموعہ نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈاکٹر نسیم فاطمہ کے ساتھ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مصاحبات و مختلف مکاتیب بھی مرتب کیے ہیں۔
جامعہ کراچی کے حوالے سے یادوں کا ذکر ہوا، تو انھوں نے بتایا کہ جب تک ہم تھے، تب حالات ایسے خراب نہیں تھے، کبھی آتشیں اسلحہ نہیں دیکھا، بس چاقو نکال آتا تھا۔۔۔ جامعہ کراچی میں نہ رینجرز تھی نہ پولیس۔۔۔ سابق وفاقی مشیر وقار مسعود، خواجہ تنویر (خواجہ نوید کے چھوٹے بھائی) اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سردار رحیم وغیرہ ان کے ہم جماعتوں میں شامل رہے۔۔۔