بارش اور ادارہ جاتی ناکامیاں

اصل مسئلہ وہی ہے کہ جب حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہوں گی تو سرکاری ملازمین میں بھی یہی رویے سراعت کر جاتے ہیں۔


Editorial September 12, 2021
اصل مسئلہ وہی ہے کہ جب حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہوں گی تو سرکاری ملازمین میں بھی یہی رویے سراعت کر جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور و کراچی سمیت ملک کے بیشتر مقامات میں چند روز میں تیز ہواؤں و گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش نے جل تھل ایک کر دیا ، جس سے موسم خوشگوار ہوگیا، لاہور شہر میں ریکارڈ بارش ہوئی جس نے شاہراہوں گلیوں کو ندی نالوں میں تبدیل کر دیا، تیز بارش سے شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہوکر رہ گئی۔

لاہور میں 50 سے170 ملی میٹر بارش ہوئی، سات گھنٹے جاری رہنے والی ہلکی اور تیز بارش سے گاڑیاں، موٹر سائیکلیں بند ہوگئیں، شہری اپنے دفاتر نہ پہنچ سکے، پانی گھروں میں گھس گیا ، واسا کو بھی انخلا میں کئی گھنٹے لگ گئے ، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایم ڈی واسا سمیت دیگر افسران فیلڈ میں موجود رہے، سب سے زیادہ لاہور کے معروف علاقے لکشمی چوک میں تقریباً170 ملی میٹر ہوئی، واسا کے مطابق زیادہ تر علاقے کلیئر کر دیے گئے، مزید بارش کا بھی امکان ہے۔

جمعہ کو جڑواں شہروں اسلام آباد و راولپنڈی سمیت پنجاب، خیبر پختو نخوا ، گلگت بلتستان ، کشمیر ، مشرقی بلوچستان اور سندھ میں بھی تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سب سے زیادہ بارش لاہور کے لکشمی چوک 167 ملی میٹر ، قصور 91، اسلام آباد، گولڑہ، سید پور 83، حافظ آباد 43، اوکاڑہ 40، نارووال 37، راولپنڈی 36، منگلا 22، اٹک 18، جہلم 14، گجرات 10، سرگودھا04، خانیوال 03، سیالکوٹ 02، مظفر آباد 77، راولاکوٹ 19، دیر 28، کاکول ، سیدوشریف 24، بالاکوٹ 12، مالم جبہ 09، پشاور 03، کالام 01، سندھ، ٹھٹھہ 19، چھور 10، بدین، کراچی 03 اور مٹھی میں 01 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

لاہور سے اسپیشل رپورٹر اور کاہنہ سے نمایندے کے مطابق کاہنہ کے علاقے سرائچ گاؤں میں بارش کے دوران گھر کی خستہ چھت گرنے سے 3 بچے 8 ماہ کا طیب، 5 سالہ ارم اور عادل جاں بحق ہوگئے، ریسکیو ٹیموں نے ملبے تلے دبی لاشوں کو نکال کر مردہ خانے منتقل کر دیا، 6 سالہ مناہل اور 14سالہ رمضان زخمی ہوئے جو اسپتال میں زیر علاج ہیں، اس کے علاوہ چمڑا منڈی کے قریب واقعہ ریلوے کالونی سنگل شاپ میں بنے بوسیدہ کوارٹر کی چھت گرنے سے دس دنوں کی بچی اور دو خواتین رحمت بی بی اور نیلم بی بی دب کر زخمی ہوگئیں جنھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا، واہگہ گارڈن میں گھر کی چھت گرنے سے 4 افراد زخمی ہو گئے۔

رائے ونڈ کے علاقے میں گھر کی چھت گرنے سے ملبے تلے دب کر 3 افراد زخمی ہو گئے۔ دوسرے الم ناک حادثہ میں کراچی میں اورنگی کے مکان کی چھت گرنے سے ماں تین بچوں کے سمیت ہلاک ہوگئی، ادھر نمایندگان ایکسپریس کے مطابق منڈی احمد آباد میں آسمانی بجلی گرنے سیایک کسان جاں بحق ہوگیا جو کھیتوں میں کام کر رہا تھا ۔ اوکاڑہ کے نواحی قصبہ میں ایک بچہ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا ۔

اسلام آباد میں موسلا دھار بارش کے بعد کئی علاقوں میں پانی جمع ہوگیا، سڑکیں تالاب اور گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ موسلادھار بارش کے باعث سیکٹر ایف ٹین اور مارگلہ ٹاؤن کی گلیوں میں کھڑی گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ علاوہ ازیں راولپنڈی میں بھی بادل کھل کر برسے، نالہ لئی میں گوال منڈی کے مقام پر پانی کی سطح پندرہ فٹ اونچی ہوگئی۔

محکمہ موسمیات نے صوبہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں شام اور رات کے اوقات میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ظاہر کر دیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق شہرِ قائد میں آیندہ 24 گھنٹوں کے دوران مطلع جزوی ابر آلود رہنے اور موسم مرطوب رہنے کا امکان ہے۔

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سردار سرفراز کا کہنا ہے کہ بارش برسانے والا ہواؤں کا کم دباؤ مشرقی سندھ اور راجستھان پر ہے، جس کی وجہ سے کراچی میں آج شام یا رات میں ہلکی بارش کا امکان ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہوا کا ایک اور کم دباؤ خلیجِ بنگال میں بھی بن چکا ہے، جس کے باعث کراچی میں 16 سے 18 ستمبر کے دوران بارش کا امکان موجود ہے۔

محکمہ موسمیات کا مزید کہنا ہے کہ کراچی میں مغرب کی سمت سے چلنے والی ہواؤں کی رفتار 9 سے 18 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ محکمہ موسمیات نے یہ بھی بتایا کہ شہر میں چلنے والی ہوا میں نمی کا تناسب 81 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی کے علاقے پاپوش نگر میں واقع قبرستان کے قریب صاف پانی کی لائن پھٹ گئی جس سے قبرستان کی سڑک اور گلیاں زیرِ آب آگئیں۔ واٹر بورڈ حکام کا کہنا ہے کہ پاپوش نگر قبرستان کے قریب صاف پانی کی لائن پھٹنے کے واقعے کے بعد پائپ لائن کو بند کر کے پانی کا بہاؤ روک دیا گیا ہے۔

واٹر بورڈ حکام کے مطابق متاثرہ 15 انچ کی لائن کو مین وال سے پانی کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ پاپوش نگر میں پائپ لائن پھٹنے سے نا صرف سڑکیں اور گلیاں زیرِ آب آگئیں بلکہ اب تک ہزاروں گیلن پانی بھی ضایع ہو چکا ہے۔ پانی لائن سے نکل کر علاقے کی گلیوں میں پھیلنے سے علاقہ مکینوں کو مشکلات ہو رہی ہیں جب کہ پانی کی بندش سے شہریوں کے پانی کی قلت کا شکار ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

ایک طرف تو موسلا دھار بارشوں کا یومیہ ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے مگر عالمی سطح پر بارشوں کا ڈیٹا مختلف اسباب، امکانات اور تباہ کاریوں سے قطع نظر ارضیاتی دباؤ اور زمینی اثرات کے پیش نظر ریکارڈ ہوتا ہے، مغرب میں بارشوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے اور استوائی خطوں کے حالات بھی در ج ہوتے ہیں ریکارڈ کے مطابق استوائی علاقوں میں زبردست بارشیں ریکارڈ کی گئیں، ادھر بھارت میں سب سے زیاہ بارشیں ہوئیں، بیشتر چھوٹے بڑے علاقوں میں مسلسل بارشوں کا سلسلہ جاری رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرائی علاقے گھنے جنگلات کے برعکس خشک رہے، ماہرین واٹر سائیکل ، برساتی موسم کے اثرات اور ان کی تبدیلی کا جائزہ لے رہے ہیں، ان کی رپورٹوں میں برساتی پانی کے سمندری اور زمینی صورتحال پر اثرات و نتائج کا جائزہ لیا جا رہا ہے، برسات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی سطح ہموار ہے تو ایک ہموار زمین پر ہونے والی برسات کے اثرات و نتائج مختلف ہوتے ہیں بہ نسبت گلوبل بارشوں کے جو دنیا کے ناہموار اور گنجان آباد خطوں میں ہوتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افریقہ کے غریب اور نشیبی علاقوں میں بارشیں وبال جان بن جاتی ہیں، وہاں بھی جگہ جگہ کراچی کے علاقوں جیسی تصویر نظر آتی ہے، بارشوں کے بعد بے پناہ مسائل پیش آتے ہیں، تاہم ترقی یافتہ ممالک خاموش نہیں رہتے ، مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں ان کے ماہرین اپنے چارٹوں ، رنگین گرافکس اور نقشوں کے ذریعے برساتی، سمندری اور دریائی مناظر کے بارے میں ہونے والی تباہکاریوں کے سدباب اور موثر تدابیر میں مگن رہتے ہیں مگر دوسری جانب ہما رے صوبائی ادارے منتظر ہیں کہ کوئی مدد کو پہنچے، یہ انداز نظر کا فرق اندوہ ناک ہے۔

واٹر و سیوریج بورڈ بارش، سیلابوں اور دیگر احتیاطی انتظامات پر مامور ہیں عام طور پر ان کی بے توجہی، بے حسی بارش کے زمانے میں صاف نظر آتی ہے، ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کی حالت زار ناقابل بیان ہے، شہر قائد آج بھی ایک مستحکم، پائیدار اور قابل عمل نکاسی آب کے نظام سے محروم ہے، ڈرینج سسٹم کے معمولی کام تکمیل پذیر نہیں ہوتے، کیونکہ بلدیاتی نظام کی کمزوری یا سرے سے فقدان نے صوبائی حکومتوں کو زیر بار کر دیا ہے، ایک وقت تھا کہ لاہور اور کراچی میں ترقیاتی، خوبصورتی اور وسائل و مسائل میں فرق پر عوامی بحثیں ہوتی تھیں کہ لاہور بازی لے گیا کبھی کراچی کی رونقیں اپنے جلوے دکھاتیں مگر آج ادارہ جاتی مشترکہ زوال ہم سب کا مقدر بن چکا ہے۔

بارشیں کیا آتی ہیں سارے ادارے بے دست وپا بن جاتے ہیں، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، لوگ بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں، مواصلاتی نظام درہم برہم ہو جا تا ہے اور صوبائی حکومتیں ہنگامی طور پر سڑکوں پر پانی کی نکاسی کے لیے ہدایات دیتی نظر آتی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ایٹمی ملک میں شہری انتظامات کی یہ صورتحال ہونی چاہیے؟

آج بھی بارشیں ہوںگی مگر مون سون کی بارشوں کو زحمت سے رحمت بنانے کا کام نا معلوم کون سی حکومتیں کریں گی؟ کراچی وسائل سے مالا مال ہے ادھر لاہور کو بھی خوبصورت بنانے کے دعویدار بہت سارے ہیں مگر اداروں سے عوام کو جو توقعات ہیں ان کی تکمیل کے لیے شاید عمر خضر درکار ہے۔ بارشیں اور سیلاب ایسی آفات نہیں ہیں کہ جن سے محفوظ رہنے کے لیے اقدامات کرنا مشکل کام ہے۔

بارشیں اور سیلاب صدیوں سے قدرت کے تہہ شدہ شیڈول کے مطابق ہوتی چلی آ رہی ہیں اور آیندہ بھی ہوتی رہیں گی۔ پاکستان کے پاس ادارے بھی موجود ہیں اور ملازمین بھی موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ وہی ہے کہ جب حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہوں گی تو سرکاری ملازمین میں بھی یہی رویے سراعت کر جاتے ہیں۔

کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں

تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں