قائداعظم اور اسلامی فلاحی ریاست…
درحقیقت قائداعظم ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، جہاں کسی فرد کا استحصال نہ ہو۔
قائداعظم محمد علی جناح دورِ حاضر کے ان عظیم رہنمائوں میں سے تھے ، جنھوں نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی دلائی بلکہ ان کے لیے ایک علیحدہ ریاست بھی قائم کی ، جہاں وہ اپنی زندگی ، اپنے تہذیب و تمدن کو قرآن مقدس کی تعلیمات اور اسلامی روایات کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ قائداعظم کا یہ کارنامہ قومی آزادی کے دیگر رہنمائوں کی بہ نسبت بہت عظیم ہے۔
اپنی سیاسی زندگی کے آغاز میں قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے پوری توجہ سے کام کیا اور اپنی بیشتر توانائی اور تگ و دو اس مقصد کے حصول کے لیے وقف کر دی۔ ان کوششوں کی تعریف کی گئی اور خود ہندوئوں نے جناح کو ''ہندو مسلم اتحاد کا سفیر'' کے خطاب سے سرفراز کیا ، تاہم تنگ نظر ہندوئوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ قائد اعظم کو بہت جلد اپنا نقطہ نظر تبدیل کرتے ہوئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا۔علامہ اقبال نے ہندو بالادستی کے خطرے کے پیش نظر اور اسلامی طرزِ حیات کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے مطالبہ کو نظریاتی شکل میں پیش کیا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد کے متعلق ہندوئوں کا رویہ انتہائی مخالفانہ اور مخاصمت پر مبنی رہا۔ درحقیقت وہ مسلمانانِ ہند کے علیحدہ ریاست کے مطالبے کے تصور سے جو قرارداد لاہور میں پیش کیا گیا تھا ، کسی طرح بھی ہندو انتہا پسند مطابقت پیدا نہ کرسکے۔ گاندھی جی نے اسے خودکشی ، ایک گناہ اور مادر ہند کی تقسیم قرار دیا اور کہا کہ اس کی تکمیل ان کی لاش پر ہی ہوسکتی ہے۔
دو سال کے بعد گاندھی جی نے قائداعظم کو ایک مکتوب لکھا کہ '' ہندو اور مسلمان دو قومیں نہیں بلکہ ایک ہی قوم ہیں۔'' انھوں نے مزید تحریر کیا کہ ''جناح صاحب کے مطالبات تمام تر غیر حقیقی ہیں۔ میں نے تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں دیکھی کہ کسی نو مسلم جماعت اور اس کے ورثاء نے اپنی نسل کے علاوہ قوم ہونے کا مطالبہ کیا ہو۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ '' ہندو اور مسلمان ہر عنوان اور اصول معیار سے دو بڑی قومیں ہیں۔ مسلمان بین الاقوامی قانون کے تمام ضابطوں کے مطابق ایک قوم ہیں۔''
قائداعظم نے محسوس کیا کہ مسلمان اِس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان اپنی قوم کے شایان شان فیصلہ کرنا چاہیے۔ مسلمانان برصغیر کے لیے مطالبہ پاکستان ان سیاسی اور تہذیبی تشخص کے جذبات کا شدید ترین اظہار تھا، جس کی جڑیں ریاست مدینہ تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ اس اعتبار سے تحریک پاکستان ، اسلامی ریاست پر مبنی تھی، جس کا قیام 22 عیسوی / پہلی ہجری میں مدینہ منورہ میں عمل میں آیا۔ قائداعظم کے ذہن میں اسلامی دستور حیات کا تصور واضح اور غیر مہم تھا۔
قائداعظم نے 18 دسمبر 1943 کو بیورلینکلس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ '' اسلام صرف ایک مذہبی عقیدے کا تصور نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی اور عملی ضابطہ عمل ہے۔ زندگی کے تمام اہم امور یعنی ہماری تاریخ ، ہماری موسیقی ، ہمارے قوانین ، ہمارے ضوابط کے متعلق تصورات و نظریات نہ صرف بنیادی طور پر مختلف ہیں بلکہ بیشتر بنیادی طور پر ہندوئوں کے برعکس ہیں۔ کوئی رشتہ حیات ایسا نہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے منسلک رکھ سکے۔
ہمارے نام ، ہمارے ملبوسات ، ہماری معاشی زندگی ، ہمارے تعلیمی تصورات ، ہمارا خواتین سے طرز عمل، ہمارا جانوروں سے برتائو، الغرض ہر ایک معیار پر ہم ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ صرف گائوکشی کی مثال لے لیجیے جو ایک دائمی مسئلہ ہے ، ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں جب کہ ہندو اس کی پرستش کرتے ہیں۔''
مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کی ابتدا کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا '' تحریک پاکستان کا آغاز مسلمانوں کی حکومت کے قائم ہونے سے قبل اسی روز ہو گیا تھا جس روز پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا جیسے ہی ایک ہندو مسلمان ہوتا ہے اسے نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی ، معاشرتی اور معاشی طور پر اپنی برادری سے نکال دیا جاتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے۔
اسلام مسلمان کو پابند کردیتا ہے کہ وہ کسی غیر معاشرے میں شامل ہوکر اپنی حیثیت اور انفرادیت کو ضم نہ ہونے دے۔ سالہا سال سے ہندو اور مسلمان بحیثیت ہندو اور مسلمان کے موجود ہیں انھوں نے اپنے تشخص کو مدغم نہیں ہونے دیا۔
ایک اور موقع پر قائداعظم نے فرمایا '' مطالبہ پاکستان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہم ایک ایسی سرزمین حاصل کریں، جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی تقاضوں کے مطابق ترقی کرسکیں اور جہاں مساوات اور انصاف کے اسلامی اصولوں پر آزادی اور خود مختاری کے ساتھ عمل کیا جاسکے۔''
یکم مارچ 1946 کو کلکتہ میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی مزید تشریح کی۔ انھوں نے فرمایا '' میں ایک سن رسیدہ شخص ہوں، اس عمر میں خدا نے مجھے اتنا دیا ہے کہ میں آرام سے اپنی زندگی بسر کر سکوں، مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اپنا خون پسینہ ایک کروں اور اس جدوجہد میں اتنی تکالیف برداشت کروں۔ یقیناً میں یہ سب کچھ سرمایہ داروں کے لیے نہیں بلکہ آپ کے لیے کررہا ہوں۔ آپ جو کہ غریب عوام ہیں۔
1936میں ، میں نے تحقیر آمیز غریبی کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان میں بعض لوگوں کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔ گو ان لوگوں کو میں نے کچھ عرصے سے نہیں دیکھا، البتہ یہ میرے دل میں جاگزیں ہیں اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہم پاکستان میں حتی المقدور کوشش کریں گے کہ ہر شخص کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے۔''اسی طرح قائد اعظم اشتراکی نظریات کے بھی مخالف تھے اور نہ وہ اشتراکی معاشی نظریہ کے قائل تھے۔ 19 مارچ1944کو پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں لاہور میں قائداعظم نے اعلان کیا کہ
'' میں کمیونسٹوں کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں سے دور رہیں۔ اسلام مسلمانوں کا رہنما ہے اور ان کی زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کا مقصد ایک متوازن سیاسی نظام قائم کرنا ہے جو کہ بنیادی انسانی حقوق پر مبنی ہو اور جس میں کوئی فرد کسی دوسرے فرد کا استحصال نہ کرسکے۔'' مطالبہ پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ غریب اور ضرورت مند لوگ ایک با عزت زندگی بسر کرسکیں اور معاشی طور پر ان کا استحصال نہ ہو۔
24 اپریل1943 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے اعلان کیا کہ '' میں یہاں زمینداروں اور سرمایہ داروں کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں جو ہماری محنت پر فروغ پا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے نظام کی پیداوار ہیں جو قابل ملامت، فاسد اور خود غرضی پر مبنی ہے اور جس کا جواز بمشکل پیدا ہوتا ہے۔ اس نظام کی خامیوں کا احساس کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہے۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں شامل ہوچکا ہے۔ یہ اسلام کا درس بھول چکے ہیں۔ لالچ اور خود غرضی نے ان لوگوں کو دوسروں کے مقاصد کا مطیع بنادیا ہے۔
اپنے آپ کو متمول بنانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے تابع ہوگئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج اقتدار حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں، آپ کہیں بھی مضافات میں چلے جائیں ، میں نے چند دیہات کا دورہ کیا ہے وہاں ہمارے لاکھوں عوام ایسے ہیں جنھیں ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل ملتا ہے، کیا یہی تمدن ہے؟ کیا پاکستان کا مقصد یہی ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں افراد کا استحصال ہو رہا ہے؟ جنھیں ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔ اگر پاکستان کا تصور یہی ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں چاہتا۔ اگر یہ سرمایہ دار عقلمند ہیں تو انھیں اپنے آپ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال لینا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا ہی ان کی مدد کرے گا ، ہم ان کی مدد نہیں کریں گے۔''
درحقیقت قائداعظم ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، جہاں کسی فرد کا استحصال نہ ہو۔ جہاں ریاست کا یہ فرض ہوکہ کوئی شخص روٹی اور کپڑے کا محتاج نہ رہے اور ہر فرد کو زندگی کی تمام بنیادی ضروریات میسر ہوں۔