افغانستان عبوری حکومت کا قیام

امریکا کی جانب سے تمام تر وسائل خرچ کیے جانے کے باوجود اسے ایسے حریف سے شکست کھانی پڑی جس کے وسائل انتہائی محدود تھے۔

shabbirarman@yahoo.com

گزشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے 11ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں سے متعلق خفیہ دستاویزات جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2977 بے گناہ لوگوں کے خاندانوں کے درد کو نہیں بھولنا چاہیے ، یہ لوگ امریکا کی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملوں میں مارے گئے ہیں۔

7ستمبر 2021کو طالبان نے افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کردی گئی ہے ، جس کے لیے کابینہ بنائی جارہی ہے ، نئی حکومت میں وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب ، وزیر اطلاعات و ثقافت ملا خیر اللہ خیر خواہ، نائب وزیر اطلاعات و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد ، وزیر خزانہ ملا ہدایت اللہ بدری ، وزیر تعلیم شیخ اللہ منیر کو مقرر کیا جارہا ہے اور عدالتی امور مولوی عبدالحکیم دیکھیں گے ، ملا عبدالحق افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سربراہ ہوں گے ، عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی ہے تاہم ان میں موجود متعدد عہدوں کے لیے کئی ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

طالبان ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں کسی کی مداخلت قبول نہیں ، ہم نے افغانستان میں مداخلت کرنے والے امریکا کے خلاف بیس سال تک جدوجہد کی اور بالآخر فتح حاصل کی ، ہمارے معاملات میں پاکستان کوئی مداخلت نہیں کررہا۔ یہ محض 20سال سے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اس اعلان سے ایک دن قبل طالبان نے آخری مزاحمتی گڑھ پنج شیر کو بھی فتح کرلیا تھا اور عام معافی کا اعلان کیا تھا ، نیشنل مزاحمت فورس کو شکست ہوگئی اور مزاحمتی لیڈر شپ بھاگ گئی ، اس طرح اب افغانستان میں جنگ کا دور مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔

افغانستان میں سپر طاقتوں کی بنائی ہوئی ریت کی دیوار گرگئی ، بیس سال بعد 46 ممالک پر مشتمل اتحاد افغانستان سے نکل چکا ہے ، طالبان کے اقتدار کا سورج ایک مرتبہ پھر افغان سرزمین پر طلوع ہوگیا ہے۔ امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام سے افغان عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ اب آئیے! اس امر کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں کہ افغانستان میں بیس سالہ امریکی جنگ میں کیا کیا نقصانات ہوئے ہیں؟

امریکی بیساکھیوں پر کھڑی اشرف غنی حکومت چند لمحوں میں زمین بوس ہوگئی اور تین ٹریلین ڈالر سے تیار کردہ تین لاکھ فوج عوام میں ضم ہوگئی ، کوئی نشان بھی نہ چھوڑا ، بیس سال میں دس لاکھ افغان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ، اس کی سزا پاکستان کو 86 ہزار افراد کی قربانیوں کی شکل میں بھگتنا پڑی۔ کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد غیرملکی افواج اور شہریوں کا انخلا مسئلہ بن گیا ، اس انخلا کو بھی پاکستان نے سہارا دیا، پانچ دن میں 430 فلائٹس غیر ملکیوں کو لے کر اسلام آباد پہنچیں ،50ہزار افراد اسلام آباد کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔


امریکی صدر جوبائیڈن کی زبانی ہے کہ بیس برس تک افغانستان میں روزانہ 30کروڑ ڈالر خرچ ہوتے رہے ہیں۔ افغانستان چھوڑ جانے سے قبل امریکی فوج نے اپنے زیر استعمال رہنے والے فوجی طیاروں ، گاڑیوں اور دیگر فوجی سازوسامان کو مکمل ناکارہ بنا دیا ، امریکی افواج نے تقریبا 73کے قریب طیارے اور 70مسلح گاڑیوں کو ناکارہ بنایا۔ کابل ایئر پورٹ پر موجود راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے موجود دفاعی نظام کو بھی ناکارہ کردیا گیا ہے۔

افغانستان میں امریکا کی بیس سالہ جنگ میں8 لاکھ امریکی فوجیوں نے حصہ لیا ۔ 2 ہزار سے زیادہ امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گئے اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ امریکا نے افغانستان میں جنگ لڑنے اور افغانستان کی فوج کو تیار کرنے پر 822 ارب ڈالر خرچ کیے۔ طالبان کے ہاتھ 85 ارب ڈالر کا امریکی جنگی سازوسامان لگ گیا، جن میں 75ہزار گاڑیاں ، 200ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹرز جب کہ 6 لاکھ چھوٹے ہتھیار شامل ہیں۔

علاوہ ازیں طالبان حکومت کے پاس اب دنیا کے 85فیصد ممالک سے زیادہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز ہیں جب کہ طالبان کے پاس بائیو میٹرک ڈیوائسز بھی ہیں جن میں انگلیوں کے نشانات ، آنکھوں کے اسکن اور امریکا کی مدد کرنیوالے افغان شہریوں کی نجی معلومات رکھی گئی تھیں۔ ایک رپورٹ کیمطابق ان بیس سالوں میں افغانستان میں4 2ہزار 448امریکی فوجی جب کہ تین ہزار 846امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوئے جب کہ دیگر نیٹو ممالک کے ایک ہزار 144اہلکار ہلاک ہوئے علاوہ ازیں 66ہزار افغان فوج اور پولیس کے اہلکار ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونیوالے افغان شہریوں کی تعداد 42ہزار 245ہے۔ 51ہزار 191طالبان اور دیگر حکومت مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔

انھی بیس برسوں میں 444امدادی کارکن اور 72صحافی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکا نے جنگ کے اخراجات قرض کی رقم سے پورے کیے جو تقریبا دو کھرب ڈالر بنتے ہیں ایک اندازے کیمطابق سن 2050تک اس قرض کی رقم پر سود کی مد میں امریکی حکومت 6کھرب ڈالر سے زائد ادا کرے گی ۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے تمام تر وسائل خرچ کیے جانے کے باوجود اسے ایسے حریف سے شکست کھانی پڑی جس کے وسائل انتہائی محدود تھے۔ اس حوالے سے امریکا کو بین الاقوامی سطح پر ہزیمت کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بیشک قدرت ہر شے پر قادر ہے۔
Load Next Story