گزرا ہوا زمانہ

وہ زمانہ ایسا تھا کہ کوئی مسلم خاتون فلمیں لکھیں ان کے مکالمے اور نغمے ان پر فتوے عائد کردیے جاتے تھے۔


ایم قادر خان September 12, 2021

میرے ایک استاد بڑے فخریہ انداز میں کہتے اس وقت میری عمر 55 برس ہے۔ تم لوگوں کی اس عمر میں جو میں نے کھایا وہ اب کہاں، ہر شے اس قدر گراں ہے خریدنا مشکل، اکثر لوگ مجھے چالیس سال سے زیادہ نہیں کہتے، ان کو اپنی عمر بتاتا ہوں تو وہ حیرت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں بچپن کھایا ہوا جوانی میں اور جوانی کا کھایا پیا بڑھاپے میں کام آتا ہے۔

بہت سی باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں، چھٹی جماعت کے بچے جتنا سمجھ سکتے ہیں ہم لوگ اتنا ہی سمجھتے۔ اس وقت کی باتیں اب زیادہ اہم ہیں جیسے وہ کہتے تھے ایک روپے کا چار سیر اصلی گھی کھایا، دو آنے سیر خالص سرسوں کا تیل، ایک روپے کا دس سیر آٹا، دو آنے دالیں، ایک آنے سے ڈیڑھ آنے سیر سبزیاں، چار آنے کی گائے کا گوشت، چھ آنے سیر بکرے کا گوشت۔ ہم آپس میں باتیں کرتے اپنے والدین سے ذکر کرتے وہ تائید کرتے۔

استاد فرماتے جب پاکستان بنا ہے میری عمر 35برس تھی تمہاری جیسی عمر کے میرے بچے، والد والدہ، بہن بھائی، ماموں ممانی، چچا چچی ان سب کی اولادوں کے ساتھ 1947 کو پاکستان آئے۔ ہم سب لوگ رتن تالاب کے پاس رہے۔ 10 جنوری 1953 کو ناظم آباد آگئے۔ یہاں سندھی اور بلوچوں کے گوٹھ ہوا کرتے تھے۔ 26 اپریل 1980 کو سرکار نے یہاں کے مالک متی بروہی سے پورا علاقہ خرید لیا۔ بعدازاں لوگ ناظم آباد میں 1952 میں آباد ہونے لگے۔ ناظم آباد نمبر 1،2،3،4،5 پاپوش نگر، علامہ اقبال ٹاؤن، بڑا میدان، چھوٹا میدان، سو کوارٹر، گولیمار، عثمانیہ کالونی، رضویہ کالونی، فردوس کالونی، خاموش کالونی وغیرہ شامل ہیں۔

کہنے لگے کوڑی، پائی، پیسہ، ادھنا، اکنی، دونی، چونی، اٹھنی، روپیہ ہوتا تھا۔ ایک پائی میں چار کوڑیاں، ایک پیسے میں چار پائی، دو پیسے کا ایک ادھنا، دو ادھنوں کی ایک اکنی، دو اکنیوں کی ایک دونی، دو دونیوں کی ایک چونی، دو چونی کی ایک اٹھنی اور دو اٹھنی کا ایک روپیہ۔ اور سنیں ایک روپے میں 64پیسے ہوتے تھے، سونا تولہ، ماشہ، رتی میں وزن کیا جاتا تھا۔

ایک سیر میں سولہ چھٹانکیں ہوتی تھیں، ایک چھٹانک چار تولے کے برابر، چار چھٹانک کا ایک پاؤ، دو چھٹانک کا آدھا پاؤ، دو پاؤ کا آدھا سیر، چار پاؤ کا سیر، چالیس سیر کا ایک من۔ 12 انچ کا ایک فٹ، تین فٹ کا ایک گز، کپڑے کی پیمائش کی جاتی۔ سفر کرنے میں فرلانگ اور میل شمار کیے جاتے۔ ایک فرلانگ میں 220 فٹ ہوتے، یعنی دو سو بیس فٹ کا ایک فرلانگ کہلاتا تھا۔ یہ سب اشاری نظام آنے سے پہلے شمار کیے جاتے تھے۔

1960 میں میرے فاضل استاد میرے مضامین کی اصلاح کرتے اور وہ اسکول کے شمارے میں شایع ہوجاتے، ہمت افزائی ملتی رہی۔ آگے بڑھتا رہا لکھتا رہا، لکھتا چلا گیا۔ 1963 میں اساتذہ کی ہمت افزائی اپنی کاوشوں سے مضامین میں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اساتذہ نے مجھے آگے بڑھایا، مقامی جریدوں کے علاوہ پڑوسی ملک ادب پاروں میں شایع ہونے لگا۔

مختلف جرائد میں طبع آزمائی کی۔ 1976 میں جونیئر رپورٹر، رپورٹر، سینئر رپورٹر، اسسٹنٹ ایڈیٹر اور ایڈیٹر تک پہنچا۔ کئی مقامی اخبارات میں مضامین چھپتے رہے، ہفت روزہ مزدور پر لکھنے کا موقع ملا۔ مقامی اخبارات میں ''بات سے بات'' اور ''تیر و نشتر'' کالمز زیادہ پسند کیے جانے لگے۔ ماضی کے دریچوں سے گزرے ہوئے دن تیزی سے آتے رہے۔ پہلا اداریہ لکھا وہ یاد ہے 60 برس قبل جو لکھنا شروع کیا۔ موجودہ دور میں مختلف ضرور ہے لیکن ہر موضوع اپنی جگہ اہم۔

گرمیوں کی تعطیلات میں کراچی سے باہر دیگر علاقوں میں جاتے 1961 میں پشاور کاٹکٹ 28روپے، خیبر میل تیسرے درجے کا بکنگ کے ساتھ تھا۔ 1963 میں ریل کا ٹکٹ انیس روپے ہو گیا جو کئی سال تھا۔ خیبر میل کراچی سے رات کو ساڑھے دس بجے روانہ ہوتی ساری رات چلتی، سارا دن چلتی، دوسری رات چلتی، تیسرے دن صبح سات بجے پشاور پہنچا دیتی۔ ایک دفعہ راولپنڈی سے پشاور کے لیے سوار ہوئے، راولپنڈی سے پشاور تک کا ٹکٹ 9 روپے تھا۔ ٹانگے کی دو آنے فی سواری اگر پورا ٹانگہ کریں تو 12 آنے میں چھ افراد کو بٹھا کر لے جاتا۔ کوچوان سیدھے ہاتھ کی طرف پائیدان کے اوپر بیٹھ کر پیر پائیدان کے اوپر رکھتا۔ گھوڑے کی رکابیں تھامے دوڑتا چلا جاتا۔

قبلہ بزرگوار والد صاحب الیکٹریکل انجینئر اور والدہ صاحبہ کامیاب ادیبہ تھیں، میں الیکٹریکل انجینئر میرا ذریعہ معاش تھا اور قلم کاری تسکین ذہن و قلب کا ذریعہ۔

گزرے ہوئے دن، یار دوست، عزیز و اقربا، ساتھ دینے والے ساتھی اکثر شدت سے یاد آنے لگتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں ''جو بیت گئے وہ ماضی اور جو بیت رہے ہیں وہ حال اور جو دن آئیں گے وہ مستقبل ہوگا۔'' پڑوسی ملک میں والدہ کے افسانے، مضامین، کالم، داستانیں، خاکے، اشعار طبع ہوتے رہے مختلف جرائد و رسالوں میں اس قدر چھپتے رہے تھے مجھے بڑا فخر محسوس ہوتا تھا۔ کیا خوب کہا کرتی تھیں ''جس قدر زیادہ پڑھو گے اسی قدر لکھو گے، جب لکھو گے تو لکھتے چلے جاؤ گے۔''

ہر قلم کار اس بات کی تائید کرتا ہے اداریہ ہو یا کالم، افسانہ ہو یا داستان، تنقیدی مضامین ہوں یا سیاسی وہ اپنا رنگ روپ اثر و دلیل رکھتے ہیں۔ ان کی ماضی بعید کی تحریر کردہ دو فلمیں مکالمے اور نغمے زیادہ پسند کیے گئے اور مشہور ہوئے۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ کوئی مسلم خاتون فلمیں لکھیں ان کے مکالمے اور نغمے ان پر فتوے عائد کردیے جاتے تھے۔ چونکہ نانا مولوی تھے ان کے والد نے مولوی گنج آباد کیا تھا۔ لہٰذا اس قسم کی مسلسل کارروائی مناسب نہ تھی، دو کے بعد تیسری کا سوچا بھی نہیں جو دو میں باتیں ہیں وہی بہت سمجھ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں