بات ہے سمجھ کی

سہولتوں کا فقدان اپنے عروج پر ہے اقتدار سے محروم لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہوئے برسر اقتدار سے دست وگریباں ہیں۔


م ش خ September 12, 2021
[email protected]

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ گراں قدر خدمات دینے والوں کو یہ عوام کہاں تلاش کرے۔

تیکھے موضوعات پر دن رات چینلز اور میڈیا پر سیاسی جھگڑے ہوتے ہیں اور قوم غمزدہ آنکھوں اور ناکامی پردل گرفتہ ہوکر ان بے فضول ڈفلی بجانے والوں کی باتیں سنتی رہتی ہیں اور قوم یہ سب کچھ بے یارومددگار جمہوریت کے ناتے انجوائے کررہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلاسوں کے ساتھ یہ خوش گفتاری کا سیاسی طبلہ بجتا رہے گا اور اس ماہرانہ انداز سے پچھلی حکومتوں نے وضع داری سے اپنا وقت پورا کیا اور یہ لائحہ عمل سیاسی کتابوں میں لکھ دیاگیا اور گزشتہ 25 سال سے سیاسی طالب علم ان کتابوں سے مستفید ہورہے ہیں اور لکھنے والے سیاسی مصنف نے اسے قدر و منزلت سے لکھ کر نئے اور پرانے سیاسی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا اور اس پلیٹ فارم پر مسائل سے بھری ہوئی ٹرینیں آتی ہیں سواریاں اتارتی ہیں اور پھر بے کس اور مجبور لوگوں کو لے کر نامعلوم منزلوں کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں۔

قوم کے مسائل سست روی کا شکار ہیں۔ کیوں کہ گزشتہ جمہوریتیں اپنا وقت پورا کرنے کے بعد پھر ایک نئی امید سے ڈفلی بجاتے ہیں۔ قوم مسائل کے دروازے کو کھٹکھٹاتی رہتی ہے مگر اسے مثبت رویے کے تحت کوئی کھولنے کو تیار نہیں جس مصنف نے بھی اسی سیاسی کتاب ''اہل سیاست'' کو لکھا ہے میں انھیں اور قوم کی طرف سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس کے مرکزی کردار سب سیاسی ہیں قوم تو بے چاری اس کتاب میں مہمان اداکار ہے۔

مینار پاکستان پر ایک خاتون کے ساتھ شرمناک واقعہ ہوا فوری طور پر کتاب کو کھولا گیا اس سے سیاسی حضرات نے مستفید ہوکر ایک بیان داغ دیا کہ اس واقعے نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ بتائیے کروڑوں عوام اس بھونڈے دلائل کے تلے دب گئے۔ معاف کیجیے گا قوم شرمندہ کیوں ہوگئی بلکہ اس شرمناک واقعے نے قانون کا سر شرم سے جھکادیا، وہاں پاکستان کی بائیس کروڑ عوام تو موجود نہیں تھی آپ حضرات قانون کو قواعد و ضوابط کے دائرے میں مقید کیجیے۔

بے شمار وزیراعظم آئے بلند و بانگ دعوئوں کی چھائوں میں نہاکر قوم کو تہی دامن کرکے سیاسی بیانات کی سرگرمیوں کو فروغ دے کر اب مراعات لے رہے ہیں اور اس امید پر سیاسی بیان دیتے ہیں کہ کبھی تو یہ عہد ساز دور دوبارہ آئے گا۔ پچھلے دنوں ٹی وی پر بیٹھ کر سلگتے عوام کو سیاسی ٹھنڈک دیتے ہوئے فرما رہے تھے آج ایسی کوئی وزارت نہیں جہاں اربوں کا اسکینڈل نہ ہوا ہو اگر آپ کی بات میں صداقت ہے تو ان وزیروں کا کچھ بھی نہیں ہوگا کہ اگلے الیکشن میں ادھر والے آپ کی طرف آجائیں گے اور پھر یہ سب اتحاد و یگانگت کے ساتھ آپ کے پرچم تلے ہوں گے '' کہ دیا جلائے رکھنا ہے کہ آپ تو آخر اپنے ہیں'' ہماری ایک بہت ہی اہم وزارت کے وزیر کہہ رہے تھے کہ کوئی ملک فوج اور اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا۔

قوم کو معلوم ہے کہ پورے ملک اور اس کے چاروں صوبوں کے عوام فوج اور عدالتوں کو قابل احترام سمجھتے ہیں ان دو معزز اداروں کے علاوہ کون سا ایسا ادارہ ہے جو دودھ کا دھلا ہے ہر جگہ کرپشن، تہذیب اور شائستگی کے ساتھ موجود ہے اخبارات کے مطابق ویکسین تک کے جعلی کارڈ تشکیل پائے جارہے ہیں۔

ملک دو سال سے معاشی دلدل میں پھنس گیا ہے اور ملک ہر طرف سے جمود کا شکار ہوگیا۔ قوم پروردگار عالم سے دعا کررہی ہے کہ کورونا سے جان چھوٹ جائے مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہاں ماہر کرپشن ایک ماہر پروفیشنل کی طرح اس بیماری میں بھی بحیثیت اسپلیٹ کے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ سیاسی حضرات ایک دوسرے کی انکوائری میں مصروف ہیں ایک اپوزیشن سیاسی شخصیت فرما رہی تھیں کہ جنھوں نے میٹرک آرٹس میں کیا ہے وہ بھی وفاقی وزیر ہیں۔

وزیروں کی تعلیمی قابلیت بھی بتائی جارہی ہے اگر وہ کتاب ''اہل سیاست'' پڑھ لیں تو یہ بیان کبھی نہ دیں۔ قوم غربت رقصاں میں ناچ رہی ہے، آہ و بکا کا عالم ہے ،مصنوعیت کا راج ہے، بقائے انسانی کی رحلت قریب ہے۔ اب سیاسی پرورشجر پر نسل در نسل کا سلسلہ گزشتہ 5 سال سے شروع ہوچکا ہے۔ یہ نقطۂ آغاز ہے ہر بات کو سوچے سمجھے بغیر رائی کا پہاڑ بنایا جاتا ہے اب اگر کوئی وزیر میٹرک کیا ہوا ہے اور وفاقی وزارت اس کو سونپ دی گئی ہے تو وہ خوش نصیب ہے کہ وہ میٹرک ہے۔ ماضی کی ایک حکومت ایسی بھی تھی جس کے وزیر آٹھویں پاس تھے مگر وہ وزیر تعلیم تھے۔ یہ بات دوسری ہے کہ وہ خود زیر تعلیم تھے۔

اس ملک میں سیاست کو گھر کی لونڈی سمجھ لیاگیا ہے۔ غلیظ سیاسی کلچر کے پہاڑوں کے نیچے سب کھڑے ہیں اور معصوم بچوں کو سبق دیا جا رہا ہے کہ جو بچہ اس پہاڑ پر کامیابی سے چڑھ جائے گا وہی اب ملک کا وزیر اعظم ہوگا، یا ہوگی۔ کیونکہ اب ان کی عمریں ان کا ساتھ چھوڑ رہی ہیں اور گھونسلے خالی ہونے والے ہیں سیاست میں محاذ آرائی، بہتان تراشی، رعایتی پیکیج کے تحت حتمی مراحل طے کر رہی ہے ویسے اپنے مفادات کے تحت یہ ایک جان دو قالب میں قوم کے وارے نیارے کب ہوں گے یہ تو میرے رب کو معلوم ہے اب تو معصوم، مفلس اور غریب کی ہر آنکھ اشکبار ہے۔

سہولتوں کا فقدان اپنے عروج پر ہے اقتدار سے محروم لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہوئے برسر اقتدار سے دست وگریباں ہیں،میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ برسراقتدار لوگ آج حلفیہ جلسوں میں قوم کو یقین دلائیں کہ اگر ہم 2023کے الیکشن میں کامیاب ہوکر آتے ہیں تو مہنگائی کا خاتمہ اس طرح کیا جائے گا کہ 2018ء والا دور مہنگائی کے حوالے سے ہم دوبارہ لائیں گے مگر یہ ممکن نہیں اگر ماضی کی حکومتوں سے کوئی پارٹی جیت گئی تو یہ جملہ کہہ کر اس قوم کو مایوسی کی دلدل میں اتارا جائے گا کہ مہنگائی ہمیں ورثے میں ملی ہے پھر یہ جوں کے توں ماضی والی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیں گے جنھیں ہارنے کا ڈر ہوگا اور وہ اس وقت کے تناور درخت پر آکر بیٹھ جائیں گے اور یہ نظام یوں ہی رواں دواں رہے گا۔

راقم کی دعا ہے اور قوم کی بھی دعا ہے کہ پاکستان سلامت رہے ہاں کسی صبح ہم سوکر اٹھیں تو پاکستان سلامتی کے ساتھ ایک نئے نظام کی طرف رواں دواں ہو جس میں امن اور آشتی کا نظام اجاگر ہوگا، کرپشن، لوٹ مار، لاقانونیت، گھنائونی برائیاں، نازیبا برتائو مفادات کی سیاسی چالیں، دشوار گزار اذیت ناک واقعات، آئی سی یو کے تندور میں جلتے ہوئے خاک در خاک ہوجائیں گے پھر قائداعظم کا پاکستان دوبارہ اجاگر ہوگا اور خالق کائنات اس ملک پر اور اس قوم پر رحم کے بادل برسا دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں