افغانستان بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ہماری سیاست

جو سیاسی قیادت دوسری پارٹیوں میں موجود ہے ان سب کو ساتھ لے کے آگے بڑھنا ہی بہتر ہوگا۔

Jvqazi@gmail.com

آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑاملک ہم ہیں۔ آنیوالی ایک دو دہائی میں ہم پانچویں نمبر پر آنے والے ہیں ، جس طرح یہ ملک چل رہا ہے صرف سائوتھ ایشیا کے اعتبار سے ہی اگردیکھا جائے تو یقینا حالات بہتر نہیں ہیں اور خراب ہوتے جارہے ہیں ۔

یہ کیوں ہوا، کیسے ہوا، کب ہوا وغیرہ وغیرہ؟ چند سطروں میں یوں کہیں کہ بنیادی وجہ ہماری اس بدحالی کی سیاسی ہے ۔ سیاست سماج کا عکس ہوتی ہے اور سماج سیاست کا عکس ہوتا ہے ۔اس سیاسی عدم توازن میں سماجی زاویے ، بین الاقوامی سیاست اور بہت سے تضادات کا عمل دخل ہے اور جو صورت بنی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

چالیس سال گزر گئے، ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے اشراف اور مذہبی اشراف نے جو روش پکڑی، وہ ابھی تک سنبھلنا تو دور کی بات اور بدتر ہوگئی ہے ۔ آزادی کے ساتھ ہی ہمیں ورثے میں کشمیر کا مسئلہ ملا ہے، وہ جو بنیاد بنا اس خطے کے امن کو برباد کرنے کا اور جو سیاست اور اس کا بیانیہ یہاں بنا اور جو وہاں بنا، اس نے نہ صرف ہندوستان کی سیکولر سیاست کو نقصان پہنچایا بلکہ ہمیں تو اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی۔

ایک ایسا بیانیہ بنا جس سے ہماری معاشی ترقی کے پیمانے اور بھی زوال پذیر ہوئے، اس میں جو آہستہ آہستہ تیزی آتی جارہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر جلدی سے کوئی افہام و تفہیم مختلف سیاسی قوتوں کے درمیاں نہیں ہوئی تو یقینا ہم پھر سے ایک نئے دوراہے پے کھڑے ہونے جارہے ہیں ۔

مہنگائی کے ماضی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ، ایکسپورٹس بڑھ رہی ہیں نہ امپورٹس کم ہورہی ہیں ۔ خان صاحب کے ان زمانوں میں ہر سال چار پانچ ارب ڈالر کا ایک اور خرچہ بڑھ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اب زرعی اعتبار سے خود کفیل نہیں رہے اور ہمیں اشیائے خورونوش باہر سے منگوانی پڑھ رہی ہیں جو اشیاء کل تک ہم خود ایکسپورٹ کرتے تھے۔ ایک عجیب سی چیز ان چند مہینوں میں یہ دیکھی گئی کہ جو ڈالر 168پے کھڑا تھا وہ ان چند مہینوں میں گر کر 154 پے آگیا اور پھر چار مہینوں میں واپس جاکے168پے کھڑا ہوگیا۔

معاشی ماہرین کے بقول ڈالر کا مہنگا ہونا ہماری معیشت پرعدم اعتماد کا اظہار ہے ۔اور یہ بھی کہا جارہے ہے کہ سائوتھ ایشیا کے تمام ممالک کے کرنسیوں میں سب سے بری پرفارمنس ہمار ے روپے کی ہے ۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو کیسے ممکن ہے ۔ خان صاحب کے لیے عرض ہے کہ اس ملک کی جو بھی آمدنی ہے اس کی اسی فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے، یہ وہ ٹیکس ہے جو آپ غریبوں پے لگاتے ہیں۔


خان صاحب کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ امیر اور مراعات یافتہ طبقہ ٹیکس نہیں دیتا اور خان صاحب کو یہ ماننا چاہیے کہ یہ ملک امیروں کو بہت کچھ دیتا ہے اور غریبوں کے لیے کچھ نہیں۔ اسکول ، اسپتالیں تو دور کی بات ہم نے اب ان کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ ہم نے ان کو بجائے یہ کہ روزگار دیتے ، انھیں بے روزگاری کا تحفہ دے گیا ہے ۔ کیا کیا ہم نے مہنگا نہیں کیا؟

دوائیوں سے لے کر چینی اور آٹے تک، گھی دال سبزی، بجلی ایک قیامت برپا ہوئی لیکن لوگ راستوں پے باہر نہیں آئے وہ جو پی ڈی ایم بنی تھی کہ اس حکومت کی لگام پکڑے گی، وہ خود ٹوٹ کے بکھر گئی ، حکومت مضبوط نہیں ہے۔ مگر اس کو گرانے کے حوالے سے کسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں اس صورتحال کو اس سے بھی بدتر اور خطرناک محسوس کر رہا ہوں، یہ صورتحال ہمیں کچھ اور ہی جانب اشارہ دیتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ لوگوں کی قوت احتجاج بھی گئی، سیاسی پارٹیوں و لیڈروں کی قوت تحریک چلانا بھی گئی ۔

یہ سب کچھ بھی اتنا بدتر نہیں ہے جتنا بدتر یہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں آئے ہوئے طالبان کے اثر میں خود اپنے اندر تبدیلیاں لانا شروع کردی ہیں۔ اسلام آباد و وفاق کے اندر آئے ہوئے تعلیمی و دوسرے اداروں کو یہ نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے کہ خواتین کا جینز پہن کے آنا ممنوع ہے۔ خواتین کو ان دفاتر میں و اسکولوں میں بغیر حجاب آنا بھی ممنوع ہے۔

میری نظر سے پنجاب کے محکمہ تعلیم کی شایع کردہ پرائمری اسکول کے بچوں کے لیے ایک کتاب او ر اس پر چسپاں یہ تصویر نظر آئی جس میں ماں اور بیٹی فرش پے بیٹھے ہیں، ابا صوفے پے بیٹھے ہیں اور بیٹا ان کی گود میں جب اسی کتاب کو میں نے موزانہ سندھ کے ٹیکسٹ بک بورڈ کے کتابوں سے کیا تو اس پر جو تصویر تھی، اس میں ماں، بیٹی، بیٹا اور باپ سب چار پائی پہ ایک ساتھ بیٹھے تھے ۔ افغانستان میں جو ان کی وزارت خواتین تھی وہ بند کر دی گئی ، کچھ بھی پتہ نہیں افغانستان کس کروٹ بیٹھے گا۔

ہماری جمہوریت کا افغانستان سے گہرا تعلق ہے، سیاسی قیادت کا بحران اس ملک کو ایک ایسے بیانیہ پہ واپس لاسکتا ہے جس کی بنیاد جنرل ضیاء الحق نے رکھی تھی ، ہمیں آزاد صحافت نہیں چاہیے، ہمیں آزاد الیکشن کمیشن نہیں چاہیے، اور نہ آزاد عدلیہ ۔ ایک ایسے وقت جب افراط زر میں تیزی آتی جارہی ہے ، کوئی بھی ادراک صحیح کام نہیں کررہا ۔ ہر تبادلہ، ہر وہ شخص ہمیں پسند ہے جو ہماری جی حضوری کرے اور وہ جو میرٹ پہ ہم نے اس کو کونے پے کردیا ہے۔

بہت تیزی سے حالات تبدیل ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کے لیے مصالحت انتہائی ضروری ہے،ہم سب کو ایک ٹیبل پے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔ یہ ملک بہت ہی diversity رکھتا ہے۔ مذہبی، قومی، ثقافتی و لسانی فرقوں کے اعتبار سے ۔ اس ملک کو حقیقی معنی میں آئین پر ہی چلایا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس آئین کو سب مکاتب فکر کے لوگوں نے، زبان و ثقافتی ترجمانی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے پس منظر میں بنایا گیا ہے اور ہم سب اس پر متفق ہیں اور یہی ان بائیس کروڑ لوگوں کے حقوق کا ضامن ہے۔

ضروری نہیں کہ اس حکومت کے خلاف ایک تحریک چلے، لیکن یہ حکومت کسی بھی لحاظ سے مقبولیت نہیں رکھتی اور جو سیاسی قیادت دوسری پارٹیوں میں موجود ہے ان سب کو ساتھ لے کے آگے بڑھنا ہی بہتر ہوگا، و گرنہ کسی بھی وقت یہ ملک افغانستان کی صورتحال اور وہاں سے ہجرت کرکے آنے والوں کی وجہ سے تو خود یہاں پہ انتہا پسندقوتوں کا آگے نکلنا، ہمیں کسی بھی وقت ایک بہت بڑے بحران سے دوچار کرسکتا ہے۔
Load Next Story