بے بی بھٹو اس کی سپرمین اجرک اور ثقافتی یلغار۔۔۔ ہاں درست

کیا یہ کسی نئے "برگر کلچر " کا عروج ہے جو کہ پرانی خوب صورتی اور جمالیات کی جگہ لے رہا ہے؟ ہمارا امتیاز کہاں ہے؟


ارسلان فاروقی January 30, 2014
بلاول کو اپنے صوبے کی اصل اقدار اور معیار کو سمجھنے کی ضروت ہے جس کا وہ سالوں بعد ہی دورہ کرتے ہوں گے۔

بلاول بھٹو کو حکمرانوں کے طرز کی شیروانی پہنے سندھی ثقافت کے بارے میں بات کرتے اور اپنے انداز میں اردو بولتے ہوئے دیکھنا کافی دلچسپ تھا۔ ان کے خطاب کا سب سے مزاحیہ حصہ سندھی ورثے کی تباہی کا سارا الزام گذشتہ حکومتوں پر ڈالنا تھا۔


بلاول بھٹو زرداری نے اس بات پر توجہ نہیں دی یا ان کے تقریر کے لکھنے والے نے اسے نظر انداز کردیا کہ سندھ میں زیادہ تر ان کی اپنی ہی سیاسی جماعت پی پی پی کی حکومت رہی ہے، ریکارڈ کے لئے اندرون سندھ اپنی مضبوط طاقت کے باوجود پیپلز پارٹی کسی بھی قسم کا ترقیاتی کام نہیں کر سکی بلکہ اس کے بجائے انہوں نے بچے کچے ہوئے ورثے کو بھی تباہ کردیا۔

صوبہ سندھ کےمیں طاقت کے مرکز کراچی اور حیدرآباد کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بری طرح نظر انداز کیا گیا۔

درحقیقت شہری سندھ میں جو تمام تر ترقی دیکھی گئی وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت کے دوران ہوئی۔

بلاول بھٹو نے "ثقافتی یلغار " کا اعلان کرتے ہوئے سندھی ثقافت کے تحفظ کی بات کی ہے۔ یہ بیانات صرف وہی انسان دے سکتا ہے جو آرام سے کسی قلعہ میں یا ہزاروں میل دور بیٹھا ہو۔ انہوں نے سندھ کی اصل ثقافتی اقدار سے جڑے رہنے کی بات کی ہے۔

اس بات میں ایک چیز جو میں سمجھنے سے قاصر رہا کہ سپرمین کی ٹی شرٹ جسے انہوں نے اپنی مرضی سے اجرک کے رنگوں سے بھر دیا ہے جو کہ بلاول بھٹو نے پہن رکھی ہے کس طرح سندھی ثقافت کو تحفظ فراہم کرے گی ؟

کیا یہ کسی نئے "برگر کلچر " کا عروج ہے جو کہ پرانی خوب صورتی اور جمالیات کی جگہ لے رہا ہے؟

ہمارا امتیاز کہاں ہے؟

ہم اپنے منفرد ثقافتی ورثے کے بارے میں پوری دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟

اگر بلاول شوخ رنگ کی ٹی شرٹس پہننے اور مغرور انداز اپناتا ہے تو اس کے سننے اور دیکھنے والے جو کہ نسبتا پسماندہ ہیں اور ابھی تک انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں اس کو اپنے آپ سے منسلک نہیں کرسکیں گے ۔

ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اس ملک میں پیدا ہونے والے بہترین رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہم وطنوں سے عوامی انداز میں بات کی تاکہ بڑی تعداد میں لوگ خود کو ان سے منسلک کرسکیں، لوگوں کی ان کے لئے محبت اور احترام آج بھی واضح ہے۔

اس کے برعکس اس طرح کی ڈرامائی حرکات اور بچپن کے مزاحیہ انداز کے ساتھ بلاول یقینی طور پر اپنے نانا کی ناک ڈبو دے گا اور کچھ ہی عرصے میں نوجوان بھٹو کی قیادت کی خصوصیات ان کی اپنی ہی پارٹی میں سوالیہ نشان بن جائیں گی۔

کیا کرنے کی ضرورت ہے

بلاول کو اپنے صوبے کی اصل اقدار اور معیار کو سمجھنے کی ضروت ہے جس کا وہ سالوں بعد ہی دورہ کرتے ہوں گے۔

اس کا اثر پیدا کرنے کے لئے انہیں سب سے پہلے اہل لوگوں، سمجھدار مشیروں اور ماہرین کا تقرر کرنا پڑے گا جو جدید دور کی ضروریات کے مطابق اس کی تربیت کرسکیں اور اس کے علاوہ شہری اور دیہی زندگی کے انداز میں توازن قائم کرسکیں۔ وہ انہیں رہنمائی بھی فراہم کرسکتے ہیں کہ کس طرح انہیں خود کو ایک سیاستدان کے طور پر پیش کرناچاہیے، کس طرح دیہات میں موجود ایک عام آدمی سے رابطہ قائم رکھا جا سکتا ہے اور کس طرح سیاسی بیانات جاری کرنے میں پختگی لاسکتے ہیں۔

صوبہ سندھ کے پاس قیمتی ثقافت ہے جس کی حفاظت کی ضرورت ہے ۔ تاریخی مقامات جیسے موئن جو ڈرو اور ہڑپہ کی بحالی، ثقافتی ہفتوں کا انعقاد ، جاگیردارانہ ذہنیت کی حوصلہ شکنی اور دیہی سندھ کے محنت کش کسانوں اور ہنر مند خواتین اور مردوں کی حوصلہ ا فزائی حقیقی طور پر اس صوبے کی ثقافت کو مضبوط بنا سکتا ہے۔

ہم نے کراچی میں ثقافتی شو کے نام پر ہتھیاروں کی نمائش اور کراچی کی سڑکوں پر ایسے غیر مہذب نوجوانوں کو دیکھا جو جدید ترین ہتھیاروں کو لہراتے ہوئے سی ویو پر گولیاں چلا رہے تھے۔ ان سب کی حوصلہ شکنی اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے مزید مہذب طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

اس صوبے کی ثقافت کو فروغ دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے سیاحت کے لیے پرکشش صوبہ بنایا جائے جس میں ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں۔

اوپر دیئے گئے تمام اقدامات کے لئے بلاول بھٹو کی قیادت میں حکومت سندھ کو سب سے پہلے پورے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔

اندرون سندھ ڈاکوراج کا مکمل خاتمہ، جاگیردارانہ ذہنیت کے خلاف جدوجہد، صوبے میں موجود انتہا پسند وں کے علاقوں کا خاتمہ، روزگار کے مواقعوں کی فراہمی ،مذاہب اور مختلف قومیتوں کے درمیان محبت اور امن کے پیغام کو عام کرنا ایسے چند اقدامات ہیں جنہیں کرنے کی ضرورت ہے ۔

صرف اسی صورت میں ہی ہم حقیقی ثقافت کےمزید منظم اور مہذب انداز میں فروغ کی توقع کرسکتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں