الٹی ہوگئیں سب تدبیریں
جنہیں پہلے یہ پنجاب کے ڈاکو، کرپٹ، چپڑاسی، دہشت گرد اور بکاؤ مال کہتے رہے، حکومت بنانے کےلیے ان سب کو ساتھ ملانا پڑا
ایمانداری سے بات کی جائے تو کوئی بھی سیاست دان ایسا نہیں جس نےالیکشن میں کیے گئے وعدوں پر جیت جانے اور حکومت بنانے کے بعد بھی من و عن عمل کیا ہو۔ اب چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ یا کوئی بھی اور سیاسی جماعت۔ سب الیکشن میں پورے زور و شور سے عوامی نمائندگی کا دم بھرتے اور جیت جانے پر ان کے مسائل حل کرنے کےلیے بے تاب نظر آتے ہیں مگر حکومت میں آتے ہی ان کے اپنے رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتے ہیں اور میڈیا مینجمنٹ کے ساتھ کچھ بنیادی ترقیاتی کاموں سے عوام کو دلاسا دلا کر رکھتے ہیں۔
جیسے ایک گھر کا سربراہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو کہ گھر کے عام افراد نہیں جان سکتے، مگر وہ سب کو مطمئن رکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے تاکہ آپس کا رشتہ مضبوط رہے۔ ویسے ہی ایک ملک کے سربراہ کی ذمے داری بھی یہی بنتی ہے کہ اپنے ملک کے عوام کو مطمئن رکھ سکے تاکہ ملک میں انتشار کی سی کیفیت نہ جنم لے، جس سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا کر فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کریں۔
عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان ہی سیاست دانوں پر ہر بار اعتبار کرتے ہیں اور پھر انھیں ہی برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں۔ اسی دوران ایک نظریاتی جماعت پاکستان تحریک انصاف شروع ہوئی جس نے پاکستانی نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کی، عوام کی حقیقی ترجمانی کی بات کی، انصاف کی بات کی، غریب کی آواز بنی اور حکمرانی کےلیے اپنی جدوجہد جاری رکھی، مگر کامیاب نہ ہوسکی تو اس جماعت کو بھی یہ احساس ہوا کہ نظریاتی نہیں، سیاسی ہونا پڑے گا، پھر ہی حکومت مل سکتی ہے۔ اور یہ اس جماعت کا پہلی بار اپنی بات سے پلٹنا تھا اور پھر تو جیسے یہ اس کی عادت بن کر رہ گئی۔ اسی ایک بات سے نظریاتی ارکان نکلتے گئے اور سیاسی ارکان (الیکٹیبلز) جماعت کا حصہ بنتے گئے اور آج سے تین سال پہلے یہ جماعت حکومت بنانے کی اہل تو ہوئی مگر اس کےلیے بھی اسے اپنی کئی باتوں سے منہ موڑنا پڑا اور جنہیں پہلے یہ پنجاب کے ڈاکو، کرپٹ، چپڑاسی، دہشت گرد اور بکاؤ مال کہتے رہے، اب حکومت بنانے کےلیے ان سب کو ساتھ ملانا پڑا۔ تب شاید اس جماعت نے بھی افتخار نسیم کی غزل کا یہ شعر سیریس لے لیا ہو کہ
مگر عوام نے پھر بھی امید رکھی کہ کوئی بات نہیں، حکومت میں آکر جب حکمران ایماندار ہوگا تو سب کو ٹھیک کردے گا اور کسی کو کرپشن نہیں کرنے دے گا۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد جب اس جماعت کو اصل صورتحال سے آگاہی ہوئی تو ان کے ہاتھ پیر ہی پھول گئے اور کئی ایسے کارہائے نمایاں سرانجام ہوئے کہ جن کی ایک لمبی تفصیل ہے۔
حکومت میں آتے ہی ایک ایسا کارنامہ سرانجام ہوا جو پچھلے ستر سال میں نہیں ہوا اور ملکی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی۔ پھر کورونا نے مزید بیڑہ غرق کیا اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا۔ ان سب باتوں پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، مگر میرا مقصد ان حکومتی کوششوں کو بیان کرنا ہے جو ان تین سال میں انہوں نے ملکی مفاد میں کیں اور ان میں کس حد تک کامیاب ہوسکیں۔
پہلی تدبیر یہ کی کہ ہم کسی سے ادھار نہیں لیں گے بلکہ خود ہی کما کر اپنا پچھلا قرضہ بھی چکتا کردیں گے اور پھر ایسی قرض کی لت پڑی کہ ہم نے صرف تین سال میں قرض لینے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کشکول توڑنے کی بابت سوچا کہ اب کسی سے اپنے ملک کےلیے امداد طلب نہیں کریں گے مگر پھر وہی کشکول ان کے سامنے بھی پھیلانا پڑا جو خود دوسروں سے مانگتے ہیں۔ اور شومئی قسمت کہ ملکی اثاثے بھی بنانے میں ناکام رہے بلکہ موجود اثاثے بھی دوسروں کی دسترس میں جاتے جارہے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ہم نے وعدہ کیا تھا پچاس لاکھ گھروں کا، کہ غریب عوام کو سستے گھر دیں گے۔ اس کےلیے تدبیر کی کہ سستے گھر بنائے جائیں۔ لیکن اس کام میں تو پیسے خرچ ہوجاتے، اس لیے کوئی اور بنا کر گھر دے اور نام ہمارا ہو، کچھ ایسا سوچا گیا۔ مگر ابھی تک ایک بھی گھر کسی کو نہ مل سکا بلکہ جو دوسرے بنا کر بینکوں سے سود پر قرض دلا کر گھر دے رہے ہیں، وہ بھی غریب کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔
تیسرے نمبر پر ہم نے تدبیر کی کہ ہم اپنے خرچ کم کرکے بچت کریں گے اور چائے کے ساتھ بسکٹ بھی نہیں دیے کسی کو کھانے کےلیے، مگر خرچے پہلے سے دگنے ہوتے گئے اور ہمیں ہر بجٹ میں ان اخراجات میں اضافہ ہی کرنا پڑا۔
پھر تدبیر کی کہ مرغیاں اور انڈے عوام کو دے کر ایک معاشی انقلاب لایا جائے۔ مگر کچھ مرغیوں نے انڈے دینے سے انکار کردیا اور جنہوں نے انڈے دیے وہ ''نامعلوم'' کھا گئے۔ اسی کوشش میں ہم نے بھینسیں بھی بیچیں، پچھلی حکومتوں کی استعمال شدہ گاڑیوں کی نیلامی بھی کردی کہ ہم اپنے لیے نئی لیں گے، پرانی کاریں ہم نے کیا کرنی ہیں۔ مگر اس سے ملکی بہتری کا کچھ کام بن نہیں سکا، پھر بھی ہماری بلے بلے ہو ہی گئی۔
تیسری تدبیر ہم نے کی کہ ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے اور تمام کرپٹ لوگوں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لیں گے۔ مگر ہائے رے قسمت، ان میں کچھ اپنے بھی نکل آئے تو کوئی کیا کرسکتا ہے، اور اپنے بھی وہ کہ جن کے احسان ہیں ہم پر۔
چوتھی تدبیر کی کہ ملک میں لاقانونیت کے خاتمے کےلیے تمام قانونی اداروں کی اصلاح کریں گے اور اس کےلیے کئی سربراہوں کے ساتھ وزیروں کو بھی ادھر اُدھر کرکے دیکھا۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پات، بات کچھ بن نہ سکی۔
پھر ہم نے تدبیر کی کہ ملکی موجودہ خسارہ کم کیا جائے۔ اس لیے ہم نے درآمدات پر پابندی لگادی، جس سے خسارہ کم ہوکر مثبت میں چلا گیا اور ہم نے چھلانگیں لگا لگا کر اپنے اس کارنامے کے بارے میں بتانا شروع کیا ہی تھا کہ مہنگائی بڑھنے لگی، انڈسٹریز بند ہونے لگیں تو درآمدات کھولنی پڑیں جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پھر چھلانگیں مارتا ہوا منفی میں چلا گیا۔ تو اب خسارہ ترقی کی علامت ہوتا ہے ناں۔
ہم نے تدبیر کی کہ مہنگائی کا جن قابو ہوجائے گا، کیونکہ گندم اور گنے کی ریکارڈ فصل تیار ہوئی ہے۔ مگر ہائے رے قسمت کہ جو ملک دوسروں کو گندم امداری طور پر دیتا تھا اسے وہی درآمد کرنی پڑی اور چینی کے بارے میں کچھ بولنا تو بنتا ہی نہیں۔
ہم نے تدبیر کی کہ کورونا کی وجہ سے غریبوں کو تنگی نہ ہو۔ ان کےلیے احساس پروگرام شروع کیا اور یہ تو کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ اس میں گورنمنٹ کے کتنے پیسے خرچ ہورہے ہیں اور کون اس پروگرام کا سارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس لیے یہ کارنامہ فی الحال کامیاب ہے۔ اس کے علاوہ ہماری بہترین حکمت عملی سے پچھلی حکومتوں کے شروع کردہ منصوبے جن کو ہم نے حکومت میں آنے کے بعد بند رکھا تھا وہ آج ہمارے نام سے منسوب ہورہے ہیں اور اس طرح ہم نے پچھلی حکومتوں سے بھی زیادہ سڑکیں بنالیں۔
الغرض جب سب تدبیریں الٹی ہونے لگیں تو یہی کہنا بنتا ہے ناں کہ نیا پاکستان کوئی بٹن دبانے سے نہیں بن سکتا اور ملک میں کوئی غریب نہیں ہے بلکہ عوام خوشحال ہیں، اسی لیے تو گاڑیوں کی فروخت بڑھتی جارہی ہے اور کوئی غریب ڈھونڈ کر دکھا دیں۔ '80 فیصد غریب لوگوں کے بوجھ والے ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے' جیسے بیانات سننے کو ملتے ہیں اور کبھی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کی بہترین کارکردگی کو ڈھونڈنے کےلیے اور مشتہر کرنے کےلیے بھی ہمیں منصوبے بنانے پڑ جاتے ہیں۔ اب تو ہماری حالت یہ ہے کہ بقول میر
دوا اور تدبیر تو تب کام کرے گی جب دوا بیماری سے اور تدبیر دنیاوی حقیقتوں سے میل کھاتی ہوگی، ورنہ دونوں ہی الٹی پڑتی ہیں اور زندہ رہنے کےلیے دوا کے ساتھ حکیم بھی بدلنا پڑتا ہے۔ اگر تدبیر الٹی پڑے تو اس سے سبق ضرور لیا جاسکتا ہے اور اگلی تدبیر کےلیے کسی دانا سے مشورہ ہی لے لیا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کےلیے بھی ان لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو نام بنانے کے بجائے کام کرنے والے ہوں۔ سب سے آخر میں اہم بات کہ جب تک ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کےلیے کچھ کرنا نہیں شروع کردیتے، بہتری کی امید رکھنا بیکار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جیسے ایک گھر کا سربراہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو کہ گھر کے عام افراد نہیں جان سکتے، مگر وہ سب کو مطمئن رکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے تاکہ آپس کا رشتہ مضبوط رہے۔ ویسے ہی ایک ملک کے سربراہ کی ذمے داری بھی یہی بنتی ہے کہ اپنے ملک کے عوام کو مطمئن رکھ سکے تاکہ ملک میں انتشار کی سی کیفیت نہ جنم لے، جس سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا کر فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کریں۔
عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان ہی سیاست دانوں پر ہر بار اعتبار کرتے ہیں اور پھر انھیں ہی برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں۔ اسی دوران ایک نظریاتی جماعت پاکستان تحریک انصاف شروع ہوئی جس نے پاکستانی نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کی، عوام کی حقیقی ترجمانی کی بات کی، انصاف کی بات کی، غریب کی آواز بنی اور حکمرانی کےلیے اپنی جدوجہد جاری رکھی، مگر کامیاب نہ ہوسکی تو اس جماعت کو بھی یہ احساس ہوا کہ نظریاتی نہیں، سیاسی ہونا پڑے گا، پھر ہی حکومت مل سکتی ہے۔ اور یہ اس جماعت کا پہلی بار اپنی بات سے پلٹنا تھا اور پھر تو جیسے یہ اس کی عادت بن کر رہ گئی۔ اسی ایک بات سے نظریاتی ارکان نکلتے گئے اور سیاسی ارکان (الیکٹیبلز) جماعت کا حصہ بنتے گئے اور آج سے تین سال پہلے یہ جماعت حکومت بنانے کی اہل تو ہوئی مگر اس کےلیے بھی اسے اپنی کئی باتوں سے منہ موڑنا پڑا اور جنہیں پہلے یہ پنجاب کے ڈاکو، کرپٹ، چپڑاسی، دہشت گرد اور بکاؤ مال کہتے رہے، اب حکومت بنانے کےلیے ان سب کو ساتھ ملانا پڑا۔ تب شاید اس جماعت نے بھی افتخار نسیم کی غزل کا یہ شعر سیریس لے لیا ہو کہ
ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے
یہ بعد میں سہی کس بات سے مکرنا ہے
مگر عوام نے پھر بھی امید رکھی کہ کوئی بات نہیں، حکومت میں آکر جب حکمران ایماندار ہوگا تو سب کو ٹھیک کردے گا اور کسی کو کرپشن نہیں کرنے دے گا۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد جب اس جماعت کو اصل صورتحال سے آگاہی ہوئی تو ان کے ہاتھ پیر ہی پھول گئے اور کئی ایسے کارہائے نمایاں سرانجام ہوئے کہ جن کی ایک لمبی تفصیل ہے۔
حکومت میں آتے ہی ایک ایسا کارنامہ سرانجام ہوا جو پچھلے ستر سال میں نہیں ہوا اور ملکی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی۔ پھر کورونا نے مزید بیڑہ غرق کیا اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا۔ ان سب باتوں پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، مگر میرا مقصد ان حکومتی کوششوں کو بیان کرنا ہے جو ان تین سال میں انہوں نے ملکی مفاد میں کیں اور ان میں کس حد تک کامیاب ہوسکیں۔
پہلی تدبیر یہ کی کہ ہم کسی سے ادھار نہیں لیں گے بلکہ خود ہی کما کر اپنا پچھلا قرضہ بھی چکتا کردیں گے اور پھر ایسی قرض کی لت پڑی کہ ہم نے صرف تین سال میں قرض لینے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کشکول توڑنے کی بابت سوچا کہ اب کسی سے اپنے ملک کےلیے امداد طلب نہیں کریں گے مگر پھر وہی کشکول ان کے سامنے بھی پھیلانا پڑا جو خود دوسروں سے مانگتے ہیں۔ اور شومئی قسمت کہ ملکی اثاثے بھی بنانے میں ناکام رہے بلکہ موجود اثاثے بھی دوسروں کی دسترس میں جاتے جارہے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ہم نے وعدہ کیا تھا پچاس لاکھ گھروں کا، کہ غریب عوام کو سستے گھر دیں گے۔ اس کےلیے تدبیر کی کہ سستے گھر بنائے جائیں۔ لیکن اس کام میں تو پیسے خرچ ہوجاتے، اس لیے کوئی اور بنا کر گھر دے اور نام ہمارا ہو، کچھ ایسا سوچا گیا۔ مگر ابھی تک ایک بھی گھر کسی کو نہ مل سکا بلکہ جو دوسرے بنا کر بینکوں سے سود پر قرض دلا کر گھر دے رہے ہیں، وہ بھی غریب کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔
تیسرے نمبر پر ہم نے تدبیر کی کہ ہم اپنے خرچ کم کرکے بچت کریں گے اور چائے کے ساتھ بسکٹ بھی نہیں دیے کسی کو کھانے کےلیے، مگر خرچے پہلے سے دگنے ہوتے گئے اور ہمیں ہر بجٹ میں ان اخراجات میں اضافہ ہی کرنا پڑا۔
پھر تدبیر کی کہ مرغیاں اور انڈے عوام کو دے کر ایک معاشی انقلاب لایا جائے۔ مگر کچھ مرغیوں نے انڈے دینے سے انکار کردیا اور جنہوں نے انڈے دیے وہ ''نامعلوم'' کھا گئے۔ اسی کوشش میں ہم نے بھینسیں بھی بیچیں، پچھلی حکومتوں کی استعمال شدہ گاڑیوں کی نیلامی بھی کردی کہ ہم اپنے لیے نئی لیں گے، پرانی کاریں ہم نے کیا کرنی ہیں۔ مگر اس سے ملکی بہتری کا کچھ کام بن نہیں سکا، پھر بھی ہماری بلے بلے ہو ہی گئی۔
تیسری تدبیر ہم نے کی کہ ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے اور تمام کرپٹ لوگوں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لیں گے۔ مگر ہائے رے قسمت، ان میں کچھ اپنے بھی نکل آئے تو کوئی کیا کرسکتا ہے، اور اپنے بھی وہ کہ جن کے احسان ہیں ہم پر۔
چوتھی تدبیر کی کہ ملک میں لاقانونیت کے خاتمے کےلیے تمام قانونی اداروں کی اصلاح کریں گے اور اس کےلیے کئی سربراہوں کے ساتھ وزیروں کو بھی ادھر اُدھر کرکے دیکھا۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پات، بات کچھ بن نہ سکی۔
پھر ہم نے تدبیر کی کہ ملکی موجودہ خسارہ کم کیا جائے۔ اس لیے ہم نے درآمدات پر پابندی لگادی، جس سے خسارہ کم ہوکر مثبت میں چلا گیا اور ہم نے چھلانگیں لگا لگا کر اپنے اس کارنامے کے بارے میں بتانا شروع کیا ہی تھا کہ مہنگائی بڑھنے لگی، انڈسٹریز بند ہونے لگیں تو درآمدات کھولنی پڑیں جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پھر چھلانگیں مارتا ہوا منفی میں چلا گیا۔ تو اب خسارہ ترقی کی علامت ہوتا ہے ناں۔
ہم نے تدبیر کی کہ مہنگائی کا جن قابو ہوجائے گا، کیونکہ گندم اور گنے کی ریکارڈ فصل تیار ہوئی ہے۔ مگر ہائے رے قسمت کہ جو ملک دوسروں کو گندم امداری طور پر دیتا تھا اسے وہی درآمد کرنی پڑی اور چینی کے بارے میں کچھ بولنا تو بنتا ہی نہیں۔
ہم نے تدبیر کی کہ کورونا کی وجہ سے غریبوں کو تنگی نہ ہو۔ ان کےلیے احساس پروگرام شروع کیا اور یہ تو کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ اس میں گورنمنٹ کے کتنے پیسے خرچ ہورہے ہیں اور کون اس پروگرام کا سارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس لیے یہ کارنامہ فی الحال کامیاب ہے۔ اس کے علاوہ ہماری بہترین حکمت عملی سے پچھلی حکومتوں کے شروع کردہ منصوبے جن کو ہم نے حکومت میں آنے کے بعد بند رکھا تھا وہ آج ہمارے نام سے منسوب ہورہے ہیں اور اس طرح ہم نے پچھلی حکومتوں سے بھی زیادہ سڑکیں بنالیں۔
الغرض جب سب تدبیریں الٹی ہونے لگیں تو یہی کہنا بنتا ہے ناں کہ نیا پاکستان کوئی بٹن دبانے سے نہیں بن سکتا اور ملک میں کوئی غریب نہیں ہے بلکہ عوام خوشحال ہیں، اسی لیے تو گاڑیوں کی فروخت بڑھتی جارہی ہے اور کوئی غریب ڈھونڈ کر دکھا دیں۔ '80 فیصد غریب لوگوں کے بوجھ والے ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے' جیسے بیانات سننے کو ملتے ہیں اور کبھی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کی بہترین کارکردگی کو ڈھونڈنے کےلیے اور مشتہر کرنے کےلیے بھی ہمیں منصوبے بنانے پڑ جاتے ہیں۔ اب تو ہماری حالت یہ ہے کہ بقول میر
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
دوا اور تدبیر تو تب کام کرے گی جب دوا بیماری سے اور تدبیر دنیاوی حقیقتوں سے میل کھاتی ہوگی، ورنہ دونوں ہی الٹی پڑتی ہیں اور زندہ رہنے کےلیے دوا کے ساتھ حکیم بھی بدلنا پڑتا ہے۔ اگر تدبیر الٹی پڑے تو اس سے سبق ضرور لیا جاسکتا ہے اور اگلی تدبیر کےلیے کسی دانا سے مشورہ ہی لے لیا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کےلیے بھی ان لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو نام بنانے کے بجائے کام کرنے والے ہوں۔ سب سے آخر میں اہم بات کہ جب تک ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کےلیے کچھ کرنا نہیں شروع کردیتے، بہتری کی امید رکھنا بیکار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔