صحافیوں کوہراساں کرنے کا ازخود نوٹس سپریم کورٹ نے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
ایف آئی اے سمیت کسی ادارے کو اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرنے دیں گے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اورآئی جی اسلام آباد سے صحافیوں کے مقدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے،چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد سے صحافیوں کے مقدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا سے چینلز کیخلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے، چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد کو آئندہ سماعت پر ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیےملتوی کردی۔
دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ چار سال میں صحافیوں کیخلاف 27 شکایات ملیں،27 میں سے صرف چار شکایات انکوائری میں تبدیل ہوئیں اورمقدمات درج ہوئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے الیکٹرانک کرائمزایکٹ کا اطلاق پہلے کرتا ہے سوچتا بعد میں ہے، ایف آئی اے سمیت کسی ادارے کو اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرنے دیں گے، گائیڈ لائنزجاری کریں گے جس پرحکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔ جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19 سے متصادم تونہیں۔
جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے کہ آزادی صحافت کوریگولیٹ آئین کا آرٹیکل 19 کرتا ہے پیکا نہیں، میں یوٹیوب چینل بنا کر کردار کشی شروع کر دوں تو کیا یہ صحافت ہوگی؟ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ دار ڈی جی ایف آئی اے ہوں گے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ کیا صحافی کو گولی مارنے والے ملزم پکڑے گئے؟ صحافت کی آڑ میں کسی کے ذاتی فعل کوتحفظ نہیں دیں گے، کسی کو صحافیوں سے مسئلہ ہے تو قانونی راستہ اپنائے، صحافیوں کو گولیاں مارنا یا تشدد کرنا لاقانونیت ہے، آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ صحافیوں پرحملے کرنے والے گرفتارہوں، فاضل جج کے استفسارپرآئی جی اسلام آباد نے کہا کہ نادرا کو ویڈیوز بھجوائیں لیکن ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی۔ جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کا گرفتار نہ ہونا آپ کی ناکامی ہے، مینار پاکستان واقعے کے ملزم پکڑے جا سکتے تو صحافیوں کے کیوں نہیں۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے،چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد سے صحافیوں کے مقدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا سے چینلز کیخلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے، چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد کو آئندہ سماعت پر ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیےملتوی کردی۔
دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ چار سال میں صحافیوں کیخلاف 27 شکایات ملیں،27 میں سے صرف چار شکایات انکوائری میں تبدیل ہوئیں اورمقدمات درج ہوئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے الیکٹرانک کرائمزایکٹ کا اطلاق پہلے کرتا ہے سوچتا بعد میں ہے، ایف آئی اے سمیت کسی ادارے کو اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرنے دیں گے، گائیڈ لائنزجاری کریں گے جس پرحکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔ جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19 سے متصادم تونہیں۔
جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے کہ آزادی صحافت کوریگولیٹ آئین کا آرٹیکل 19 کرتا ہے پیکا نہیں، میں یوٹیوب چینل بنا کر کردار کشی شروع کر دوں تو کیا یہ صحافت ہوگی؟ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ دار ڈی جی ایف آئی اے ہوں گے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ کیا صحافی کو گولی مارنے والے ملزم پکڑے گئے؟ صحافت کی آڑ میں کسی کے ذاتی فعل کوتحفظ نہیں دیں گے، کسی کو صحافیوں سے مسئلہ ہے تو قانونی راستہ اپنائے، صحافیوں کو گولیاں مارنا یا تشدد کرنا لاقانونیت ہے، آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ صحافیوں پرحملے کرنے والے گرفتارہوں، فاضل جج کے استفسارپرآئی جی اسلام آباد نے کہا کہ نادرا کو ویڈیوز بھجوائیں لیکن ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی۔ جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کا گرفتار نہ ہونا آپ کی ناکامی ہے، مینار پاکستان واقعے کے ملزم پکڑے جا سکتے تو صحافیوں کے کیوں نہیں۔