ہمارے نوجوان اور ون ویلنگ
آج کی نوجوان نسل اس خطرناک کھیل کی طرف کیوں راغب ہے اور ریاست اسے روکنے میں ناکام کیوں ہے؟
میرے سینئر کولیگ احسان صاحب راوی ہیں۔ ان کے ایک عزیز اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ احباب کے مشوروں سے ڈاکٹر، حکیم، روحانی علاج، ہر طریقہ آزمایا مگر جب تک آسمان سے فیصلے نہ ہوجائیں زمین پر تمام اسباب بیکار ثابت ہوتے ہیں، کی کیفیت تھی۔ ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد نومولود فائز کو گود لے لیا۔
فائز کی پرورش انتہائی نازوں میں ہوئی۔ گزشتہ سال فائز ایک حادثے کا شکار ہوا مگر ماں باپ کی دعاؤں سے اللہ پاک نے اسے نئی زندگی دی۔ صحت یابی کے بعد اس نے کار کی فرمائش کردی، جسےبھٹی صاحب کےلیے پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر اکلوتی اولاد کو ناراض کرنے کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ اپنی معاشی مجبوریاں بیٹے کو بتائیں اور موٹر سائیکل لے کر دی۔ فائز موٹرسائیکل پاکر نہال ہوگیا، مگر اس کی یہ خوشی چند دن تک ہی محدود رہی۔ گزشتہ ماہ جولائی کی ایک بدقسمت شام دوستوں کے ساتھ ون ویلنگ کرتے ہوئے اس کی ایک وین سے ٹکر ہوئی۔ گردن، ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگ پر بری طرح چوٹیں آئیں۔ اسلام آباد کے مہنگے ترین اسپتال میں 14 دن تک زیر علاج رہا۔ 20 لاکھ روپے کے اخراجات، بوڑھے ماں باپ اور احباب کی دعائیں کچھ بھی تو نہ کام آسکا اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ آج اس کے والدین نیم پاگل ہوچکے ہیں۔
یہ صرف ایک فائز کی کہانی نہیں ہے، محتاط اندازے کے مطابق وطن عزیز میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں 56 فیصد موٹرسائیکل سے جڑے ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حادثات کا شکار ہونے والوں میں سے ہر تیسرا شخص 21 سے 30 سال کی عمر کا ہوتا ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اس خطرناک کھیل کی طرف کیوں راغب ہے اور ریاست اسے روکنے میں کیوں ناکام نظر آتی ہے؟ بظاہر اس کی ایک بڑی وجہ اس اہم ترین مسئلے پر ناکافی قانون سازی ہے۔
ماہرین کے مطابق پی پی سی 279 کے تحت ون ویلنگ کے خلاف ہونے والے مقدمے میں باآسانی ضمانت ہوجاتی ہے۔ اگر سزا ہو بھی جائے (جس پر عملدرآمد کم وبیش ہی دیکھنے کو ملتا ہے) تو 3 ہزار روپے تک جرمانہ و 2 سال تک قید کی سزا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے والدین اور بچوں کے صبر و برداشت کے پیمانے لبریز ہوتے جارہے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان والدین کی عدم توجہی کی بنا پر نفسیاتی دباؤ میں ون ویلنگ جیسی منفی سرگرمیوں کے ذریعے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی ذمے داری کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف ون ویلنگ پر پابندی کے حوالے سے سخت ترین قانون سازی کرے بلکہ اس پر عمل کو بھی یقینی بنائے اور اگر ریاست اس قابل نہیں کہ وطن عزیز کے مستقبل کی حفاظت کرسکے تو پھر یورپ کی طرز پر خصوصی گراؤنڈز تیار کروائے، جہاں ہیلمٹ، کٹ پہن کر دیگر حفاظتی تدابیر کے ساتھ ماہر کوچز سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد اس خطرناک کھیل کی اجازت دی جائے۔ تاکہ حتی الامکان چوٹ لگنے سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔ کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی مسئلے کو حل نہیں کرسکتے تو اس کے مضمرات کا خاتمہ یا کم ہی کردیں۔
یورپی ممالک کے اسپورٹس چینلز نے موٹر سائیکل کرتب دکھانے کو باضابطہ کھیل کا درجہ دے رکھا ہے، جہاں ایڈونچر کے شوقین اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، مگر وہاں یہ سب کچھ عوامی مقامات کے بجائے نہ صرف خصوصی طور پر تیار کردہ کورٹس میں بلکہ ہیلمٹ، کٹ اور دیگر حفاظتی اقدامات کے ساتھ ماہر کوچز سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایڈونچر پسند نوجوان سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوامی مقامات پر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش میں اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اگر ریاست اس کھیل پر پابندی یا قانونی شکل دینے میں کامیاب ہوگئی تو اس سے کم ازکم وہ لوگ محفوظ ہوجائیں گے جو دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے اپنوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
فائز کی پرورش انتہائی نازوں میں ہوئی۔ گزشتہ سال فائز ایک حادثے کا شکار ہوا مگر ماں باپ کی دعاؤں سے اللہ پاک نے اسے نئی زندگی دی۔ صحت یابی کے بعد اس نے کار کی فرمائش کردی، جسےبھٹی صاحب کےلیے پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر اکلوتی اولاد کو ناراض کرنے کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ اپنی معاشی مجبوریاں بیٹے کو بتائیں اور موٹر سائیکل لے کر دی۔ فائز موٹرسائیکل پاکر نہال ہوگیا، مگر اس کی یہ خوشی چند دن تک ہی محدود رہی۔ گزشتہ ماہ جولائی کی ایک بدقسمت شام دوستوں کے ساتھ ون ویلنگ کرتے ہوئے اس کی ایک وین سے ٹکر ہوئی۔ گردن، ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگ پر بری طرح چوٹیں آئیں۔ اسلام آباد کے مہنگے ترین اسپتال میں 14 دن تک زیر علاج رہا۔ 20 لاکھ روپے کے اخراجات، بوڑھے ماں باپ اور احباب کی دعائیں کچھ بھی تو نہ کام آسکا اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ آج اس کے والدین نیم پاگل ہوچکے ہیں۔
یہ صرف ایک فائز کی کہانی نہیں ہے، محتاط اندازے کے مطابق وطن عزیز میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں 56 فیصد موٹرسائیکل سے جڑے ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حادثات کا شکار ہونے والوں میں سے ہر تیسرا شخص 21 سے 30 سال کی عمر کا ہوتا ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اس خطرناک کھیل کی طرف کیوں راغب ہے اور ریاست اسے روکنے میں کیوں ناکام نظر آتی ہے؟ بظاہر اس کی ایک بڑی وجہ اس اہم ترین مسئلے پر ناکافی قانون سازی ہے۔
ماہرین کے مطابق پی پی سی 279 کے تحت ون ویلنگ کے خلاف ہونے والے مقدمے میں باآسانی ضمانت ہوجاتی ہے۔ اگر سزا ہو بھی جائے (جس پر عملدرآمد کم وبیش ہی دیکھنے کو ملتا ہے) تو 3 ہزار روپے تک جرمانہ و 2 سال تک قید کی سزا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے والدین اور بچوں کے صبر و برداشت کے پیمانے لبریز ہوتے جارہے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان والدین کی عدم توجہی کی بنا پر نفسیاتی دباؤ میں ون ویلنگ جیسی منفی سرگرمیوں کے ذریعے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی ذمے داری کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف ون ویلنگ پر پابندی کے حوالے سے سخت ترین قانون سازی کرے بلکہ اس پر عمل کو بھی یقینی بنائے اور اگر ریاست اس قابل نہیں کہ وطن عزیز کے مستقبل کی حفاظت کرسکے تو پھر یورپ کی طرز پر خصوصی گراؤنڈز تیار کروائے، جہاں ہیلمٹ، کٹ پہن کر دیگر حفاظتی تدابیر کے ساتھ ماہر کوچز سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد اس خطرناک کھیل کی اجازت دی جائے۔ تاکہ حتی الامکان چوٹ لگنے سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔ کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی مسئلے کو حل نہیں کرسکتے تو اس کے مضمرات کا خاتمہ یا کم ہی کردیں۔
یورپی ممالک کے اسپورٹس چینلز نے موٹر سائیکل کرتب دکھانے کو باضابطہ کھیل کا درجہ دے رکھا ہے، جہاں ایڈونچر کے شوقین اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، مگر وہاں یہ سب کچھ عوامی مقامات کے بجائے نہ صرف خصوصی طور پر تیار کردہ کورٹس میں بلکہ ہیلمٹ، کٹ اور دیگر حفاظتی اقدامات کے ساتھ ماہر کوچز سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایڈونچر پسند نوجوان سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوامی مقامات پر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش میں اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اگر ریاست اس کھیل پر پابندی یا قانونی شکل دینے میں کامیاب ہوگئی تو اس سے کم ازکم وہ لوگ محفوظ ہوجائیں گے جو دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے اپنوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔