ڈبل سواری پر پابندی اور ٹریفک مسائل
حکومت سندھ نے دفعہ 144 کا نفاذ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھرکراچی شہر میں موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی
جرائم اور بد امنی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے سبب حکومت سندھ نے دفعہ 144 کا نفاذ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھرکراچی شہر میں موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عاید کردی ہے۔ وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا ہے کہ پابندی کا فیصلہ سیکیورٹی کی صورت حال کے باعث کیا گیا ہے ضرورت پڑنے پر اس پابندی کو ایک ماہ سے قبل بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ بدامنی کو قابو کرنے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی کوئی نیا اقدام نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ بہت پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ناکام تجربہ بھی ثابت ہوچکا ہے۔ شرجیل میمن نے ضرورت پڑنے پر اس پابندی کو ایک ماہ سے قبل ختم کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کیا ہے۔ جب کہ بار بار کا ناکام تجربہ ثابت کرتا ہے کہ اس پابندی کا نتیجہ سوائے عوامی مشکلات میں اضافہ کرنے کے اور کچھ نہیں نکلتا پابندی کے باوجود بھی ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان پابندیوں کے دوران بھی شہر کی بڑی بڑی سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات اور عام شہریوں کا قتل عام اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ حالیہ پابندی کے پہلے روز ہی موٹرسائیکل سوار کلرز نے 6 شہریوں سے ان کی زندگی کا حق چھین لیا۔ حکومت اگر ڈبل سواری پر عاید کی گئی پابندی ایک ماہ سے قبل ختم کرنے کی ضرورت اور وعدے کی بجائے اس کو نافذ کرنے کی ضرورت پر غور کرلیتی تو شاید اس کے نفاذ کا فیصلہ ہی نہیں کرتی۔ ڈبل سواری پر رات گئے یوں اچانک پابندی عاید کیے جانے سے ہزاروں شہری لاعلمی کی وجہ سے صبح سویرے پولیس کے شکنجے میں آجاتے ہیں۔
طلبا امتحانی مراکز پہنچنے کی بجائے حوالات میں پہنچ جاتے ہیں پولیس اہلکار طلبا کے ایڈمٹ اور شہریوں کے جائز قسم کے عذرات سننے کے باوجود کہہ دیتے ہیں کہ وہ حکم کی تعمیل کے پابند اور مجبور ہیں اوپر سے سختی ہے ایسا بھی ہوا ہے کہ پولیس نوٹیفکیشن وصول ہونے سے پہلے ہی شہریوں کو گرفتار کرکے عدالت پہنچ گئی، جس پر ان پولیس اہلکاروں کی سرزنش کرنے کے بعد عدالت نے گرفتار شہریوں کو رہا کردیا۔ اس مرتبہ بھی ڈبل سواری کے مرتکب افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا تو ججز نے کہا ایس ایچ او کو تھانوں ہی سے ملزمان رہا کردینا چاہیے ان کی وجہ سے عدالت کا وقت ضایع ہوتا ہے۔ ایسے اقدام سے نہ صرف عوام پریشان ہوتے ہیں بلکہ عدالتوں اور دیگر سرکاری اداروں پر بھی کام کا غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل کراچی شہر میں موٹر سائیکلوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اتنے بڑے شہر میں موٹرسائیکل کا سفر نسبتاً سستا اور عام ذریعہ ہے جس کے ذریعے ڈبل سواری پر لاکھوں افراد دن میں کئی مرتبہ سفر کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب کہ اس شہر کے باسیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ ان کی زندگیوں کو جان بوجھ کر یا نااہلی سے مشقت آمیز بنادیا گیا ہے سرکاری اور پرائیویٹ بڑی گاڑیاں تقریباً ختم کردی گئی ہیں سرکلر ٹرین ماضی کا حصہ بن چکی ہے شہر کی تمام شاہراہوں پر ٹریفک جام معمول بن گیا ہے جس سے 200 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔
ایک موٹر کمپنی اور این ای ڈی یونیورسٹی کی پیشہ ورانہ آلات اور ماہرین کی دو سالہ تحقیق Research on Traffic Congestion میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہر میں ٹریفک جام سے ہر کلومیٹر پر اوسطاً 5 لاکھ 10 ہزار کا نقصان ہوتا ہے ماہانہ نقصان کا تخمینہ 6 کروڑ 83 لاکھ اور سالانہ 200 ارب نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو آیندہ 5 برسوں میں 400 ارب سالانہ تک پہنچ جائے گا رپورٹ کے مطابق ٹریفک جام سے سانس اور جلد کے امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کی وجہ سے جو ذہنی و نفسیاتی عوارض بڑھ رہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ ان گمبھیر مسائل کے حل کے لیے نہ حکومت سندھ کے پاس کوئی حکمت عملی اور جذبہ ہے نہ ہی شہری حکومت کے پاس فہم و فراست اور وقت ہے۔پولیس اور ٹریفک پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد پروٹوکول اور دو آئی پی ڈیوٹیز پر تعینات رہتی ہے۔ شہر میں کالے شیشوں والی گاڑیاں سرکاری یا پھر سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی ملکیت ہوتی ہیں جو سر عام قانون کا تمسخر اڑاتی دکھائی دیتی ہیں ٹوٹی پھوٹی اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں قانون کے رکھوالوں کو منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ مختلف تہواروں، جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے موقعے پر بغیر سائلنسر کی موٹرسائیکلیں اور چلتی ٹریفک کے دوران موٹرسائیکل سوار گروپوں کی خرمستیاں بھی عام شہریوں کے لیے جان کا عذاب بن چکی ہیں۔ چارہ اور بھوسے سے لدے ٹرک، ٹینکر اور دیگر ہیوی ٹریفک ممنوعہ مقامات و اوقات میں غیر ذمے دارانہ ڈرائیونگ سے روزانہ کئی کئی زندگیوں کے چراغ گل کردیتے ہیں۔ شہر میں جو درجنوں انڈر گراؤنڈ بائی پاس اور سگنل فری کوریڈور بنائے گئے ہیں وہ بھی شاید اشرافیہ کی وجہ سے ہی بنائے گئے ہیں تاکہ وہ شہر میں ٹریفک جام کے درمیان پھنس کر کسی ردعمل کا شکار نہ ہوں عوام کی بددعائیں اپنے کانوں سے نہ سنیں۔
چنگ چی زدہ شہر کراچی کبھی عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا جسے ملک کا ہر شہری دیکھنے کی تمنا رکھتا تھا۔ یہاں کی مارکیٹوں ودیگر مقامات پر غیر ملکی افراد بکثرت گھومتے پھرتے نظر آتے تھے آج غیرملکی حکومتیں اپنے شہریوں کو اس شہر میں آنے میں اور محتاط رہنے کی تنبیہہ کرتی ہیں ملک کے شہری تک اس شہر میں آنے سے اجتناب برتتے ہیں۔مسائلستان کے اس شہر کے ہمدرد تو بہت ہیں مگر چارہ گر کوئی نہیں۔ جس میں حکومت، عوامی نمایندوں اور کسی حد تک خود شہریوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کے سلسلے میں پہلے ٹرانسپورٹ پر شبہ کیا جاتا تھا کہ یہ ان کی اور حکومت کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ مگر اب اس چنگ چی زدہ شہر میں دیگر ٹرانسپورٹ تو نہ ہونے کے برابر ہے جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ پابندی کا یہ فیصلہ حکومت کا اپنا اور کلی آزادانہ اقدام ہے۔ ماضی میں شباب ملی اور جے سالک جیسے افراد اس پابندی کے خلاف عملی جدوجہد کرتے نظر آتے تھے اس مرتبہ جماعۃ السنہ اور انجمن اسلامی اصلاح برائے معاشرہ اس زیادتی کے خلاف میدان عمل میں آئی ہیں ۔جنھوں نے حکومت سے 3 دنوں کے اندر اس پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر ڈبل سواری پر پابندی، موبائل سروسز کی بندش اور مخصوص مقاصد کے لیے شاہراہوں کو بند کرکے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ کاش ہمارے حکمراں دہشت گردی، بدامنی، لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل میں گھرے شہریوں کے حال پر رحم کھائیں اگر شہریوں کو سہولیات فراہم نہیں کرسکتے تو انھیں پہلے سے میسر سہولیات سے تو محروم نہ کریں یہ ان کا اہل کراچی پر بڑا احسان ہوگا۔