شوق آوارگی کا علاج

مرد و عورت کے تعلقات جائز نہ ہوں تو اسلام اور مغرب کا نقطہ نظر کیا ہے؟

03332257239@hotmail.com

بھارت کے وزیر کی بیوی نے خودکشی کرلی، وہ ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئیں۔ ششی کے اپنی بیوی سے تعلقات خراب تھے۔ میڈیا نے پہلے اپشکر اور ان کے شوہر کی ازدواجی زندگی میں دراڑ کی خبریں دینا شروع کیں۔ ایک پاکستانی صحافی کا نام آنے پر معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔ خاتون جرنلسٹ نے کہا کہ درجنوں لوگوں کی طرح انھوں نے ششی سے انٹرویو کے لیے رابطہ کیا۔ میاں بیوی کے درمیان تیسری عورت آجائے تو مثلث بن ہی جاتا ہے۔ ایسے میں ایک ایسا شخص جس کا تعلق حکمراں پارٹی سے ہو اور وہ وزیر بھی ہو اور اس کی خوب صورت بیوی اس سے روٹھی ہو تو بڑی خبر بن جاتی ہے۔ تیسری عورت نہ صرف ایک پاکستانی ہو بلکہ اس کا تعلق صحافت سے ہو تو خبر مزید دلچسپ بن جاتی ہے۔

ابھی میڈیا میں یہ اسٹوری چل رہی تھی کہ پتہ چلا کہ اپشکر ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی ہیں۔ ان کی موت کو غیر فطری قرار دیا گیا۔ اس واقعے نے سوچنے کی بہت سی راہیں پیدا کردی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے خوشحال اور حکمران طبقے کے پڑھے لکھے چہرے پر اس واقعے نے کالک ملی ہے یا نہیں؟ اس پر مختلف خیالات ہوسکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے۔ بیوی سے بے وفائی ہو یا شوہر سے، دنیا کا کوئی مذہب اور معاشرہ اسے پسند نہیں کرتا۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ازدواجی رشتے کی بنیاد اعتماد اور وفا پر ہونی چاہیے۔ فون، کمپیوٹر، میل، سیل اور ٹیوٹر نے رابطوں کو آسان بنادیا ہے۔ فرد کے فرد سے رابطے میں اب کوئی دشواری نہیں۔ اس نے جہاں بہت سے فائدے دیے ہیں وہیں مرد اور عورت کے رشتے کو بھی آسان بنادیا ہے۔ اب اس میں ناجائز کی حد کہاں شروع ہوتی ہے اور جائز کی حد کہاں ختم ہوجاتی ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں اور دفاتر میں خواتین کا اپنے مرد کولیگ سے ملنا،یہ بڑے نازک معاملات ہیں۔ مرد کی برتر پوزیشن اور اس کے ماتحت کام کرنے والی ایک خاتون۔ 99 فیصد سچے، مخلص، نیک اور شریف لوگ ہوں تو ایک فیصد کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟

اس نازک موقع پر مرد اور عورت کی نفسیات سمجھے بغیر ہم کالم کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ جب دلکشی ہو تو وہ انسیت میں بدل جاتی ہے اور پھر محبت کا تیسرا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ اب اگر ایک مرد و عورت یا دونوں شادی شدہ ہوں اور آگ دونوں طرف برابر لگی ہو ایک یا دو گھروں کی بربادی کے بعد ہی تیسرا گھر آباد ہوسکتا ہے۔ عقیدت اگر عبادت کا روپ اختیار کرے تو چھٹا درجہ عشق کا ہوتا ہے۔ جب عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے اور بھانڈا پھوٹ جاتا ہے تو معاشرے میں کشمکش کی ابتدا ہوجاتی ہے۔ اب ایک بھارتی سیاستدان کا پاکستانی خاتون صحافی کو انٹرویو دینا ایک بیوی کو شک میں مبتلا کرگیا۔ دلکشی سے شروع ہونے والے پہلے پائیدان کی آخری اور ساتویں سیڑھی جنون ہوتا ہے۔ جنون میں محبوب کے لیے جان قربان کردی جاتی ہے۔ یہ عمل محبت میں بھی ہوسکتا ہے اور محبوب کی بے وفائی کی صورت میں بھی۔ اپشکر نے اپنے شوہر ششی کی بے وفائی کے شک میں اپنی جان قربان کرکے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوتے ہوئے ہم دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت امریکا کی طرف آتے ہیں۔ آخر میں ہم ایک پاکستانی خاتون کے بیان کے بعد ایک سوال پر اپنا کالم ختم کریں گے۔


مشعل کو اپنے شوہر اوباما سے شکایت ہے۔ ایک عام سا شوہر اپنی بیوی کو دنیا کے سب سے بڑے دفاعی گھر میں رکھنے کے باوجود دفاعی پوزیشن پر آگیا ہے۔ خاتون اول کو گلہ ہے کہ ان کے شوہر نامدار نے فلاں ملک کی خاتون سربراہ سے ملاقات کیوں کی۔ دال میں کچھ کالے کے شک کی بنیاد پر مشعل نے اوباما سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکینڈل نہ بننے اور امور مملکت میں رخنہ نہ پڑنے کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں نے صدارتی میعاد کے خاتمے پر اپنی ازدواجی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوئی امید نہ ہوتے ہوئے سب کچھ پالینے کے باوجود ایک بیوی اپنے شوہر کی بے وفائی کو برداشت نہیں کر پا رہی۔ اس سے قبل بل کلنٹن کا اسکینڈل وائٹ ہاؤس کی اسٹاف ممبر مونیکا کے ساتھ میڈیا پر سامنے آیا تھا۔ ہیلری نے برداشت کیا اور رشتے کا خاتمہ نہیں کیا۔ وہ معاملہ امریکی عدالتوں تک گیا۔ اس لیے نہیں کہ صدر کلنٹن دلکشی دیکھ کر انسیت اور محبت کی منزل تک کیوں پہنچے۔ انھوں نے اپنی بیوی سے بے وفائی کی تھی جس پر شکایت کا حق صرف ہیلری کو تھا۔ امریکی ریاست اور عدالت اس معاملے میں اس لیے سامنے آئے کہ صدر نے جھوٹ بولا تھا۔ مونیکا کی شکایت پر صدر کا حلفیہ بیان غلط بیانی تھی جسے ریاست نے برداشت نہ کیا۔فرانسیسی صدر اولاندے کا اسکینڈل بھی منظر عام پر آیا ہے۔اسکینڈل بڑے لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ وہ مشہور ہوں، حکمران، فنکار یا کھلاڑی ہوں تو خبر بن جاتی ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ معاشرے میں اور بھی ایسے واقعات پیش آتے ہوں گے۔ چھوٹے موٹے لوگوں کے چھوٹے موٹے واقعات تو چھوٹی سی خبر بنتے ہیں۔ مغربی دنیا ایسے معاملات سے کس طرح نمٹتی ہے اور اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ ایک بھارتی وزیر اور دوسرا امریکی صدر کے حالیہ واقعات کے بعد ہم ایک پاکستانی خاتون سیاستدان کے ایک بیان پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مغرب اور اسلام کے نقطہ نظر پر مختصر گفتگو نہ کی گئی تو ایک خلا پیدا ہوجائے گا۔ پہلے موازنہ پھر بیان۔

مرد و عورت کے تعلقات جائز نہ ہوں تو اسلام اور مغرب کا نقطہ نظر کیا ہے؟ مغرب اس وقت اس میں مداخلت کرتا ہے جب شکایت کرنے والوں میں سے کوئی شادی شدہ ہو۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ برائی کرکے اپنے شریک حیات سے بے وفائی کی گئی ہے۔ اسلام معاشرے میں بدی پھیلنے کے حوالے سے زیادہ حساس ہے۔ وہ جبر کے ساتھ ساتھ رضامندی کو بھی سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اسلام اس کے سدباب کے لیے پردے و علیحدہ معاشرت کے علاوہ بے حیائی پھیلنے کے تمام مراکز کا خاتمہ کرتا ہے۔ وہ نظر کے فتنے، دل کے چور، نمایش کے جذبے، آواز و خوشبو کے ذریعے پیغام رسانی اور خفیہ آشنائی کی پہلے جڑ کاٹتا ہے۔ پھر سخت سزائیں ایسے افراد کو جرائم کی جانب روکتی ہیں جو لاتوں کے بھوت ہوتے ہیں اور باتوں سے ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ اسلام عورت کی بے حرمتی کرنے والے کی چمڑی ادھیڑنے کی سزا تجویز کرتا ہے جب کہ مغرب مظلوم عورت کے بجائے مجرم سے ہمدردی کرتا ہے۔

اسلامی سزاؤں کو بیس برس قبل ''وحشیانہ'' قرار دینے والے اب خود سخت سزاؤں کی جانب آ رہے ہیں۔ پہلے بھارت کے نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے ہندوستانی ناریوں کو ظالم بھیڑیوں سے بچانے کے لیے یہ بات کی تھی۔ اب سینیٹر صغریٰ امام نے آبرو ریزی کی سزا عمر قید یا موت کی تجویز سینیٹ میں پیش کی ہے۔ بیگم عابدہ اور فخر امام کی پڑھی لکھی بیٹی نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ قوانین میں ان جرائم پر سزا دینے کی شرح کم ہے۔ ناجائز دوستیوں، ویلنٹائن ڈے اور ڈیٹنگ کو کلچر بنانے والے اپنے معاشرتی بگاڑ سے پریشان ہیں۔ عریانی کی آزادی ڈھل چکی ہے آوارگی میں۔ فحاشی سے جب خاندانی نظام بکھر رہا ہے تو سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ پہلے بے حیائی کی آگ لگانے کے سامان بکھیرے جاتے ہیں اور پھر فائربریگیڈ کی گاڑیاں آتش عشق کو بجھانے کو دوڑائی جاتی ہیں۔ جب بیماریوں کا علاج تجویز کیا جاتا ہے تو اسے قدامت پسندی کا نام دے کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ پیاسوں کو رحمت کے چشمے دکھائے جاتے ہیں تو ماڈرن و سیکولر لوگ منہ بناتے ہیں۔ بظاہر پرجوش اور اندر سے بے تاب و ہیجان انگیز لبرل دنیا اس مسئلے کا حل پیش کرتی ہے؟ وہ حسن آوارگی کے ایندھن کو ٹھنڈا کرے گی؟ آزاد خیال طبقہ پیش کرے گا شوق آوارگی کا علاج؟
Load Next Story