توانائی بچت پروگرام سے 55 صنعتوں کو 92 کروڑ کا فائدہ ہوا
تمام صنعتیں یہ پروگرام اپنالیں تو فی یونٹ 17 لاکھ سالانہ بچت ہوگی،سربراہ جرمن پراجیکٹ
جرمن پراجیکٹ اسپائر BFZ gGmbH توانائی بچت پراجیکٹ کے تحت پاکستان کی 55 صنعتوں میں تجربات انتہائی حوصلہ افزا رہے ہیں ۔
جنہیں سالانہ 9 کروڑ20 لاکھ روپے مالیت کی توانائی کی بچت ہوئی ہے، پاکستان کو یورپین یونین کے جی ایس پی پلس کے حاصل ہونے والے درجے سے بھرپور استفادے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پیداواری لاگت میں کمی کرتے ہوئے اپنی برآمدات کو ریکارڈ سطح پر پہنچائے۔ یہ بات جرمن BFZ gGmbH انٹرنیشنل ڈویژن کے سربراہ مارٹن اسٹریلے نے پاکستان میں اپنے پراجیکٹ کوآرڈینیٹرصلاح الدین فرخ اورٹاولز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پی ایچ ایم اے، پریگمیا، کورنگی، ایف بی ایریا صنعتی علاقوں کے نمائندوں کے ہمراہ جمعرات کوپریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔
مارٹن اسٹریلے نے بتایا کہ پاکستان میں چھوٹی ودرمیانی درجے کی صنعتوں کو توانائی کے بدترین بحران سے نجات دلانے کی غرض سے جرمن پراجیکٹ نے غیرتجارتی بنیادوں پرسال2011 سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ہے جس کے تحت کراچی، لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ کی55 چھوٹی ودرمیانی درجے کی صنعتوں میں توانائی بچت کی منصوبہ سازی کی گئی جنہیں مجموعی طور پر سالانہ 2 کروڑ80 لاکھ کلوواٹ سالانہ توانائی کی بچت ہوئی ہے، پاکستان میں جاری توانائی کے اس بحران سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے اگر تمام صنعتیں اس پروگرام کو اپنالیں تو فی صنعتی یونٹ کو سالانہ 17 لاکھ20 ہزار روپے صرف توانائی کے اخراجات کی مد میں بچت ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کی توانائی بچت کا یہ منصوبہ خالصتا غیرتجارتی بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے،منصوبے کے تحت کنسلٹینسی کے60 فیصد اخراجات جرمن ادارہ فراہم کر رہا ہے اور باقی ماندہ 40 فیصد اخراجات صنعتی یونٹس کو برداشت کرنا ہے۔ توانائی بچت منصوبے میں سب سے زیادہ ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے استفادہ کیا ہے جو اب جی ایس پی پلس کا بھرپورفائدہ اٹھاسکے گی۔ جرمن ادارے کے پاکستان میں تعینات کوآرڈینیٹر صلاح الدین فرخ نے بتایا کہ جرمن ادارے کے اس منصوبے میں سمیڈا کے ساتھ ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تمام تنظیمیں بھی شامل ہیں جن کی رکن صنعتوں نے منصوبے سے استفادہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپائر پراجیکٹ صنعتی ملازمین کے لیے ورکشاپ، سیمینار بھی منعقد کرارہا ہے۔
پی ایچ ایم اے نمائندے جنیدماکڈا نے یورپین یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس درجے کے بعد پاکستانی صنعتوں کے لیے بی ایس سی آئی سرٹیفکیشن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جرمن ادارے کو تجویز دی کہ وہ توانائی بچت پروگرام کے ساتھ پاکستان کی برآمدکنندہ صنعتوں کو جی ایس پی پلس سے بھرپوراستفادے کے لیے بی ایس سی آئیسرٹیفکیشن کے حصول میں بھی پیشہ ورانہ بنیادوں پر معاونت کرے۔ اس موقع پر پی ایچ ایم اے کے سابق چیئرمین سلیم پاریکھ، محمد عرفان اصلی پری،ٹی ایم اے کے مزمل حسین، کاٹی، ایف بی ایریا، پریگمیا ودیگر صنعتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔
جنہیں سالانہ 9 کروڑ20 لاکھ روپے مالیت کی توانائی کی بچت ہوئی ہے، پاکستان کو یورپین یونین کے جی ایس پی پلس کے حاصل ہونے والے درجے سے بھرپور استفادے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پیداواری لاگت میں کمی کرتے ہوئے اپنی برآمدات کو ریکارڈ سطح پر پہنچائے۔ یہ بات جرمن BFZ gGmbH انٹرنیشنل ڈویژن کے سربراہ مارٹن اسٹریلے نے پاکستان میں اپنے پراجیکٹ کوآرڈینیٹرصلاح الدین فرخ اورٹاولز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پی ایچ ایم اے، پریگمیا، کورنگی، ایف بی ایریا صنعتی علاقوں کے نمائندوں کے ہمراہ جمعرات کوپریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔
مارٹن اسٹریلے نے بتایا کہ پاکستان میں چھوٹی ودرمیانی درجے کی صنعتوں کو توانائی کے بدترین بحران سے نجات دلانے کی غرض سے جرمن پراجیکٹ نے غیرتجارتی بنیادوں پرسال2011 سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ہے جس کے تحت کراچی، لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ کی55 چھوٹی ودرمیانی درجے کی صنعتوں میں توانائی بچت کی منصوبہ سازی کی گئی جنہیں مجموعی طور پر سالانہ 2 کروڑ80 لاکھ کلوواٹ سالانہ توانائی کی بچت ہوئی ہے، پاکستان میں جاری توانائی کے اس بحران سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے اگر تمام صنعتیں اس پروگرام کو اپنالیں تو فی صنعتی یونٹ کو سالانہ 17 لاکھ20 ہزار روپے صرف توانائی کے اخراجات کی مد میں بچت ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کی توانائی بچت کا یہ منصوبہ خالصتا غیرتجارتی بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے،منصوبے کے تحت کنسلٹینسی کے60 فیصد اخراجات جرمن ادارہ فراہم کر رہا ہے اور باقی ماندہ 40 فیصد اخراجات صنعتی یونٹس کو برداشت کرنا ہے۔ توانائی بچت منصوبے میں سب سے زیادہ ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے استفادہ کیا ہے جو اب جی ایس پی پلس کا بھرپورفائدہ اٹھاسکے گی۔ جرمن ادارے کے پاکستان میں تعینات کوآرڈینیٹر صلاح الدین فرخ نے بتایا کہ جرمن ادارے کے اس منصوبے میں سمیڈا کے ساتھ ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تمام تنظیمیں بھی شامل ہیں جن کی رکن صنعتوں نے منصوبے سے استفادہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپائر پراجیکٹ صنعتی ملازمین کے لیے ورکشاپ، سیمینار بھی منعقد کرارہا ہے۔
پی ایچ ایم اے نمائندے جنیدماکڈا نے یورپین یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس درجے کے بعد پاکستانی صنعتوں کے لیے بی ایس سی آئی سرٹیفکیشن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جرمن ادارے کو تجویز دی کہ وہ توانائی بچت پروگرام کے ساتھ پاکستان کی برآمدکنندہ صنعتوں کو جی ایس پی پلس سے بھرپوراستفادے کے لیے بی ایس سی آئیسرٹیفکیشن کے حصول میں بھی پیشہ ورانہ بنیادوں پر معاونت کرے۔ اس موقع پر پی ایچ ایم اے کے سابق چیئرمین سلیم پاریکھ، محمد عرفان اصلی پری،ٹی ایم اے کے مزمل حسین، کاٹی، ایف بی ایریا، پریگمیا ودیگر صنعتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔