خیبرپختونخوا کے بے فکر وزیراعلیٰ

وزیراعظم اب اس مرحلے پر خیبرپختونخوا کی ٹیم کے کپتان کو بدلنے کی غلطی نہیں کریں گے


احتشام بشیر September 16, 2021
وزیراعظم اب اس مرحلے پر خیبرپختونخوا کی ٹیم کے کپتان، وزیراعلی محمود خان کو بدلنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ (فوٹو: فائل)

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جسے مسلسل دوسری بار صوبے میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ اس سے قبل سیاسی جماعتیں حکومتیں بناتی رہیں لیکن مسلسل حکومت بنانے کا موقع کسی سیاسی جماعت کو نہ مل سکا۔

2013 کے انتخابات کی سیاسی فضا سے تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات معلوم ہورہے تھے۔ اگرچہ مرکز میں تحریک انصاف کو کامیابی نہ مل سکی لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو پہلی بار حکومت بنانے کا موقع ملا اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر پرویز خٹک کو حکومت بنانے کی کمان دی گئی۔ وہ وزیراعلیٰ بنے اور انہوں نے ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہونے کا ثبوت دیا۔

اگرچہ ان کے دور حکومت میں وزراء کے درمیان ان بن چل رہی تھی لیکن پرویزخٹک نے کابینہ کے معاملات کو سنبھالے رکھا۔

2018 کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو کامیابی ملی تو خیال یہی کیا جارہا تھا کہ پرویزخٹک دوسری بار وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کرلیں گے لیکن جب تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت بنانے کےلیے ایم این ایز کی ضرورت پڑی تو صوبے میں قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے والوں کو بھی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنا پڑی اور پرویزخٹک کے ساتھ اسپیکر اسد قیصر اور وفاقی وزیر علی امین بھی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر وفاق کا حصہ بن گئے۔

صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے سے قبل وزات اعلیٰ کی دوڑ میں پرویزخٹک کے بعد اسد قیصر اور عاطف خان بھی شامل تھے۔ وزارت اعلیٰ کے معاملے پر اس وقت دو واضح گروپ سامنے آچکے تھے۔ پرویزخٹک اورعاطف خان کے درمیان جوڑ پڑ گیا تھا۔ پرویزخٹک اور اسد قیصر وفاقی حکومت کا حصہ بننے کے باوجود، پرویزخٹک عاطف خان کو وزیراعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں تھے۔

وزارت اعلیٰ کی طویل جنگ میں موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان کے بارے میں کسی کو معلوم بھی نہیں تھا کہ قرعہ ان کے نام نکلے گا۔ جب معاملہ سنگین ہوا تو تیسرے پر اتفاق کیا گیا اور 8 اگست کو تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے وزیراعلیٰ کےلیے محمود خان کے نام پر اتفاق کیا گیا۔

اس وقت بھی خیال یہ کیا جارہا تھا کہ محمود خان، پرویزخٹک کے کیمپ کا حصہ ہیں اور پرویزخٹک ماضی کی طرح اپنی سیاسی چال چلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

وزیراعلیٰ محمود خان کو صوبے کے مسائل کے ساتھ کابینہ میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ اپنی ٹیم کی کارکردگی کے لیے محمود خان کو متعدد بار کابینہ میں تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ وزیراعلیٰ محمود خان سمیت وزیراعظم عمران خان بھی یہ باور کراچکے تھے کہ کابینہ میں وہی کام کرے گا جس کی کارکردگی اچھی ہوگی۔

تین سالہ دور میں وزراء کے قلمدان بھی تبدیل کیے گئے، وزراء کو فارغ بھی کیا گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ڈی آئی خان سے رکن اسمبلی فیصل امین گنڈا پور گزشتہ چار ماہ سے بے محکمہ وزیر ہیں۔ انہیں اب تک کوئی محکمہ نہیں دیا گیا۔ کابینہ میں شامل وزراء سے بات ہو تو وہ بھی اپنی وزرات کے حوالے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ غیر رسمی گفتگو میں وزراء سے یہی سنا جاتا ہے کہ معلوم نہیں کب ان کا محکمہ تبدیل کردیا جائے یا انہیں فارغ کردیا جائے۔

عاطف خان، شاہرام خان تراکئی اور شکیل خان کو کابینہ سے فارغ کردیا گیا لیکن حکومتی سطح پر ان تین وزراء کو نکالنے کی وجہ بتائی نہیں جاسکی۔ جب بھی کسی وزیر کا محکمہ تبدیل کیا جاتا یا کسی وزیر کو محکمے سے فارغ کیا جاتا ہے تو یہی بیان داغ دیا جاتا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر فیصلہ کیا گیا ہے۔

جب عاطف خان، شاہرام خان اور شکیل خان کو کارکردگی کی بنیاد پر نکالا گیا تو کیا سوال اٹھائے گئے کہ کیا ان کی کاکردگی بہتر ہونے پر انہیں کابینہ میں واپس لیا گیا؟

کرکٹ ٹیم میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی مسلسل بہتر پرفارمنس نہ دے تو اسے تبدیل کرکے دوسرے کھلاڑی کو کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ٹیم کی مسلسل خراب پرفارمنس پر کپتان کو بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے اور ٹیم کی پرفارمنس کیسے بہتر بنانی ہے، وزیراعظم عمران خان سے بہتر کون جاتا ہے؟

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی دوسری حکومت کو تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے حکومتی کارکردگی پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ وزیراعلیٰ محمود خان کو اپوزیشن کے علاوہ اپنی ٹیم سے بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے حوالے سے وزیراعظم کو شکایات کی جاتی رہیں، اسی وجہ سے حکمران جماعت سے بھی یہ آوازیں سننے کو ملیں کہ خیبرپختونخوا ٹیم کے کپتان کو تبدیل کیا جارہا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔

محمود خان کو وزیراعظم عمران خان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ وزیراعظم اب اس مرحلے پر خیبرپختونخوا کی ٹیم کے کپتان کو بدلنے کی غلطی نہیں کریں گے چاہے انہیں محمود خان کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اس مرحلے پر عام انتخابات میں دو سال کا عرصہ رہ گیا ہے اور اسی قیادت کے ساتھ انہیں اگلے انتخابات کی تیاری کرنا ہوگی۔

اگرچہ صحت انصاف کارڈ کے علاوہ صوبائی حکومت عوام کو بڑا ریلیف نہیں دے سکی لیکن وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ محمود خان کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائے رکھیں گے۔

وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلیٰ محمود خان کو گرین سگنل ملنے کے بعد اب مخالف دھڑے نے بھی خاموشی اختیار کرلی ہے؛ اور اب محمود خان کھل کر وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔

اسی لیے وزیراعلیٰ اپنی پسند کی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں۔ کابینہ میں حالیہ تبدیلی کے بعد اب کچھ وزراء کے محکمے بھی تبدیل کیے جانے کا امکان ہے اور نئے چہروں کو کابینہ میں شامل کیا جارہا ہے۔

کابینہ کے مکمل ہونے پر حکومتی جماعت اب دو سال اگلے الیکشن کی تیاری میں گزارے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں