زرعی ملک میں اجناس کی قلت اور مہنگائی

ملک میں فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین مسائل پیدا ہو چکے ہیں حکومت اور عوام کو قومی ذمے داری کا ثبوت دینا چاہیے۔

ملک میں فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین مسائل پیدا ہو چکے ہیں حکومت اور عوام کو قومی ذمے داری کا ثبوت دینا چاہیے۔ (فوٹو:فائل)

RAWALPINDI:
عمران خان نے فلور ملوں کو گندم کی ریلیز پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرکے انھیں تقریباً 32 فیصد اضافے کے ساتھ 1950روپے فی 40 کلوگرام کے حساب سے گندم جاری کرنے کی اجازت دیدی ہے، جس سے آٹے کی قیمت میں بھاری اضافہ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، جب کہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ''احساس پروگرام کے تحت آٹا، چینی اور دیگر ضروری اشیا پر اسی ماہ سبسڈیز دیں گے۔

2018 میں ایک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 104روپے تھی جو اب 170 روپے کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ کسانوں کو صحیح قیمتیں دینے کے لیے آڑھتی کا کردار ختم کرنے جارہے ہیں،کسان سے لے کر ریٹیلر تک قیمتوں کا تعین کر رہے ہیں ملکی معیشت مستحکم ہوچکی ہے، رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 8 فیصد تک رہے گی۔''

اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری کا پاکستانی عوام کو سامنا ہے، حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے، ملک بھر میں مہنگائی کا سونامی آچکا ہے، رواں برس ملک میں گندم کی27 ملین ٹن بمپر فصل ہوئی ہے لیکن اسٹرٹیجک ذخائرکے لیے30لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، آج ہم غذائی قلت کا شکار ملک بن چکے ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی، جاگیرداروں اور تجارتی مافیا کا گٹھ جوڑ اور مارکیٹ کا اتار چڑھاؤ، ان سب محرکات کا قریبی تعلق اجناس، پھلوں اور سبزیوں کی مہنگائی سے ہے۔

اس وقت جب کہ ہم صرف توانائی بحران کی بات کرتے ہیں، زراعت اور آنے والے طوفان کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے، اس وقت ملک میں گندم، چینی، سبزیوں اورکھانے کے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ چینی مافیا مارکیٹ کو پوری طرح کنٹرول کرنے میں مصروف ہے، جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح شوگر ملوں کے مالکان اور مارکیٹ تاجر مل کر اپنے منافعے میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جس کا خمیازہ غریب اور متوسط طبقوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اجناس کی مانگ پیداوار سے کہیں زیادہ ہے جس کے نتیجے میں حکومت کو اجناس دوسرے ملکوں سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔

دوسری جانب وفاقی کابینہ نے تمام اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دس فیصد ایڈہاک الاؤنس دینے کی سمری مسترد کردی ہے، ایک طرف تو ملک شدید ترین معاشی مشکلات کا شکار ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، لیکن عوامی نمایندے اپنی مراعات میں بے پناہ اضافے کے خواہش مند ہیں اور یہ واحد بات ہے جس پر تمام اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی اراکین میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور وہ موقع ملتے ہی اپنی مراعات و تنخواہوں میں اضافہ کرلیتے ہیں، جو لوگ عوامی نمایندگی کے دعوے دار ہیں، ان کا یہ عمل کسی بھی طور پر عوامی امنگوں کے مطابق نہیں ہے۔

وطن عزیز میں بڑے زمیندار اب بھی غریب مزارعوں پر مسلط ہیں اور انھوں نے قیامِ پاکستان سے ہماری سیاست کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ ملک ان لوگوں کے نزدیک ایک کھیل تماشہ ہے بلکہ پاکستان کی سیاست ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ ایک ہی خاندان کے افراد نسل در نسل اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ یہ خاندان آپس میں ہی رشتے داریاں کرتے ہیں۔ پاکستان اس وقت پوری طرح چند سو جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور یہ اپنے مفادات اور مراعات کے لیے ایک پیج پر ہیں جب کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔

پاکستان کبھی زرعی شعبے میں خود کفیل تھا اور زرعی پیداوار کی برآمد ملکی زرمبادلہ کا ایک اہم حصہ تھی۔ اب یہی ملک اجناس دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے، سبزیاں، پھل اور اجناس کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی ڈالرکی قیمت میں ہوشربا اضافہ اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی مہنگائی میں اضافے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کو بلاشبہ ایک ایسا ملک قرار دیا جا سکتا ہے جو زرعی تنزلی کی ایک مثال بن کر رہ گیا ہے کیونکہ ہمارے پالیسی سازوں نے زراعت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔

مسلم ممالک میں ترکی اور مصر جو کہ ہم سے پیچھے تھے اب بہت آگے نکل چکے ہیں اور تھائی لینڈ جیسا پسماندہ ملک بھی اب زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا ہے۔ بھارت کی تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی کی خوراک ضروریات پورا کرنے کے ساتھ برآمدات سے کثیر زرمبادلہ کی کمائی بھارتی پنجاب کی مرہون منت ہے۔

ہمارے ہاں زرعی شعبہ کسی بھی حکومت کے لیے اولین ترجیح نہیں رہا ہے، پاکستان کی تمام حکومتوں نے صنعت و تجارت کو مستحکم کرنے کے لیے کام کیا، دیہی ترقی کے بجائے شہری نظام پر توجہ دی گئی، لیکن ان ترجیحات کے لیے زراعت کو پس پشت ڈال دیا گیا جو ایک بڑی اور سنگین غلطی تھی اور موجودہ حکومت نے بھی اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی اس پیشے سے منسلک ہے۔


کپاس کی خوفناک حد تک کم پیداوار قومی المیہ ہے اگر اس پر بھر پور توجہ نہ دی گئی تو ہماری ساری ٹیکسٹائل انڈسٹری زمین بوس ہو جائے گی اور اس سے جو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس سے بھی محروم ہو جائیں گے اور لاکھوں کی تعداد میں مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔

شوگر مافیا نے کاٹن کے لیے بہترین پیداوار دینے والی زمینوں پر گنا کاشت کرکے کاٹن کی تباہی کردی ہے۔ شوگر مافیا ہر سیاسی جماعت کے اندر اہم عہدوں پر فائز ہے، حکومت کی تبدیلی سے شوگر مافیا متاثر نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان گنا پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا، مگر پاکستان کو اب برازیل،بھارت، تھائی لینڈ اور چین نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آم کی پیداوار میں بھی پاکستان سب سے آگے تھا، مگر اب بھارت، انڈونیشیا، چین اور میکسیکو نے پاکستان پر سبقت لے لی ہے۔

پاکستان کا پنجاب جہاں فصلیں لہلہاتی تھیں، اب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی آماج گاہ بن رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب میں ہے، خاص طور پر فیصل آباد، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان وغیرہ میں لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین ضایع ہو رہی ہے، جس پر رہائشی سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت اچھی زرخیز زمین سیم و تھور کا شکار ہو کر بیکار ہوتی جا رہی ہے۔

ہم تمام زرخیز اور قابلِ کاشت زمینوں پر عمارتیں بنا رہے ہیں اور پھر چند سال بعد فصلیں اگانے کے لیے زمین ہی نہیں ملے گی۔ زرعی اراضی پر تعمیرات سنگین جرم کے زمرے میں آنا چاہیے، مگر دھڑلے سے تعمیرات جاری ہیں اور حکومت مستقبل سے بے خبر تماشا دیکھ رہی ہے۔

ترقی پذیر ممالک خاص طور پر ہمارے اپنے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو زراعت، باغبانی، خوراک سے متعلق ٹیکنالوجی اور ان چیزوں سے متعلق اچھی تعلیم و تربیت دی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو معاشیات و انتظامات کی تعلیم دی جائے جس کا تعلق زراعت، خوراک اور ان سے متعلق صنعتوں سے ہے، اگر ہمیں مستقبل میں غذائی قلت سے بچنا ہے تو زراعت پر دھیان دینا پڑے گا۔

پاکستان کی آباد ی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن زرعی پیداوار بہت سست رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ آبادی اور زرعی پیداوار کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ خلیج ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش' سری لنکا' بھارت' ملائیشیا، انڈونیشیا نے اپنی اپنی آبادیوں میں اضافہ کو روک لیا ہے ہمارے ہاں عوام اور حکومت کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ سرے سے نہیں ہے جب کہ زرعی شعبوں میں ہماری تحقیق و تدریس نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے نتیجے میں بیجوں کی بہتر اقسام پر تحقیق کم ہوئی اور زرعی ٹیکنالوجی میں نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی۔

اس کے علاوہ زرعی یونیورسٹیوں، تحقیقی مراکز اور ایکسٹینشن کے اداروں کے درمیان رابطے قائم نہیں کیے گئے۔ اس تعاون کی عدم موجودگی میں کسانوں تک نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اور زرعی شعبوں میں جدت اور سائنسی بنیادوں پر نئے رجحانات کا فقدان ہے۔

پیشگی منصوبہ بندی، انتظامی اصلاحات اور بدعنوانی کی روک تھام کے ذریعے ہم زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت اس قیمتی اثاثے کو بہتر تعلیم اور تحقیقی علوم سے آراستہ کیا جا سکتا ہے، یہی تربیت یافتہ نوجوان زرعی ترقی کا اہم ستون بھی بن سکتے ہیں۔

ملک میں فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین مسائل پیدا ہو چکے ہیں حکومت اور عوام کو قومی ذمے داری کا ثبوت دینا چاہیے، زرعی شعبے کو مہمیز لگانے کی اشد ضرورت ہے زراعت واحد ایسا شعبہ ہے جو کم از کم مدت میں معجزے برپا کر سکتا ہے۔ زرعی شعبے کے احیاء کے لیے جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے اگر ہم نے کوتاہی کا ارتکاب کیا تو پھر ہم غربت، افلاس اور بھوک سے نہیں بچ سکتے۔
Load Next Story