رشوت ہی رشوت
سلام دعا تک نوبت نہیں پہنچی کہ سامنے سے مطالبہ آ گیا، انگوٹھے اور داہنی انگلی کو رگڑ کر سوال کردیا۔
حالت یہ ہوگئی ہے کہ جس محکمے جائیں، جس ڈپارٹمنٹ میں جائیں ابھی کام بھی نہیں بتایا تعارف بھی نہیں ہوا ، سلام دعا تک نوبت نہیں پہنچی کہ سامنے سے مطالبہ آ گیا ، انگوٹھے اور داہنی انگلی کو رگڑ کر سوال کردیا۔
مطلب جیب میں کچھ ہے تو رکو ورنہ چلو، ہمارا ٹائم برباد نہ کرو۔ پھر ان سے درخواست کی کہ سن تو لیں بھائی آنا کس مقصد سے ہوا تاکہ رشوت کی مقدار تو طے ہو تب انھوں نے مجبوراً کہا اچھا بیٹھو کام سنتے ہی ان کی آنکھیں چمکنے لگیں جھٹ سے کہا تو ایسے بولو نہ بابا کام ہوجائے گا اور ایسا کرکے دوں گا آپ خود بھائی کو دعا دو گے ، اور واقعی وہ صحیح کہہ رہا ہوتا ہے کام جھٹ پٹ میں ہوجاتا ہے۔ یہ حال ہے ملک کا ہر آفس میں یہی ہورہا ہے اب کسی کے پاس پیسے ہیں تو کام کروا لے، ورنہ میری طرح کہیں بیٹھ کر کالم لکھتا رہے یا کڑھتا رہے اور اللہ سے گڑگڑا کر نظام کی بربادی کی بد دعائیں کرتا رہے قدرت سے گلے شکوے کرتا رہے ،کسی انقلابی کا انتظار کرے۔
ایک دوست نے بتایا کہ اس کے مکان کا city survey astract پرانا ہوگیا تھا اس نے سوچا نیا نکلوا لیا جائے وہ سٹی سروے آفس گیا اور اپنا مدعا آفیسر سے بیان کیا ایک درخواست بھی بمعہ شناختی کارڈ جمع کروائی۔ افسر نے مسئلہ سن کر بغور دوست کا جائزہ لیا اورکہا کام ہوجائے گا فیس جمع کروا دیں۔
دوست کے سوال کرنے پر کہ کتنی فیس ؟ آفیسر نے کہا دس ہزار ، یہ سن کر دوست کی سٹی گم ہوگئی۔ اس نے پوچھا لیکن فیس تو سو روپے100ہوتی ہے یہ 10000 کس بات کے ہیں بھائی ؟ آفیسر نے جواب دیا '' تمہاری پراپرٹی ایک کروڑکی ہے ابھی اتنا تو لگے گا۔ بقول دوست کے اس نے کئی متعلقہ فورمز پر اس افسر کی شکایت کی لیکن بس اتنا ہی فائدہ ہوسکا کہ اوپر کے 9900میں سے 3000کی رعایت ہوگئی سات ہزار تو دینے ہی پڑے۔ اسی طرح کی ان گنت مثالیں ہیں ، جن میں سے کئی ایسی بھی ہیں جو رلا دینے والی ہیں۔
مثلاً میں ایک دفعہ ایک پرائیوٹ اسپتال میں تھا تو میں نے ایک فیملی کو ہنگامی حالت میں ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے دیکھا وہ ایک نوجوان کو اسٹریچر پر لائے تھے غالبًا اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا ان میں سے ایک بزرگ خاتون نے قدرے چیخ کرکہا ''کوئی ہے میرے بیٹے کو بچاؤ اسے دل کا دورہ پڑا ہے'' اس کی چیخ نما آواز پر وارڈ بوائے آئے اور انھوں نے بڑے تحمل سے خاتون کو مشورہ دیا کہ وہ کاؤنٹر پر جائیں اور فیس جمع کروائیں۔ خاتون کے ساتھ ان کی دو بیٹیاں بھی تھیں انھوں نے درخواست کی کہ وہ گھر سے اچانک نکلے ہیں لہٰذا رقم ساتھ نہ لاسکے۔
پلیز ان کے بھائی کو ایڈمٹ کرلیا جائے وہ کچھ ہی وقت میں رقم جمع کروا دیں گے لیکن اسپتال کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ بعد میں جب بل دیا جاتا ہے تو آپ لوگ بلیک میل کرتے ہیں اور ادائیگی نہیں کرتے اور بدقسمتی سے اسی بحث و تکرار کے دوران نوجوان کا انتقال ہوگیا۔
وہ تینوں خواتین صدمے سے بے ہوش ہوگئیں کیونکہ وہ ان کا اکلوتا بھائی تھا ، اگرچہ اسپتال کے لوگ رشوت نہیں مانگ رہے تھے لیکن ان کی بے حسی حد سے سوا تھی۔ بالخصوص سرکاری محکموں میں رشوت کے نام پر جس لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس پر کوئی ایکشن لینے والا نہیں ، کیونکہ جنھیں ایکشن لینا ہے انھی کے ایماء پر تو رشوت لی جا رہی ہے ، نظام کیسے بدلے گا ؟
ہر ایک مقام پر رشوت ہے اور یہ اس قوم سے لی جارہی ہے جس کا پہلے ہی مہنگائی سے بھرکس نکلا ہوا ہے وہ بے چارے موت سے خوفزدہ نہیں ہیں وہ تو جینے سے ڈرتے ہیں۔ ہر ماہ مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے اس نعرے کے ساتھ کہ ملک تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے اور اوپر کی سطح پر یہ رشوت کروڑوں، اربوں کھربوں میں لی جاتی ہے ہر حکومت نے کرپشن کی کوئی بھی پاک دامن صاف دامن نہ نکلا۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ سیاستدان مہینوں سالوں میں کیسے ارب پتی ہوجاتے ہیں؟ ساری دنیا میں محلات رکھنا ظاہر ہے کہ یہ وہی رشوت ہے جو ایک مظلوم قوم کا خون چوس کر تعمیر کی گئی ہیں۔
ایک شخص جو پاکستانی ہے ہر سال 14 اگست بڑے جو ش و خروش سے مناتا ہے۔ جشنِ آزادی میں اپنا گھر سجاتا ہے اس کے بچے آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے۔ اسی شخص کے لیے اسی کے ملک میں زندگی اجیرن کیوں ہے؟ اسی پر سارے قانون کیوں لاگو ہوتے ہیں اگر اس سے غربت ، مفلسی ، بھوک کے باعث کوئی چھوٹا موٹا جرم ہو جاتا ہے تو اس کے لیے کوئی NRO کیوں نہیں بن سکتا ؟
وہ جہاں اپنا جائزکام لے کر جاتا ہے پہلے تو اس کی تحقیرکی جاتی ہے اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اس ملک کی سر زمین پر ایک بے وقعت انسان ہے پھر اس کام کی وہ رشوت طلب کی جاتی ہے جو وہ دے نہیں سکتا۔ یہ کیسا نظامِ زندگی ہے کیسا عدل ہے؟ کیا پاکستان صرف امراء کا ملک ہے کیا یہاں صرف طاقتور جی سکتے ہیں؟
میں نے بہت سے بڑے شہروں کے گرد و پیش وہ کچی بستیاں دیکھی ہیں جہاں زندگی سسکتی ہے جہاں موت کا سناٹا ہر آنکھ سے عیاں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں کراچی سے اپنے آبائی شہر نواب شاہ جا رہا تھا میرے پاس کار میں کھانے پینے کی کچھ اشیاء بھی تھیں ، جن کے لیے میرا خیال تھا کہ میں راستے میں کسی ضرورت مند کو دے دوں گا لیکن سہراب گوٹھ تک مجھے کوئی نہیں ملا۔
جب میں سہراب گوٹھ پہنچا تو میں نے کچھ بچے جو اپنی کمروں پر تھیلے اٹھائے ہوئے تھے ایک کوڑے کے ڈھیر سے کچرا اٹھا کر اپنے تھیلوں میں بھر رہے تھے میں کار ان کے قریب لے گیا اور انھیں آواز دیکر وہ کھانے کے پیکٹ دکھائے ، بچوں نے آواز پر میری جانب دیکھا اور میری سمت دوڑ لگادی۔
وہ ایک جنونی انداز میں میری طرف بھاگے چلے آرہے تھے لگتا تھا صدیوں سے بھوکے ہیں اور قریب آتے ہی انھوں نے مجھ پر باقاعدہ حملہ کردیا ہر ایک میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھیلا چھیننا چاہتا تھا جیسے آج یہ کھانا انھیں نہیں ملا تو قیامت آجائے گی اور مجھے یاد ہے کہ وہ 14اگست کا دن تھا۔ میں جیسے تیسے وہاں سے نکلا اور میں نے دیکھا کہ کراچی سے نواب شاہ تک سارے راستے قومی پرچموں سے سجے تھے ، ہر طرف ترانے بج رہے تھے لیکن مجھے اس دن ایسا محسوس ہوا کہ آج پرچم پر بہت سے آنسو بھی ہیں۔