مزدور رہنما عثمان غنی شہید
سعید غنی کا شمار الحمد للہ اس وقت ملک کی سیاست کے انتہائی فعال متحرک اور ترقی پسند رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
ہر سال ستمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ذہن میں چند سانحات اور نا خوشگوار یادیں تازہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ 11 ستمبر 1948 کو مسلمانان ہند کے سب سے بڑے قائد بیرسٹر محمد علی جناح ہم سے جدا ہوئے اور ایک نوزائیدہ مملکت اور اس کے عوام آزاد ہوتے ہی بے آسرا ہوگئے۔
یہ 11 ستمبر 2012 ہی کا منحوس دن تھا کہ جب علی انٹر پرائز سائٹ بلدیہ ٹاؤن میں ایک سانحہ وقوع پذیر ہوا جس میں 260 بے گناہ مزدور کارخانہ کی قید خانہ جیسی عمارت میں پھنس کر جل کر شہید ہوگئے اور ہمارے ملک کی انتظامی صلاحیتوں پر ہمیشہ کے لیے ایک انتہائی بدنما داغ چھوڑ کر ہم سے جدا ہوگئے۔
9/11 ورلڈ ٹریڈ ٹاور کا نا قابل فراموش واقعہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ جو بحر کیف انسان تھے ہلاک ہوئے ،افغانستان پر امریکی افواج حملہ آور ہوئی، دہشت گردی میں شدت پیدا ہوئی اور افغانستان اور پاکستان میں اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ زندگی کی بازی ہار بیٹھے، جس کا سلسلہ خدا کرے کہ اب اختتام کو پہنچے۔
تاریخ میں ستمبر کے مہینہ میں ہمیں کئی ایسی شخصیات کے نام بھی ملتے ہیں کہ جن کے بچھڑ جانے سے معاشرہ غم واندوہ سے سوگوار ہو جا تا ہے۔ مزدور رہنماؤں نے اس ملک میں محنت کش عوام کے حقوق کی جنگ میں حصہ لیتے ہوئے قید و بند کی طویل صعوبتیں برداشت کیں ، ان کے خاندان معاشی تباہی و بربادی کے شکار ہوئے لیکن انھوں نے جدوجہد کے راستہ کو کبھی ترک نہیں کیا۔ ان مزدور رہنماؤں میں ایک بہت بڑا نام عثمان غنی شہید کا ہے کہ جنھوں نے اس جد و جہد میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ آج ان کی 26 ویں برسی ہم منا رہے ہیں۔
عثمان غنی بنیادی طور پر پاکستان کی مزدور تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ انھوں نے اپنی ملی زندگی کا آغاز بینک ملازمت اختیار کر نے سے کیا۔ سوچ اور فکر کے اعتبار سے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے شدید ترین مخالفین میں سے تھے۔ ان کی محنت کش طبقہ سے والہانہ وابستگی کی بنیاد پر وہ 1972 میں بینک اسٹاف یونین کے مرکزی صدر منتخب ہو گئے اور پھر اس طرح ان کی جد و جہد سے بھر پور زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ انھوں نے ملازمین کے مفادات کی جنگ کو ہمیشہ دلیری کے ساتھ لڑا۔ اپنے ادارہ مسلم کے ملازمین کے حقوق کے لیے انھوں نے جو جد و جہد کی وہ نا قابل فراموش ہے۔
ملازمین کے مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہ کر نے کے الزام میں ان کی پہلی گرفتاری 1973 میں اس وقت عمل میں آئی کہ جب وہ ملازمین کے لیے پرافٹ بونس کے حصول پر زور دینے کے لیے ایک احتجاجی جلسہ عام سے بینک کے مرکزی ہال میں خطاب کر رہے تھے۔
بینک انتظامیہ کی ایما پر پولیس فورس لاٹھی چارج کرتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ گئی اور رات کی تاریکی میں انھیں سینٹرل جیل کراچی منتقل کر دیا گیا۔ عثمان غنی نہ صرف یہ کہ مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک تھے بلکہ ان کی جد و جہد کے نتیجہ میں انھیں پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہوا۔ شہید عثمان غنی ٹریڈ یونین تحریک میں بھر پور حصہ لینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوری سیاست کے بھی ایک انتہائی فعال متحرک رہنما تھے۔
انھوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بھر پور حصہ لیا اور اس ضمن میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ان کی جمہوری تحریک کے لیے خدمات کو محترمہ شہید بے نظیر بھٹو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور انھوں نے انھیں دو مرتبہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ سے بھی نوازا تھا۔ شہید عثمان غنی نہ صرف یہ کہ ڈکٹیٹرز اورمسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں مزدور طبقہ کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ خود اپنی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی محنت کشوں کے مفادات پر سمجھوتہ کے بجائے جیل جانے کوترجیح دیتے تھے۔
ان کی زندگی کی آخری گرفتاری فروری 1991 میں اس وقت عمل میں آئی کو جب پاکستان کی 160 سے زائد قومی ملکیتی ادارہ جات کی سی بی اے یونینز نے پرائیویٹائزیشن کے خلاف ایک ایکشن کمیٹی بنا کر ایک دن کی پورے ملک میں مکمل ہڑتال کی ، اسی پاداش میں شہید عثمان غنی اور راقم الحروف کو کئی ماہ تک جیل میں پابند سلاسل رکھا گیا، اس عرصے میں حکومت وقت نے بینک کو پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں بیچ دیا۔ اب حالات تبدیل ہو چکے تھے۔
ادارہ کے ملازم دشمن ماحول اور پرائیویٹ بینک انتظامیہ کے مزدور دشمن رویہ کے باوجود عثمان غنی نے انتہائی تحمل اور بردباری سے کام لیا، نئے حالات کو سمجھا، نئی حکمت عملی مرتب کی محنت کشوں کی بکھری ہوئی وقت اور ٹریڈ یونین کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر کے محنت کشوں کو دوبارہ متحد کر لیا اور انتہائی مختصر عرصہ میں اپنے بینک میں ٹریڈ یونین کو ایک مرتبہ پھر نا قابل تسخیر قوت کے طور پر کھڑا کردیا۔
عثمان غنی اپنی زندگی کے ایک نئے اور پر عزم دور کا آغاز کر چکے تھے لیکن مزدور تحریک اور جمہوری نظام کی دشمن قوتیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ اور ہی عوام دشمن فیصلہ کر چکی تھیں۔ یہ 17 ستمبر 1995 کی ایک منحوس صبح کا واقعہ ہے کہ شہید رہنما اپنی رہائش گاہ چنیسر گوٹھ سے اپنے دفتر کے لیے روانہ ہوئے جونہی ان کی کار کالا پل کے وسط میں پہنچی تو نامعلوم سفاک قاتلوں نے حملہ کر دیا اور مزدوروں کے اس بے لوث رہنما کو محنت کشوں سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون )۔
گو کہ شہید عثمان غنی اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یاد اور ان کی قربانیاں جو کہ انھوں نے اس معاشرہ میں مزدوروں کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے دیں وہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گی۔ مزدور طبقہ کے لیے ایک یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ جد و جہد اور قربانیوں کے جس الم کو عثمان غنی نے بلند کیا تھا اسے ان کے فرزند سعید غنی نے تھام لیا ہے۔
سعید غنی کا شمار الحمد للہ اس وقت ملک کی سیاست کے انتہائی فعال متحرک اور ترقی پسند رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ بحسن خوبی پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر اور صوبائی وزیر محنت و اطلاعات کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ہم مزدور طبقہ کی جانب سے شہید کے فرزند کی کامیابی کے لیے ان کے شانہ بشانہ اور دعا گو بھی ہیں۔