پاکستان ریلوے
قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں تین مختلف براڈ گیج، میٹر گیج، بیروگیج تین ریلوے لائن استعمال ہوتی تھیں۔
کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر 13 مئی 1861 میں افتتاح ہوا ، 24 اپریل 1865 کو لاہور، ملتان ریلوے لائن کو آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔
6 اکتوبر 1871 کو دریائے راوی، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر ریلوے پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی۔ لاہور، جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا، یکم جولائی 1878کو لودھراں، پنوعاقل 334کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 27 اکتوبر 1878 کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو، لاڑکانہ ریلوے لائن کو ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔
سکھر سے سبی تک ریلوے پٹری بچھانے کا کام 20 جنوری 1880 میں مکمل ہوا۔ 10 اکتوبر میں جہلم، راولپنڈی 115 کلومیٹر ریلوے کو ریلوے کی آمد و رخصت کے لیے کھول دیا گیا۔ یکم جنوری 1881 کو راولپنڈی، اٹک کے درمیان 71 کلومیٹر ریلوے لائن کھول دی۔ یکم مئی 1882 کو خیرآباد کنڈ پشاور 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن مکمل ہوگئی۔
31 مئی 1883 کو دریائے سندھ پر پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور سے راولپنڈی بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 1885 تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیز سندھ ریلوے، انڈین یلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے، دہلی ریلوے کام کرتی تھیں۔
1882میں نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے کی بنیاد رکھی جس کا بعد میں نام نارتھ ویسٹرن ریلوے کردیا گیا۔ مارچ 1887 کو سبی کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔ 25 مارچ 1889 کو روہڑی اور سکھر کے درمیان بیلنس ڈاؤن پل کا افتتاح ہوا۔ اس پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی، پشاور سے بذریعہ ریلوے منسلک ہو گیا۔
15 مئی 1892 کو روہڑی، حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے پٹری کا افتتاح ہوا۔ 25 مئی 1900 کو کوٹری پل اور آٹھ کلو میٹر طویل کوٹری، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہوئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہوجانے کے بعد پاکستان ریلوے کراچی، پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہوگئی۔
نارتھ ویسٹرن ریلوے کو فروری 1921میں پاکستان ویسٹرن ریلوے اور پھر 1974 میں پاکستان ریلوے میں تبدیل کردیا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں تین مختلف براڈ گیج، میٹر گیج، بیروگیج تین ریلوے لائن استعمال ہوتی تھیں۔ اب صرف براڈ گیج ریلوے لائن استعمال ہوتی ہیں تاہم تقریباً 389 کلومیٹر پر اب بھی میٹرگیج ریلوے لائن موجود ہیں۔
اسٹیشنز پر ریل گاڑی 95 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے داخل ہوتی ہے جب کہ بعض جنکشن پر ٹرین 1.5 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی چلتی ہے۔ حیدرآباد، لودھراں تک ٹرین 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ ایمرجنسی بریک ٹرین کو روکنے کے لیے کم از کم ٹرین کو روکنے کے لیے 2 منٹ کا وقت ہوتا ہے اور ٹرین ایک سے دوکلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے رکتی ہے۔
ریل گاڑی میں دو طرح کے بریک ہوتے ہیں جن میں ایک ایئر بریک دوسرا امیکوم بریک شامل ہے۔ حاصل کیے گئے امریکن انجنوں میں ایئربریک اسے زیادہ اچھا بریک سمجھا جاتا ہے۔ ریلوے نے میل ایکسپریس، بڑے روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کو ایئر بریک پر منتقل کردیا ہے۔
ڈرائیور ہر ڈویژن پر تبدیل ہوتا ہے مثلاً کراچی سے ریل گاڑی میں فرائض انجام دینے والے ملازمین روہڑی اسٹیشن پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح روہڑی اسٹیشن کا اسٹاف ملتان اسٹیشن پر تبدیل ہو جاتا ہے اسی طرح ملتان سے ٹرین پر چڑھنے والا عملہ راولپنڈی اور پھر وہاں سے چلنے والا اسٹاف آخری اسٹیشن پشاور پر تبدیل ہوتا ہے۔ مختلف شعبہ جات ہیں جو ریلوے کو چلا رہے ہیں۔
ٹریفک برانچ میں ٹرین انجن اور ڈرائیور ہوتے ہیں، سگنل برانچ ریلوے سگنل دیکھتی ہے اس کی بڑی ذمے داری ہوتی ہے کیونکہ ٹرین انجن ڈرائیور سگنل کے اشارے پر چلتا ہے۔ ٹریڈر ویگن برانچ سے متعلق گاڑیوں میں مال گاڑی کے معاملات کو دیکھتی ہے انتظامی طور پر محکمہ ریلوے کو تین حصوں آپریشن، مینوفیکچرنگ اور ویلفیئر شامل ہیں۔
آپریشن ڈویژن کو مزید تین ذیلی شکلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انفرا اسٹرکچر، مکینکل انجینئرنگ، ٹریفک ڈپارٹمنٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر محکموں کو چھوٹے چھوٹے شعبے ہیں جن میں مختلف امور ہیں پلاننگ لیگل آفیسر، پبلک ریلیشنز، ریلوے اکیڈمی و دیگر شعبے شامل ہیں۔
تمام شعبوں کی نگرانی آپریشن یونٹ کی ہے محکمہ ریلوے کی رول بک اپنے جلی حروف میں محکمہ کو سخت تاکید کی گئی ہے کہ مسافروں کو نرم لہجے میں ڈیلنگ کی جائے اور جس قدر ہو سکے مسافروں کا سفر آسان بنائیں۔ دوسرا نقطہ ہے کہ خصوصی خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے خیال رکھا جائے۔ ان سے باعزت طور پر برتاؤ کیا جائے۔اگر مسافروں کی مدد کے لیے طلب کیا جائے تو ریلوے کا عملہ تیار رہتا ہے۔ ریلوے پولیس کے ذریعے مسافروں کی شکایت کا ازالہ کریں۔
تیسرا نقطہ میں تحریر کیا گیا ہے کہ اسٹیشن منیجر سپرنٹنڈنٹ ٹرین کی جانچ کرنے والے ذمے دار افسران یا دیگر افسران پہلے اسٹیشن جہاں سے ریل گاڑی رزانہ چلنا شروع ہوتی ہے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ریل گاڑی کے تمام ڈبے صاف ستھرے ہیں، باتھ رومز میں پانی موجود ہے، پنکھے اور بلب ٹھیک ہیں، ایئرکنڈیشن درست حالت میں کام کر رہا ہے، ٹرین کی صفائی کسی بھی مسافر ٹرین کی مکمل صفائی کی جاتی ہے۔
ٹرین کی دھلائی کے لیے ایک الگ سے شعبہ موجود ہے جسے واشنگ یارڈ واشنگ لائن کہا جاتا ہے جس میں ٹرین کی مکمل دھلائی و صفائی ہوتی ہے۔
سک یارڈ جہاں ڈبے کی کوئی خرابی ہوتی ہے وہاں کھڑا کردیا جاتا ہے مکینیکل الیکٹریکل کے شعبے کے ماہر یہاں آکر درستگی کرتے ہیں۔ بوگی درست ہونے کے بعد روانہ ہونے والی گاڑیوں میں شامل کی جاتی ہے۔