کام یاب کون ۔۔۔۔

’’بے شک! اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘

’’بے شک! اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘ فوٹو: فائل

دنیا میں ہر شخص مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا جوان، خواندہ ہو یا ناخواندہ، امیر ہو یا غریب، ہر ایک اپنی زندگی میں کام یاب ہونا چاہتا ہے۔

کام یابی کے حصول کے لیے ہر ایک نے اپنے اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔ جس کے لیے وہ عمر بھر تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جائز اور ناجائز ہر قسم کی تفریق بُھلا بیٹھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کام یابی کا وہ معیار ہے کیا، جس پر پہنچ کر انسان پُرسکون ہوجاتا ہے؟

ماحول کا جائزہ لینے پر علم ہوتا ہے کہ ہر ایک کے نزدیک کام یابی کا معیار مختلف ہے۔ کسی کے لیے مال و دولت کا حصول کام یابی ہے۔ کسی کے لیے بڑا عہدہ، منصب اور شان و شوکت، کسی کے لیے ڈگری کا حصول، بیرون ملک کا ویزا اور نوکری مل جانا، کسی کے لیے عالی شان گھر بنا لینا اور کسی کے لیے اپنی محبّت کو پا لینا کام یابی ہے۔

آج کے دور میں کسی مرد کو اچھا روزگار مل جائے، کاروبار جم جائے، مالی آسودگی حاصل ہو، سگھڑ بیوی مل گئی، اولاد کی نعمت سے اﷲ نے نواز دیا، بس تو ہمارے معاشرے کے لحاظ سے وہ کام یاب ہو گیا۔ اسی طرح جس عورت کو اچھا دولت مند خاوند اور سسرال مل جائے، اولاد اور وہ بھی نرینہ ہو تو وہ بھی اپنے تئیں خود کو کام یاب سمجھتی ہے۔

لیکن جب ہم بہ غور مشاہدہ کریں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ جس چیز کو بندہ کام یابی کا حصول سمجھتا ہے اور اپنی ساری جدوجہد اسے حاصل کرنے میں لگا دیتا ہے۔ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد بھی اس کے کھو جانے کے ڈر سے وہ سکون میں نہیں رہتا۔ گویا کہ اس سے علم ہوا کہ آج کی دنیا میں انسانوں نے جو کام یابی کے خود ساختہ معیار بنا رکھے ہیں وہ کام یابی نہیں۔

تو پھر آخر کام یابی ہے کیا؟ کام یاب انسان ہے کون؟ میرے رب نے قرآن عظیم الشان میں واضح الفاظ میں فرما دیا کہ کام یاب کون ہے؟

قرآن حکیم ہماری راہ نمائی کرتا ہے، مفہوم: ''بے شک! اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔'' (سورہ الاعلیٰ)

یعنی جس نے تزکیہ نفس کرلیا وہ پاک ہوگیا۔ اب یہ تزکیہ نفس ہے کیا ؟


تزکیہ نفس کہتے ہیں نفس انسانی میں موجود شر کے غلبے کو دُور کرنا اور ہر طرح کے گناہوں کی آلودگی، آلائشوں اور اخلاق رذیلہ سے دل کو ستھرا کرنا۔ دل کی گندگی ہے کیا اور دور کیسے ہو گی؟ سائنس نے آج اتنی ترقی کر لی لیکن کوئی ایسا آلہ نہ ایجاد ہو سکا جو دل کی روحانی بیماریوں کو جانچ سکے اور اس کی صفائی کر سکے۔ باطن کی تمام گندگیوں کو دُور کر سکے۔

ظاہری بیماریوں کا تو ہم میں سے ہر ایک کو احساس ہوتا ہے اور ہم اس کی لیے معالج سے رجوع بھی کرتے ہیں، لیکن آخر یہ روحانی بیماریوں کا احساس کیسے ہو ؟

منافقت اور نفاق، کینہ، بغض و حسد سے، طمع و لالچ، نفسانی شہوانی خواہشات جیسی مہلک بیماریوں کو دل سے دُور کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے ہمارے پاس قرآن حکیم موجود ہے جس کی تعلیمات پر چل کر ہم اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں اور ہم قرآن حکیم پر عمل کیسے اور کس طریقے سے کریں؟ اس کے لیے ہمیں اﷲ تعالی نے ہمیں اپنے آخری پیغمبر جناب رسول کریم ﷺ عطا فرمائے ہیں جن کی زندگی کو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔

اب قرآن حکیم اور احادیث نبوی ﷺ ہمارے لیے روشن راستے ہیں۔ اس کے لیے اس دور پُرفتن میں ہمیں پابند شریعت اہل علم و نظر کو تلاش کرنا ہوگا۔ اﷲ والوں کی صحبت میں رہنا ہوگا۔ اس کے لیے تزکیہ نفس کے لیے اہل اﷲ کا دامن تھامنا بے حد ضروری ہے۔

اﷲ والوں سے تعلق رکھنے کی اہمیت اس مثال سے سمجھ لیجیے۔ آپ ایک برتن میں پانی اور صابن لے کر چوبیس گھنٹے بھی کپڑا ڈالیں رہیں تو کیا وہ خود بہ خود صاف ہو جائے گا ؟ یقیناً نہیں۔ جب کہ صابن بھی کپڑے کو صاف کرتا ہے اور پانی بھی، تو پھر کپڑا صاف کیوں نہیں ہوا ؟ اس لیے کہ ایک ہاتھ چاہیے جو اس کو رگڑے، نچوڑے، کپڑے کو گندے پانی سے نکالے، صاف پانی میں غوطہ دے۔ تب کہیں جا کر کپڑا صاف ہوگا۔ یہ جو پابند شریعت اﷲ والے ہوتے ہیں یہ بھی ایسے ہی قلوب سے میل و کچیل دُور کر دیتے ہیں۔

دل کا تزکیہ کرنا ہے، اسے ستھرا کرنا ہے، سنوارنا ہے تو بے ریا اﷲ والوں سے تعلق بنانا پڑے گا۔ تب کہیں جا کر باطن کی گندگی دُور ہوگی اور تزکیۂ نفس حاصل ہوگا۔ اﷲ والوں سے تعلق قائم کیے بغیر اصلاح ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ اور یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اگر کسی بے ریا و پابند شریعت ولی کامل کی تلاش ہو تو پھر طلب بھی کامل ہونی چاہیے۔

آج کے دور میں وہ جو متبع شریعت ہوں اور سنّت کی پیروی کرنے والے ہوں۔ جن کی صحبت سے اﷲ کی محبت پیدا ہو جائے۔ آخرت کی فکر اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو۔ اعمال و اخلاق درست ہونے لگیں۔ لوگوں سے معاملات بہتر ہو جائیں۔ بس جان لیں وہی اﷲ والا ہے۔ ہم جیسے ناقص اور گناہ گاروں کے لیے ان کی صحبت اور نظر کرم فائدے سے خالی نہیں۔

بس ان کے دامن سے وابستہ ہو کر نفس کا تزکیہ کر لیجیے۔ بلاشبہ کام یابی اور فلاح کا دار و مدار تزکیۂ نفس پر ہے۔ دل پاک صاف ہوگیا تو اخروی نعمتیں بھی استقبال کریں گی اور دنیا میں بھی سُکون و اطمینان حاصل ہو گا۔ اپنے قول و فعل کا جائزہ لیں اور دنیا کے ساتھ آخرت کو سنوارنے کی بھی کوشش کریں۔ جو شخص ایمان کی سلامتی کے ساتھ قبر میں پہنچ گیا بس وہی کام یاب ہے۔
Load Next Story