کیویز کو ’’بچے‘‘ نہ سمجھنا
گرین شرٹس کی روایت ہے کہ بی ٹیموں کیخلاف بھی پھنس کر کھیلتے ہیں اور حریفوں کو نئے ’’اسٹارز‘‘ کا تحفہ دیا جاتا ہے۔
18 سال بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، 2003 کے بہترین آل راؤنڈر اور موجودہ کوچ عبدالرزاق کو بھی شاید یاد نہ ہو کہ آخری بار جب کیوی ٹیم پاکستان آئی تب کیا ہوا تھا۔
نیوزی لینڈ کو ہمیشہ سے پاکستانی پچز پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا،ایک بار تو وسیم اکرم اور وقار یونس نے بھی انھیں کمزور حریف قرار دے کر کھیلنے سے انکار کردیا تھا،پاکستان میں دونوں ٹیموں کی آخری سیریز کے نتائج بھی مختلف نہیں تھے جب میزبان نے ون ڈے سیریز میں 5-0سے کلین سوئپ کردیا تھا۔
گوکہ اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی گذر چکا اور کیویز ماضی کے برخلاف مضبوط ٹیم بن گئے ہیں، مگر ٹور میں کئی اہم کرکٹرز ساتھ نہیں آئے،پہلے سیکیورٹی کا خوف آنے سے باز رکھتا تھا اب ڈالرز کی چمک نے قدم یو اے ای کی طرف کھینچ لیے جہاں کپتان کین ولیمسن سمیت کئی کھلاڑی آئی پی ایل کے دوران ایکشن میں ہوں گے،کاغذ پر دیکھا جائے تو نیوزی لینڈ کی بی ٹیم پاکستان آئی مگر اصل بات ان کا آنا ہی ہے،لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستانی شائقین برسوں انٹرنیشنل کرکٹ کو ترس گئے۔
سیکیورٹی ایجنسیز کی قربانیوں سے اب ملکی میدان دوبارہ آباد ہو چکے ہیں، اس میں پی سی بی کے سابق سربراہان نجم سیٹھی، شہریارخان اور احسان مانی نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا، اب رمیز راجہ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے،دہشت گردی کے خطرات توکم ہو چکے مگر کورونا نے ساری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے، اس وجہ سے کھلاڑیوں کو بھی بائیو ببل میں رہنا پڑتا ہے،خوش آئند بات یہ ہے کہ 25 فیصد شائقین کو گراؤنڈز میں آنے کی اجازت مل گئی، اب وہ آنکھوں کے سامنے اسٹارز کو ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔
پی سی بی حکام کی نااہلی کے سبب سیریز میں ڈی آر ایس کی سہولت حاصل نہیں جس کی وجہ سے اسے آئی سی سی ورلڈکپ سپر لیگ سے باہر کرنا پڑا، اب یہ عام باہمی سیریز شمار ہوگئی، نہ صرف میچز میں امپائرنگ کے حوالے سے تنازعات سامنے آ سکتے ہیں بلکہ کمزور حریف کیخلاف یقینی پوائنٹس سے بھی پاکستان کو ہاتھ دھونا پڑیں گے، ماضی میں ایسی غلطیاں نظرانداز کر دی جاتی تھیں مگر امید ہے نئے چیئرمین ذمہ داران کیخلاف سخت ایکشن لیں گے،پاکستان ٹیم کیلیے یہ سیریز خاص اہمیت کی حامل ہے۔
رمیز نے کھلاڑیوں کو جارحانہ انداز اپنانے کی ہدایت دی ہے، ایسا نہیں ہوگاکہ پہلی گیند سے ہی چھکے لگانے شروع کر دیے جائیں مگر اپروچ میں واضح فرق دکھائی دینا چاہیے تاکہ ورلڈ کپ سے قبل نئے انداز کی عادت ہو جائے، مصباح الحق اور وقار یونس کے جانے پر اب نئے کوچز ثقلین مشتاق اور عبدالرزاق سیریز میں کھلاڑیوں کی رہنمائی کریں گے، ورلڈکپ کیلیے رمیز راجہ نے میتھیو ہیڈن اور ورنون فلینڈر کا تقرر کیا ہے۔
اگر ان دونوں کو اس سیریز اور پھر انگلینڈ سے میچز کیلیے بھی پاکستان بلایا جاتا تو اچھا رہتا، انھیں ٹیم کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقع بھی ملتا اور یہاں آ کر کوچنگ کرتے تو دنیا میں اچھا تاثر جاتا،پاکستان کو آخری ون ڈے سیریز میں انگلینڈ کی بی ٹیم کے ہاتھوں بھی تینوں میچز میں شکست ہو گئی تھی،اس کے بعد ہی کوچنگ پینل میں تبدیلی کیلیے ''ہدایات'' موصول ہوئی تھیں،آخری میچ میں تو بولرز نے بیحد مایوس کیا اور332 رنز کا ہدف بھی عبور کرا دیا تھا، بابر اعظم کے158رنز بھی رائیگاں گئے تھے۔
اب اس کا ازالہ کرنے کا وقت ہے،فخرزمان ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل نہیں، وہ امام الحق کے ساتھ مل کرعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے اہل ہیں،اس سے شاید سلیکٹرز اپنے سابقہ فیصلے پر نظرثانی پر مجبور ہو سکتے ہیں،بابر اعظم اورمحمد رضوان بھی موجود ہوں گے، البتہ اصل مسئلہ مڈل آرڈر کا ہے جس کا بوجھ نوجوان سعود شکیل اور''کاغذی ینگسٹر'' افتخار احمد کو سنبھالنا ہوگا،اب دیکھنا یہ ہے کہ چیئرمین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بیٹسمین کیسا پرفارم کرتے ہیں، البتہ پاکستان کی بولنگ توخاصی مضبوط ہے۔
2018 میں جب دونوں ٹیمیں یو اے ای میں مدمقابل آئیں تو ایک میچ بارش کی نذر ہوا جبکہ باقی 2میں سے 1،1 کیویز اور پاکستان نے جیتا، شاہین شاہ آفریدی مین آف دی سیریز قرار پائے تھے، اب بھی وہ امیدوں کا محور ہوں گے، حارث رؤف نے بھی رواں سال اچھا پرفارم کیا،حسن علی عمدہ فارم میں ہیں، شاداب خان کو فارم میں واپسی کا اچھا موقع مل گیا،موقع ملنے پر اسپن میں عثمان قادر اورزاہد محمود میں سے بھی کوئی ان کی مدد کیلیے موجود ہوگا۔
کیویز بنگلہ دیش میں بھی اسپنرز کیخلاف جدوجہد کرتے دکھائی دیے اورپاکستان میں بھی ایسا ہوسکتا ہے، ولیمسن کے ساتھ انھیں جیمیسن، فرگوسن اور بولٹ کی کمی بھی محسوس ہوگی، روس ٹیلر نے پہلے یہاں آنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جسے بعد میں تبدیل کر دیا، ویسے گرین شرٹس کی روایت ہے کہ بی ٹیموں کیخلاف بھی پھنس کر کھیلتے ہیں اور حریفوں کو نئے ''اسٹارز'' کا تحفہ دیا جاتا ہے، امید ہے اب ایسا نہیں ہوگا اور کمزور حریف کو سیریز میں آؤٹ کلاس کیا جائے گا،البتہ کیویز کو ''بچے'' نہیں سمجھنا ہوگا، ورلڈکپ میں اب ایک ماہ باقی ہے جس بھی فارمیٹ میں فتح ملے کھلاڑیوں کا اعتماد ہی بڑھے گا، بابر اعظم کو بھی اپنی کپتانی سے نئے چیئرمین کو متاثر کرنا ہے جنھوں نے بغور جائزہ لینے کا عندیہ دیا تھا۔
اپنی پہلی پریس کانفرنس میں رمیز راجہ نے صرف ایک کرسی سامنے رکھی جس سے دیگر آفیشلز کو اپنی کرسیاں ہلتی محسوس ہونے لگی ہیں،2 کو تو انھوں نے اشارے بھی دے دیے ہیں،بورڈ کے سربراہ کو ٹیم کی کارکردگی سے ہی جج کیا جاتا ہے۔
رمیز راجہ خود سابق کپتان رہ چکے، ان کے دور میں تو سب کو بہتری کی بہت زیادہ امیدیں ہیں، ایسے میں نیوزی لینڈ کیخلاف یہ پہلی سیریز خاص اہمیت رکھتی ہے، جس پْراعتماد انداز میں اپنے لیڈر عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے رمیز پریس کانفرنس میں آئے تھے اسے برقرار رکھنے کیلیے ٹیم کی فتوحات ضروری ہیں، اس کا آغاز کیویز کیخلاف کرتے ہوئے ورلڈکپ میں بھی یہ سلسلہ برقرار رہنا چاہیے تاکہ وزیر اعظم کو بھی اپنے انتخاب پر فخر ہو۔
(نوٹ: ٹویٹر پر آپ مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
نیوزی لینڈ کو ہمیشہ سے پاکستانی پچز پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا،ایک بار تو وسیم اکرم اور وقار یونس نے بھی انھیں کمزور حریف قرار دے کر کھیلنے سے انکار کردیا تھا،پاکستان میں دونوں ٹیموں کی آخری سیریز کے نتائج بھی مختلف نہیں تھے جب میزبان نے ون ڈے سیریز میں 5-0سے کلین سوئپ کردیا تھا۔
گوکہ اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی گذر چکا اور کیویز ماضی کے برخلاف مضبوط ٹیم بن گئے ہیں، مگر ٹور میں کئی اہم کرکٹرز ساتھ نہیں آئے،پہلے سیکیورٹی کا خوف آنے سے باز رکھتا تھا اب ڈالرز کی چمک نے قدم یو اے ای کی طرف کھینچ لیے جہاں کپتان کین ولیمسن سمیت کئی کھلاڑی آئی پی ایل کے دوران ایکشن میں ہوں گے،کاغذ پر دیکھا جائے تو نیوزی لینڈ کی بی ٹیم پاکستان آئی مگر اصل بات ان کا آنا ہی ہے،لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستانی شائقین برسوں انٹرنیشنل کرکٹ کو ترس گئے۔
سیکیورٹی ایجنسیز کی قربانیوں سے اب ملکی میدان دوبارہ آباد ہو چکے ہیں، اس میں پی سی بی کے سابق سربراہان نجم سیٹھی، شہریارخان اور احسان مانی نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا، اب رمیز راجہ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے،دہشت گردی کے خطرات توکم ہو چکے مگر کورونا نے ساری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے، اس وجہ سے کھلاڑیوں کو بھی بائیو ببل میں رہنا پڑتا ہے،خوش آئند بات یہ ہے کہ 25 فیصد شائقین کو گراؤنڈز میں آنے کی اجازت مل گئی، اب وہ آنکھوں کے سامنے اسٹارز کو ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔
پی سی بی حکام کی نااہلی کے سبب سیریز میں ڈی آر ایس کی سہولت حاصل نہیں جس کی وجہ سے اسے آئی سی سی ورلڈکپ سپر لیگ سے باہر کرنا پڑا، اب یہ عام باہمی سیریز شمار ہوگئی، نہ صرف میچز میں امپائرنگ کے حوالے سے تنازعات سامنے آ سکتے ہیں بلکہ کمزور حریف کیخلاف یقینی پوائنٹس سے بھی پاکستان کو ہاتھ دھونا پڑیں گے، ماضی میں ایسی غلطیاں نظرانداز کر دی جاتی تھیں مگر امید ہے نئے چیئرمین ذمہ داران کیخلاف سخت ایکشن لیں گے،پاکستان ٹیم کیلیے یہ سیریز خاص اہمیت کی حامل ہے۔
رمیز نے کھلاڑیوں کو جارحانہ انداز اپنانے کی ہدایت دی ہے، ایسا نہیں ہوگاکہ پہلی گیند سے ہی چھکے لگانے شروع کر دیے جائیں مگر اپروچ میں واضح فرق دکھائی دینا چاہیے تاکہ ورلڈ کپ سے قبل نئے انداز کی عادت ہو جائے، مصباح الحق اور وقار یونس کے جانے پر اب نئے کوچز ثقلین مشتاق اور عبدالرزاق سیریز میں کھلاڑیوں کی رہنمائی کریں گے، ورلڈکپ کیلیے رمیز راجہ نے میتھیو ہیڈن اور ورنون فلینڈر کا تقرر کیا ہے۔
اگر ان دونوں کو اس سیریز اور پھر انگلینڈ سے میچز کیلیے بھی پاکستان بلایا جاتا تو اچھا رہتا، انھیں ٹیم کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقع بھی ملتا اور یہاں آ کر کوچنگ کرتے تو دنیا میں اچھا تاثر جاتا،پاکستان کو آخری ون ڈے سیریز میں انگلینڈ کی بی ٹیم کے ہاتھوں بھی تینوں میچز میں شکست ہو گئی تھی،اس کے بعد ہی کوچنگ پینل میں تبدیلی کیلیے ''ہدایات'' موصول ہوئی تھیں،آخری میچ میں تو بولرز نے بیحد مایوس کیا اور332 رنز کا ہدف بھی عبور کرا دیا تھا، بابر اعظم کے158رنز بھی رائیگاں گئے تھے۔
اب اس کا ازالہ کرنے کا وقت ہے،فخرزمان ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل نہیں، وہ امام الحق کے ساتھ مل کرعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے اہل ہیں،اس سے شاید سلیکٹرز اپنے سابقہ فیصلے پر نظرثانی پر مجبور ہو سکتے ہیں،بابر اعظم اورمحمد رضوان بھی موجود ہوں گے، البتہ اصل مسئلہ مڈل آرڈر کا ہے جس کا بوجھ نوجوان سعود شکیل اور''کاغذی ینگسٹر'' افتخار احمد کو سنبھالنا ہوگا،اب دیکھنا یہ ہے کہ چیئرمین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بیٹسمین کیسا پرفارم کرتے ہیں، البتہ پاکستان کی بولنگ توخاصی مضبوط ہے۔
2018 میں جب دونوں ٹیمیں یو اے ای میں مدمقابل آئیں تو ایک میچ بارش کی نذر ہوا جبکہ باقی 2میں سے 1،1 کیویز اور پاکستان نے جیتا، شاہین شاہ آفریدی مین آف دی سیریز قرار پائے تھے، اب بھی وہ امیدوں کا محور ہوں گے، حارث رؤف نے بھی رواں سال اچھا پرفارم کیا،حسن علی عمدہ فارم میں ہیں، شاداب خان کو فارم میں واپسی کا اچھا موقع مل گیا،موقع ملنے پر اسپن میں عثمان قادر اورزاہد محمود میں سے بھی کوئی ان کی مدد کیلیے موجود ہوگا۔
کیویز بنگلہ دیش میں بھی اسپنرز کیخلاف جدوجہد کرتے دکھائی دیے اورپاکستان میں بھی ایسا ہوسکتا ہے، ولیمسن کے ساتھ انھیں جیمیسن، فرگوسن اور بولٹ کی کمی بھی محسوس ہوگی، روس ٹیلر نے پہلے یہاں آنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جسے بعد میں تبدیل کر دیا، ویسے گرین شرٹس کی روایت ہے کہ بی ٹیموں کیخلاف بھی پھنس کر کھیلتے ہیں اور حریفوں کو نئے ''اسٹارز'' کا تحفہ دیا جاتا ہے، امید ہے اب ایسا نہیں ہوگا اور کمزور حریف کو سیریز میں آؤٹ کلاس کیا جائے گا،البتہ کیویز کو ''بچے'' نہیں سمجھنا ہوگا، ورلڈکپ میں اب ایک ماہ باقی ہے جس بھی فارمیٹ میں فتح ملے کھلاڑیوں کا اعتماد ہی بڑھے گا، بابر اعظم کو بھی اپنی کپتانی سے نئے چیئرمین کو متاثر کرنا ہے جنھوں نے بغور جائزہ لینے کا عندیہ دیا تھا۔
اپنی پہلی پریس کانفرنس میں رمیز راجہ نے صرف ایک کرسی سامنے رکھی جس سے دیگر آفیشلز کو اپنی کرسیاں ہلتی محسوس ہونے لگی ہیں،2 کو تو انھوں نے اشارے بھی دے دیے ہیں،بورڈ کے سربراہ کو ٹیم کی کارکردگی سے ہی جج کیا جاتا ہے۔
رمیز راجہ خود سابق کپتان رہ چکے، ان کے دور میں تو سب کو بہتری کی بہت زیادہ امیدیں ہیں، ایسے میں نیوزی لینڈ کیخلاف یہ پہلی سیریز خاص اہمیت رکھتی ہے، جس پْراعتماد انداز میں اپنے لیڈر عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے رمیز پریس کانفرنس میں آئے تھے اسے برقرار رکھنے کیلیے ٹیم کی فتوحات ضروری ہیں، اس کا آغاز کیویز کیخلاف کرتے ہوئے ورلڈکپ میں بھی یہ سلسلہ برقرار رہنا چاہیے تاکہ وزیر اعظم کو بھی اپنے انتخاب پر فخر ہو۔
(نوٹ: ٹویٹر پر آپ مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)