اپنے ڈراموں کے ذریعے پیغام دینا چاہتاہوں کہ عورت کمزور نہیں ہے گوہر رشید
ہم ٹی وی پر یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ عورت اپنا دفاع خود کر سکتی ہے، گوہر رشید
اداکار مرزا گوہر رشید کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ڈراموں اور اداکاری کے ذریعے معاشرے میں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عورت کمزور نہیں ہے۔
گوہر رشید نے حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین پر تشدد دکھائے جانے کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا ٹی وی پر ہم عورت کی خودمختاری پر بات کیوں نہیں کرتے۔ ہم اپنے ڈراموں میں یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ عورت اپنا دفاع خود کرسکتی ہے اسے کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے ڈرامے کے کسی سین میں یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ اگر مرد نے عورت کو تھپڑ ماراہے تو عورت بھی پلٹ کر مرد کو زوردار تھپڑ رسید کرے۔
دراصل مرزا گوہر رشید کے نجی چینل سے نشر ہونے والے ڈرامے ''لاپتہ'' کا ایک سین آج کل سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اس سین میں گوہر رشید اپنی بیوی فلک (سارہ خان) کو کسی بات پر تھپڑ مارتے ہیں اور سارہ روایتی بیویوں کے برعکس تھپڑ کھانے کے بعد رونے یا چپ کرکے بیٹھنے کے بجائے اپنے شوہر کو جوابی زوردار تھپڑ رسید کرتی ہے اور یہ کہہ کر دھمکاتی ہے کہ اگر دوبارہ تم نے مجھے تھپڑ مارا تو میں تمہارے ہاتھ توڑدوں گی۔
[instagram-post url="https://www.instagram.com/p/CToyqC-FyRD/"]
اپنے شوہر سے تھپڑ کھانے کے بعد بیوی کا یہ جرات مندانہ قدم سوشل میڈیا صارفین کو بھاگیا اور سوشل میڈیا پر اس سین کو بہت سراہا گیا جب کہ کچھ لوگوں نے اس سین پر تنقید بھی کی۔
گوہر رشید کا انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ وہ ٹی وی اسکرین پر خواتین پر تشدد دکھانے کے خلاف ہیں لیکن اس سین کو کرنے کا مقصد لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا تھا کہ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو تھپڑ مارتا ہے تو عورت کسی سے کمزور نہیں ہے عورت کو اپنا دفاع کرنا چاہئے اسی لیے میں نے یہ سین کیا۔
گوہر رشید نے کہا ٹی وی سب سے زیادہ گھریلو عورت دیکھتی ہے، ہمارے ہاں ٹی وی ڈراموں کا بیانیہ عورت کی بے بسی اور اس پر ہونے والے ظلم کے گرد گھومتا ہے۔ ہم ٹی وی پر عورت کی خودمختاری پر بات کیوں نہیں کرتے، ہم یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ عورت اپنا دفاع خود کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا الیکٹرونک میڈیا لاشعوری طور پر ناظرین پر اثر انداز ہوتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ ٹھیک ہے اور ہم عورت کی تکلیف کو ایک حقیقت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بیانیے کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے ناظرین کو اسکینڈلز، سنسنی اور منفی کرداروں کا عادی بنا دیا ہے۔ ہمیں اپنے ناظرین کو دوبارہ سے سیکھانا پڑے گا کہ عورت کا معاشرے میں ایک مضبوط مقام ہے۔ جتنی ضرورت عورت کو مرد کی ہے اتنی ہی مرد کو بھی ہے۔
گوہر رشید کا مزید کہنا تھا ہم نے گھریلو عورت کے لیے یہ قابل قبول بنا دیا ہے کہ اگر مرد آ کر اسے تھپڑ مار دیتا ہے تو یہ عام بات ہے جو کہ بہت غلط ہے۔ اب ہمیں اپنے ڈراموں کے ذریعے یہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ ضروری نہیں کہ عورت ہمیشہ مظلوم ہی ہوں، کسی پر انحصار کر رہی ہو، وہ ایک مضبوط شخصیت کی مالک اور خود مختار ہو سکتی ہے۔
گوہر رشید نے حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین پر تشدد دکھائے جانے کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا ٹی وی پر ہم عورت کی خودمختاری پر بات کیوں نہیں کرتے۔ ہم اپنے ڈراموں میں یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ عورت اپنا دفاع خود کرسکتی ہے اسے کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے ڈرامے کے کسی سین میں یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ اگر مرد نے عورت کو تھپڑ ماراہے تو عورت بھی پلٹ کر مرد کو زوردار تھپڑ رسید کرے۔
دراصل مرزا گوہر رشید کے نجی چینل سے نشر ہونے والے ڈرامے ''لاپتہ'' کا ایک سین آج کل سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اس سین میں گوہر رشید اپنی بیوی فلک (سارہ خان) کو کسی بات پر تھپڑ مارتے ہیں اور سارہ روایتی بیویوں کے برعکس تھپڑ کھانے کے بعد رونے یا چپ کرکے بیٹھنے کے بجائے اپنے شوہر کو جوابی زوردار تھپڑ رسید کرتی ہے اور یہ کہہ کر دھمکاتی ہے کہ اگر دوبارہ تم نے مجھے تھپڑ مارا تو میں تمہارے ہاتھ توڑدوں گی۔
[instagram-post url="https://www.instagram.com/p/CToyqC-FyRD/"]
اپنے شوہر سے تھپڑ کھانے کے بعد بیوی کا یہ جرات مندانہ قدم سوشل میڈیا صارفین کو بھاگیا اور سوشل میڈیا پر اس سین کو بہت سراہا گیا جب کہ کچھ لوگوں نے اس سین پر تنقید بھی کی۔
گوہر رشید کا انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ وہ ٹی وی اسکرین پر خواتین پر تشدد دکھانے کے خلاف ہیں لیکن اس سین کو کرنے کا مقصد لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا تھا کہ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو تھپڑ مارتا ہے تو عورت کسی سے کمزور نہیں ہے عورت کو اپنا دفاع کرنا چاہئے اسی لیے میں نے یہ سین کیا۔
گوہر رشید نے کہا ٹی وی سب سے زیادہ گھریلو عورت دیکھتی ہے، ہمارے ہاں ٹی وی ڈراموں کا بیانیہ عورت کی بے بسی اور اس پر ہونے والے ظلم کے گرد گھومتا ہے۔ ہم ٹی وی پر عورت کی خودمختاری پر بات کیوں نہیں کرتے، ہم یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ عورت اپنا دفاع خود کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا الیکٹرونک میڈیا لاشعوری طور پر ناظرین پر اثر انداز ہوتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ ٹھیک ہے اور ہم عورت کی تکلیف کو ایک حقیقت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بیانیے کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے ناظرین کو اسکینڈلز، سنسنی اور منفی کرداروں کا عادی بنا دیا ہے۔ ہمیں اپنے ناظرین کو دوبارہ سے سیکھانا پڑے گا کہ عورت کا معاشرے میں ایک مضبوط مقام ہے۔ جتنی ضرورت عورت کو مرد کی ہے اتنی ہی مرد کو بھی ہے۔
گوہر رشید کا مزید کہنا تھا ہم نے گھریلو عورت کے لیے یہ قابل قبول بنا دیا ہے کہ اگر مرد آ کر اسے تھپڑ مار دیتا ہے تو یہ عام بات ہے جو کہ بہت غلط ہے۔ اب ہمیں اپنے ڈراموں کے ذریعے یہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ ضروری نہیں کہ عورت ہمیشہ مظلوم ہی ہوں، کسی پر انحصار کر رہی ہو، وہ ایک مضبوط شخصیت کی مالک اور خود مختار ہو سکتی ہے۔