امریکی جنگ کی قیمت
امریکا کو ایک مافیا چلا رہا ہے جس کو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں
امریکا افغانستان میں جنگ ہار گیا۔ شاید دنیا کےلیے یہ ایک حیران کن شکست ہے، نہ صرف ایک خود ساختہ سپر پاور کو کلاشنکوف اور جذبہ ایمانی سے لیس ایک گروہ نے ناک زمین پر رگڑنے پر مجبور کردیا بلکہ واشنگٹن میں بیٹھے امریکی کمانڈرز اور تھنک ٹینکس ابھی تک شکست کو تسلیم نہیں کرپارہے۔ اس کی وجہ یہ ہے انہوں نے امریکا کی طویل ترین جنگ سے اربوں ڈالرز کمائے۔
20 سال خون بہانے کے بعد صدر جوبائیڈن نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا جس انداز میں اعلان کیا، وہ لب و لہجہ اور وہ الفاظ ایک شکست خوردہ شخص کے تھے۔ 50 فیصد سے زائد امریکی اس جنگ کو شکست گردانتے ہیں۔
اگر یہ جنگ مزید جاری بھی رہتی تو اس کا نتیجہ مختلف نہیں ہونا تھا لیکن کئی امریکی جرنیلوں اور جنگی ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کےلیے یہ جنگ پیسہ بنانے کا ایک ذریعہ بن چکی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ یہ جنگ جاری رہے، چاہے اس کے نتیجے میں مزید تباہی کیوں نہ ہو اور لوگ مرتے ہی کیوں نہ رہیں، چاہے وہ امریکی ہی کیوں نہ ہوں۔
امریکی صدور نے جب بھی کسی ملک پر جنگ مسلط کی تو کبھی پرواہ نہیں کی کہ اس میں دوسرے عام بے گناہ لوگ بھی مریں گے۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں ایک بار بھی ان ہزاروں افغانیوں کا ذکر نہیں کیا جن کا امریکی فوج نے قتل عام کیا۔
انہوں نے صرف امریکی نقصانات پر بات کی اور صرف ذکر کیا کہ وہ امریکی بیٹوں اور بیٹیوں کو مزید کسی دور دراز کی زمین پر مرنے یا زخمی ہونے کےلیے نہیں بھیجا جائے گا؛ اور امریکی فوج کو ایسی جنگ نہیں لڑنی چاہیے جسے افغان فوج خود نہیں لڑنا چاہتی۔
یہ ایک انتہائی بےحس انسان کی تقریر تھی جس کی فوج نے بغیر کسی وجہ کے 20 سال تک بے گناہ بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو بے دریغ قتل اور بے گھر کیا۔ امریکی اور نیٹو افواج نے گھروں، اسکولوں، شادیوں، جنازوں یہاں تک کہ اسپتالوں پر بے دریغ گولہ باری کی لیکن امریکی صدر، بلکہ کسی عہدیدار کی زبان سے بھی، معذرت کا ایک لفظ تک نہیں نکلا۔
دراصل المیہ یہی ہے کہ مغرب والے باقی دنیا میں بسنے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔
ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد لوگ اس جنگ میں مارے گئے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار حقیقت میں ان مصائب اور مشکلات کو بیان نہیں کرتے جس کا سامنا افغانستان اور پاکستان نے بیس سال تک کیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اعداد و شمار میں وہ جانی و مالی نقصان بھی ہے جو اس جنگ کی وجہ سے پاکستان نے اٹھایا ہے؛ جس کا امریکا نے شاذ و نادر ہی ذکر کیا ہو یا اسے تسلیم کیا ہو۔
جنرل پرویز مشرف کے امریکی مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے تباہ کن فیصلے کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی (فوجی اور شہری) لقمہ اجل بنے اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، جبکہ آصف زرداری اور نواز شریف کے آخری دو ادوار میں امریکا کو پاکستان میں ڈرونز حملوں کی اجازت دی گئی جس میں بچوں سمیت سیکڑوں پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ دوسری طرف سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہے۔
اگر افغانستان میں جنگ پر امریکی اخراجات کی بات کریں تو پنٹاگون کے مطابق ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر لاگت کے اخراجات ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تو صرف ساز و سامان اور امریکی فوج کی بیس سال تک تنخواہوں کے اخراجات ہیں جبکہ تعمیر نو، ٹھیکیداروں کی بھرتیاں اور افغان فوج کی ٹریننگ کو شامل کیا جائے تو درحقیقت امریکا کے 2.26 ٹریلین (2,260 ارب) ڈالر افغان جنگ پر خرچ ہوئے ہیں۔
ان میں سے 145 ارب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ ہوئے لیکن درحقیقت امریکی تعمیر نو کے منصوبوں میں کوئی بھی پائیدار منصوبہ نہیں تھا۔ یہ منصوبے افغان عوام کی خدمت کےلیے نہیں بلکہ کاغذی ترقی دکھانے کےلیے تھے۔ دراصل ان سے امریکی ٹھیکیداروں اور ان کے سرپرستوں نے اپنی جیبیں بھریں اور چلتے بنے۔
افغانستان میں امریکی سرپرستی سے بننے والی حکومت کی توجہ صرف کرپشن اور لوٹ مار پر تھی۔ اس جنگ سے امریکا اور ان کے افغانی ایجنٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ حیرانی کی بات نہیں کہ افغانستان کے چند بڑے شہری مراکز سے صرف چند میل کے فاصلے پر لوگ ناقص غذا، صاف پانی کی کمی اور صحت کی سہولیات کی قلت جیسے سنگین انسانی مسائل کا شکار رہے جن کی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافے کی شرح بہت زیادہ تھی۔
20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کی وجہ سے افغانستان کی تقریباً 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
اگر امریکا نے افغانستان کے خلاف اپنی 20 سالہ جنگ میں خرچ کیے گئے 2.26 ٹریلین ڈالر 38 ملین کی افغان آبادی میں تقسیم کیے ہوتے تو ہر مرد، عورت اور بچے کو تقریباً 60 ہزار ڈالر ملتے۔ وہ امریکا کے خلاف لڑنے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کررہے ہوتے۔ کوئی امریکی، نیٹو، افغانی، پاکستانی اس جنگ کے نتیجے میں اپنی جان سے نہ جاتا اور ہزاروں شہری معذور نہ ہوتے۔
مگر یہ ہو نہ سکا... اور ایسا ہونا بھی نہیں تھا کیونکہ امریکی جرنیلوں، ملٹی نیشنل کارپوریشنوں، بینکوں اور اسلحہ بنانے والے کارخانوں کو امریکی عوام کی اجازت، منظوری اور علم میں لائے بغیر جنگ کے نام پر اخراجات کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔
امریکا کو ایک مافیا چلا رہا ہے جس کو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
20 سال خون بہانے کے بعد صدر جوبائیڈن نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا جس انداز میں اعلان کیا، وہ لب و لہجہ اور وہ الفاظ ایک شکست خوردہ شخص کے تھے۔ 50 فیصد سے زائد امریکی اس جنگ کو شکست گردانتے ہیں۔
اگر یہ جنگ مزید جاری بھی رہتی تو اس کا نتیجہ مختلف نہیں ہونا تھا لیکن کئی امریکی جرنیلوں اور جنگی ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کےلیے یہ جنگ پیسہ بنانے کا ایک ذریعہ بن چکی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ یہ جنگ جاری رہے، چاہے اس کے نتیجے میں مزید تباہی کیوں نہ ہو اور لوگ مرتے ہی کیوں نہ رہیں، چاہے وہ امریکی ہی کیوں نہ ہوں۔
امریکی صدور نے جب بھی کسی ملک پر جنگ مسلط کی تو کبھی پرواہ نہیں کی کہ اس میں دوسرے عام بے گناہ لوگ بھی مریں گے۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں ایک بار بھی ان ہزاروں افغانیوں کا ذکر نہیں کیا جن کا امریکی فوج نے قتل عام کیا۔
انہوں نے صرف امریکی نقصانات پر بات کی اور صرف ذکر کیا کہ وہ امریکی بیٹوں اور بیٹیوں کو مزید کسی دور دراز کی زمین پر مرنے یا زخمی ہونے کےلیے نہیں بھیجا جائے گا؛ اور امریکی فوج کو ایسی جنگ نہیں لڑنی چاہیے جسے افغان فوج خود نہیں لڑنا چاہتی۔
یہ ایک انتہائی بےحس انسان کی تقریر تھی جس کی فوج نے بغیر کسی وجہ کے 20 سال تک بے گناہ بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو بے دریغ قتل اور بے گھر کیا۔ امریکی اور نیٹو افواج نے گھروں، اسکولوں، شادیوں، جنازوں یہاں تک کہ اسپتالوں پر بے دریغ گولہ باری کی لیکن امریکی صدر، بلکہ کسی عہدیدار کی زبان سے بھی، معذرت کا ایک لفظ تک نہیں نکلا۔
دراصل المیہ یہی ہے کہ مغرب والے باقی دنیا میں بسنے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔
ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد لوگ اس جنگ میں مارے گئے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار حقیقت میں ان مصائب اور مشکلات کو بیان نہیں کرتے جس کا سامنا افغانستان اور پاکستان نے بیس سال تک کیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اعداد و شمار میں وہ جانی و مالی نقصان بھی ہے جو اس جنگ کی وجہ سے پاکستان نے اٹھایا ہے؛ جس کا امریکا نے شاذ و نادر ہی ذکر کیا ہو یا اسے تسلیم کیا ہو۔
جنرل پرویز مشرف کے امریکی مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے تباہ کن فیصلے کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی (فوجی اور شہری) لقمہ اجل بنے اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، جبکہ آصف زرداری اور نواز شریف کے آخری دو ادوار میں امریکا کو پاکستان میں ڈرونز حملوں کی اجازت دی گئی جس میں بچوں سمیت سیکڑوں پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ دوسری طرف سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہے۔
اگر افغانستان میں جنگ پر امریکی اخراجات کی بات کریں تو پنٹاگون کے مطابق ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر لاگت کے اخراجات ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تو صرف ساز و سامان اور امریکی فوج کی بیس سال تک تنخواہوں کے اخراجات ہیں جبکہ تعمیر نو، ٹھیکیداروں کی بھرتیاں اور افغان فوج کی ٹریننگ کو شامل کیا جائے تو درحقیقت امریکا کے 2.26 ٹریلین (2,260 ارب) ڈالر افغان جنگ پر خرچ ہوئے ہیں۔
ان میں سے 145 ارب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ ہوئے لیکن درحقیقت امریکی تعمیر نو کے منصوبوں میں کوئی بھی پائیدار منصوبہ نہیں تھا۔ یہ منصوبے افغان عوام کی خدمت کےلیے نہیں بلکہ کاغذی ترقی دکھانے کےلیے تھے۔ دراصل ان سے امریکی ٹھیکیداروں اور ان کے سرپرستوں نے اپنی جیبیں بھریں اور چلتے بنے۔
افغانستان میں امریکی سرپرستی سے بننے والی حکومت کی توجہ صرف کرپشن اور لوٹ مار پر تھی۔ اس جنگ سے امریکا اور ان کے افغانی ایجنٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ حیرانی کی بات نہیں کہ افغانستان کے چند بڑے شہری مراکز سے صرف چند میل کے فاصلے پر لوگ ناقص غذا، صاف پانی کی کمی اور صحت کی سہولیات کی قلت جیسے سنگین انسانی مسائل کا شکار رہے جن کی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافے کی شرح بہت زیادہ تھی۔
20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کی وجہ سے افغانستان کی تقریباً 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
اگر امریکا نے افغانستان کے خلاف اپنی 20 سالہ جنگ میں خرچ کیے گئے 2.26 ٹریلین ڈالر 38 ملین کی افغان آبادی میں تقسیم کیے ہوتے تو ہر مرد، عورت اور بچے کو تقریباً 60 ہزار ڈالر ملتے۔ وہ امریکا کے خلاف لڑنے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کررہے ہوتے۔ کوئی امریکی، نیٹو، افغانی، پاکستانی اس جنگ کے نتیجے میں اپنی جان سے نہ جاتا اور ہزاروں شہری معذور نہ ہوتے۔
مگر یہ ہو نہ سکا... اور ایسا ہونا بھی نہیں تھا کیونکہ امریکی جرنیلوں، ملٹی نیشنل کارپوریشنوں، بینکوں اور اسلحہ بنانے والے کارخانوں کو امریکی عوام کی اجازت، منظوری اور علم میں لائے بغیر جنگ کے نام پر اخراجات کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔
امریکا کو ایک مافیا چلا رہا ہے جس کو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔