کوئی میرؔ بھی تھا
ریختے کے تمھی استاد نہیں ہو غالبؔ<br />
کہتے ہیں، اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
زباں فہمی 115
ریختے کے تمھی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں، اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
یہ اُس شاعر کا قول ہے جو راقم کے خیال میں، صحیح معنوں میں ہر دور میں غالب اور ہر دور پر غالب ہوا۔ خاکسار نے یہ بات اپنی تحریروتقریر اور تدریس میں کئی بار کہی، اب دوسرے بھی اسی طرح کہنے لگے ہیں۔ غالبؔ نے یہاں میرؔ کی استادی تسلیم کرتے ہوئے اپنی منفرد حیثیت بھی جتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
یہ شعر روانی میں پڑھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ بس جناب! با ت ختم...مگر نہیں صاحبو! بات ختم نہیں، شروع ہوئی ہے۔ چونکہ میرؔ کی انفرادیت اور ہمہ جہتی عظمت کے آگے غالبؔ کو بھی مجبوراً سرنگوں ہونا پڑا (عجز بیان کے سبب)، لہٰذا اُس نے اس شعر سمیت جہاں بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا، یہ بھی اظہار کیا کہ اُسے بھی استاد مانا جائے۔
ممکن ہے میرے بعض معاصرین میری اس ناقص رائے سے اتفاق نہ کریں، بہرحال شعرفہمی کا باب ہر ایک کے لیے یکساں طور پر وَا رہتا ہے۔ یہاں ناواقفین کے لیے عرض کردوں کہ میرزااسداللہ غالبؔ (۲۷ دسمبر ۱۷۹۷ء بمقام آگرہ تا ۱۵فروری ۱۸۶۹ء بمقام دہلی) کا عہد میرتقی میر (۱۷۲۳ء بمقام آگرہ تا ۱۰ستمبر ۱۸۱۰ء بمقام لکھنؤ)ؔ کے بعد کا ضرور ہے ، مگر ایسا بھی بُعدِزمانی (یعنی وقت کا فاصلہ) نہیں کہ صدیاں گزری ہوں اور غالبؔ نے محض اُن کا نام ہی سنا ہو۔ یہاں گویا ایک تجاہلِ عارفانہ ہے (جانتے بوجھتے انجان بننا)۔
حقیقت یہ ہے کہ جن دنوں میرؔ کا ڈنکا بڑے زورشور سے پِٹ رہا تھا تو غالبؔ جیسا توانا شاعر پیدا ہوا اور اُن کا لڑکپن تھا کہ یہ عظیم سخنور جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ ہاں ایک دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ دونوں عظیم شاعر ایک ہی شہر کے تھے، مگر انھیں شہرت دہلی میں قیام سے ملی، البتہ وفات کا مقام مختلف ہے۔ غالبؔ ہی نے کہا تھا:
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیرؔ نہیں
یہاںموصوف پھر وہی شرارت کرگئے......سیدھا سادہ بیان نہیں دیا، بلکہ ناسخؔ کے مصرع پر مصرع لگا کر بات مکمل کی اور بظاہر تو تائید ہی کی، مگر بین السطور یہ کہہ گئے کہ اصل میں چونکہ امام بخش ناسخ ؔ(۱۰ اپریل ۱۷۷۲ء بمقام فیض آباد، نزد لکھنؤ تا ۱۵اگست ۱۸۳۸ء بمقام لکھنؤ) جیسا عالم فاضل سخنور (اور ہمارا پیش رَو) بھی ایسا کہتا ہے، اس لیے ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ میرؔ کی بڑائی کا یوں اظہار کرکے اُن کے عقیدت مند شعراء میں نام لکھوالیں۔ ناسخؔ نے کہا تھا:
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیرؔ نہیں
ناسخؔ کی تاریخ پیدائش دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرؔ کے خورد معاصرین[Juniors] میں شامل تھے (خورد اور خُرد، دنوں طرح صحیح ہے)۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 'دبستان ِ لکھنؤکے بانی' کو ناصرف میدان ِ شعر میں، بلکہ لسانیات میں بھی اہم مقام حاصل ہوا۔ انھیں دیگر اُمور کے ساتھ ساتھ، کُشتی کے شوق کے سبب، مزاحاً ''پہلوانِ سخن'' بھی کہا گیا جو گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُنھیں پِچھاڑنا آسان نہیں، وہ اس قدر مستحکم سخنور ہیں۔
غالبؔ کے ہم پلہ، حریف ذوق ؔ نے بھی یوں میرؔ کی عظمت کو خراج پیش کیا تھا:
نہ ہوا، پر نہ ہوا، میرؔ کا انداز نصیب
ذوق!ؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
نیازفتح پوری کا قول منقول ہے: ''میرؔ کا سا غزل گو نہ اُس وقت ہوا، نہ آگے اس کی توقع ہے''۔ انھیں اٹھارویں صدی کا سب سے بڑا اردو شاعر قرار دیا جاتا ہے (ضمیمہ مشمولہ اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں از شمس الحق)، جو یقیناً اکثر اہل ادب کے نزدیک، کسی ایک صدی تک محدود اعزاز نہیں، بلکہ ایک قوی رائے یہ ہے کہ میرؔ ہی اردو کاسب سے بڑا سخنور ہے، اسی لیے اُسے خدائے سخن اور شہنشاہ غزل یا شہنشاہ تغزل کہنا بجا ہے۔ بڑے بڑے شعرائے کرام بشمول اساتذہ (متقدمین، متوسطین ومتأخرین) نے میرؔ کی شعری عظمت کے آگے سر خم کیا ہے۔ کون ہوگا جو اُن کی عظمت کا انکاری ہو؟ (چندایک ہیں...آگے چل کر انکشاف کروں گا)۔
میرؔ کے ہم عصر میرزا رفیع سودا:
سودا ؔ تُو اِس غزل کو غزل دَرغزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
(ذرا غور فرمائیے کہ وہ بڑا سخنور جس سے میرؔ کی چشمک رہا کرتی تھی، وہ بھی اس انداز میں انھیں خراج تحسین پیش کررہا ہے)۔
ذرا آگے چلیے تو معلوم ہوگا کہ ایک اور بڑے شاعر نے کس طرح میرؔ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تعلّیٰ کا اظہار کیا ہے (یعنی اپنی بڑائی بیان کی ہے)۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ (۱۷۴۷ء بمقام قصبہ اکبر پور، نزد پرانی دِلّی تا ۱۸۲۴ء بمقام لکھنؤ) کا بچپن امروہہ میں بسر ہوا اور آج بھی اہل امروہہ انھیں اپنے شہر کا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ اُن کے سن پیدائش میں اختلاف ہے، ۱۷۴۸، ۱۷۴۹ اور ۱۷۵۱ بھی درج کیا گیا)۔ مصحفیؔ کا شعر ہے:
گو کہ تُو میرؔ سے ہوا بہتر
مصحفیؔ! پھر بھی میرؔ، میر ہی ہے
یعنی یہ بھی ایک رَوِش تھی کہ اپنی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے میرؔ کی عظمت کا اعتراف کیا جائے۔ مصحفیؔ نے میرؔ کی وفات پر یہ کہا تھا:
اب خدا مغفرت کرے اُس کی
میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی
غالبؔ کے شاگرد اور سرسید احمد خاں کے ہم نوا، خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے غزل کواپنے تئیں 'سدھارنے' کی سعی فرمائی، مگر وہ بھی یہ کہہ گئے ہیں:
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے، مقلد ہے میرؔ کا
(حالانکہ اُن کی ابتدائی شاعری کے بعد، ایسا کوئی نمونہ کلام تلاش کرنا بھی محال ہے جو اُن کے اس بیان کی صداقت کا ثبوت ہو)۔
لَسّان العصر، فصیح المُلک نواب میرزا داغ ؔدہلوی جیسا ''زبان کا شاعر'' یعنی زبان کے بھرپور علم کا حامل اور غزل کو بامحاورہ زبان عطا کرنے میں اپنے استاد ذوقؔ کا صحیح جانشین بھی کہنے پر مجبور ہوا:
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے ، دیواں اُن کا
جدید غز ل کے انتہائی معروف سخنور، غزل کے احیاء اور گیسو سنوار کر اسے پھر سے نمایاں مقام دلانے والے، گویا محسن ِ غزل حسرتؔ موہانی نے جابجا میرؔ کی عظمت کا اعتراف کیا:
شعر میرے بھی ہیں پُردرد، ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں
٭
گزرے بہت استاد، مگر رنگِ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ، سخن ِ میرؔ اَبھی تک
٭
شعر سے تیرے ہوئی مصحفی ؔ ومیرؔ کے بعد
تازہ حسرتؔ، اثر وحُسن ِ بیاں کی رونق
٭
اکبر ؔالہ آبادی کو سنجیدہ شاعری سے زیادہ مزاحیہ شاعری میں اعتبار ومقام ملا۔ انھوں نے کہا تھا:
میں ہو ں کیا چیز جو اُس طر ز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
پٹنہ یعنی عظیم آباد میں غزل کی شمع روشن کرنے والے متأخرین میں ایک اہم نام راسخ ؔعظیم آبادی کا ہے جنھوں نے کہا تھا:
شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے، استاد ہمارا
(دیگر اشعار تو عام طور پر دستیاب ہیں، یہ شعر ہمیں ریختہ ڈاٹ آرگ سے ملا)
میرؔصاحب کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مقام کا بخوبی ادراک ہوچکا تھا۔ انھوں نے ایک موقع پر تعلّیٰ سے کام لیتے ہوئے فرمایا:
سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
یہ اور بات کہ جب وہ دلّی اجڑنے پر لکھنؤ پہنچے اور ایک شعری محفل میں اُن سے بے ادبی یا بدلحاظی ہوئی تو انھوں نے اپنا تعارف، دکھی دل سے یوں کرایا کہ یہ اشعار بھی ضرب المثل بن گئے:
کیا بُود وباش پوچھو ہو، پُورَب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دِلّی جو ایک شہر تھا عالَم میں انتخاب
رہتے تھے منتخَب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیا رکے
وہ برملا یہ اعلان کرتے تھے کہ:
جانے کا نہیں شور، سخن کا مِرے ہرگز
تاحشر جہاں میں، مِرا دیوان رہے گا
جدید دور میں اپنے منفرد اسلوب سے شہرت پانے والے شاعر اِبن انشانے ان الفاظ میں میرؔ صاحب کا ذکر ِخیر کیا:
اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
ہر دور میں اہل قلم اور صاحبان نقدونظر نے میرؔ کو دوسروں سے ممتا ز اور منفرد قرار دیا۔ مولوی عبدالحق سے لے کر، سلیم احمد اور ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی تک۔ فاروقی مرحوم نے تو میرؔ کو غالب ؔ پر اس لحاظ سے فوقیت دی کہ بقول اُن کے، میرؔ کے کلام جیسی کیف ومعنی آفرینی، غالبؔ کے یہاں مفقود ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے میرؔ کو ''ہندی الفاظ کے رَس والا، پوری اردو کا پورا شاعر'' قرار دیا۔
(بابائے اردو مولوی عبدالحق یادگاری خطبہ بعنوان اسلوبیاتِ میر، مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، سن ۱۹۸۵ء)۔ نارنگ نے اپنے پیش رو پروفیسر رشید احمد صدیقی کے الفاظ دُہراتے ہوئے انھیں حق بجانب قرار دیا ہے۔ رشید صاحب نے فرمایا:''دوسرے ممتاز شعراء کی مخصوص زبان میں اتنی 'اردوئیت' یا 'اردوپَن' نہیں، جتنا میر ؔ کے یہاں ہے''۔ بقول ڈاکٹربھولاناتھ تیواڑی، میرؔ اردو اور ہندی دونوں کے شاعر ہیں۔
نامور شاعر ونقادسلیم احمدمرحوم نے غالبؔ کی فکری عظمت کے باب میں نفسیاتی تجزیہ بعنوان 'غالبؔ کون؟' بہت عمدگی سے فرمایا۔ وہ غالبؔ کی عظمت کے قائل ہوتے ہوئے بھی انھیں، میرؔ کے آگے ہیچ گردانتے تھے۔ فرمایا: ''میر ؔ اردو شاعری کی عظمت ودَوام کے پُل صراط پر بجلی کی طرح گزر گیا۔ غالبؔ گزر رہا ہے، مگر دیکھیے آیندہ کیا ہوتا ہے''۔ اُن کی کتاب 'مضامین' میں شامل اس مضمون پر بہت کچھ ہمارے بزرگ کرم فرما پروفیسر نظیر صدیقی لکھ گئے ہیں جو یہاں تک کہہ گئے کہ ''بعض مقامات پر وہ بہت بڑے غالبؔ پرست بھی نظر آتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر اُن کی یہ کتاب ایک مُنکرِغالبؔ کی روح کی ترجمان ہے''۔ ('ادبی جائزے'از پروفیسر نظیر صدیقی)۔
میرؔکے طرزِسخن کی تقلید اور نقل دِلّی، لکھنؤ، بہِار، بنگال اور پنجاب سمیت پورے خطے کے بہت سے نامور، مشہور، مقبول، کم معروف، حتیٰ کہ گم نام شعراء نے کی ۔یا۔کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی بھی یہ نہ کہہ سکا کہ میں بعینہ میرؔ کا نقشِ ثانی ہوں، البتہ مختلف ادوار میں کسی شاعر کے کسی مدّاح نے انھیں 'میرِثانی' قرار دیا ہو تو وہ ایک الگ معاملہ ہے جیسا کہ شادؔعظیم آبادی کے شاگرد، حسرتؔ عظیم آبادی نے اُنھیں ''میرؔثانی'' کا لقب دیا تھا۔ جدیدعہد میں ناصر کاظمی کو میرؔ کے آہنگ کا شاعر کہا گیا۔
ہمارے ایک بزرگ معاصر، (اپنی زندگی کے بہتر اور کامیاب حصے سے زیادہ) اپنی محرومی اور پے درپے ناکامی کا رونا، شاید ہمہ وقت، ہر کَس وناکَس کے سامنے روتے ہیں۔ خود بتاتے ہیں کہ میں نے یوں، اپنی دولت خوب مئے نوشی میں لُٹائی۔
خیر یہ تو کوئی ایسی انوکھی بات نہیں۔ بتانے والی بات یہ ہے کہ ایک دن اُن کے گھر پر ہم چار معاصرین پہنچے، جن میں ایک صاحب اُن کے گھر کے نیچے والے فلیٹ میں مقیم تھے۔ موصوف نے زیادہ پی رکھی تھی یا اُس دن زیادہ چڑھ گئی تھی....برسبیل تذکرہ کسی بات پر کہنے لگے کہ میرؔ کوئی شاعر تھا.....(یہاں گالیاں)....یہ کیا شعر کہا اُس نے، نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے+پنکھڑی اِک گلا ب کی سی ہے.....اور وہ جو دوسرا ایک شعر ہے ......(یہاں گالیاں) وہ کیا ہے.....میں ایسے دو لاکھ شعر کہہ سکتا ہوں.....وہ کوئی شاعر تھا۔ خاکسار کو مدہوش لوگوں سے کم کم واسطہ پڑا ہے۔
اس لیے ان کی کیفیت سمجھنے میں دیر لگتی ہے۔ ہم چار معاصرین میں سب سے کم عمر اور شاعری میں ناتجربہ کار یہی راقم تھا۔ اُس وقت ہم لوگ موصوف کے گھر سے رخصت ہونے لگے تھے کہ رات بھی ہوگئی، زندگی میں اور بھی کام ہیں۔
اُن کی کیفیت دیکھ کر اُن کے پڑوسی شاعر نے اُنھیں باقاعدہ گرفت میں لے کر سمجھانا شروع کیا اور اُنھی کے ذخیرہ کتب سے کوئی کتاب اٹھا کر بڑے رَسان سے کہنے لگے، نہیں نہیں .....ایسا نہیں ہے.....اب یہ شعر دیکھو.....اب یہ ذرا دیکھو، سمجھو تو سہی .....اُس نے کیا کہا ہے۔ خیر وہ صاحب کچھ کچھ ٹھنڈے ہوتے نظر آئے تو ہم نے کوچ کیا۔ باہر نکلے تو ہم تینوں کی حالت عجب تھی (چوتھے صاحب تو وہیں اپنے فلیٹ تشریف لے گئے تھے)، راستے میں کچھ دور تک پیدل ساتھ رہا، میرا گھر سامنے علاقے میں تھا۔ ہم میں ایک بزرگ (اَب مرحوم) بہت بَراَفروختہ تھے کہ کیا بک رہا تھا یہ ...دوسرے بزرگ نے بھی کچھ فرمایا۔ طے یہ ہوا کہ اس بے ادبی کا جواب ادبی پیرائے میں دینا چاہیے۔ میں نے کہا کہ غالبؔ کی مکتوب نگاری کے انداز میں کچھ لکھا جائے۔
دونوں بزرگوں نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی لکھ سکتے ہیں۔ میں نے عذر پیش کیا کہ میں اس قسم کی تحریر میں تجربے کا حامل نہیں، وہ فُلاں بزرگ بہت اچھا لکھتے ہیں، طنزومزاح نگاری میں برنگ ِغالبؔ داد بھی وصول کرچکے ہیں، مگر اِن دونوں نے اصرار کیا کہ نہیں، آپ ہی لکھیں گے۔ دوسرے بزرگ کا ادبی رسالہ تھا جس کا بے نام مدیر [De-facto Editor] بھی یہی راقم تھا۔ قصہ مختصر! میں نے غالبؔ کی طرف سے ایک خط، علمی رنگ میں، میرؔ کے نام لکھا کہ پہلے تو ''غالب شکن'' ہوا کرتے تھے، اَب ایک ''میرؔشکن '' بھی پیدا ہوگیا ہے۔ یہ خط شایع ہوا اور قدرے پذیرائی بھی ملی۔
کچھ عرصے کے بعد انھی ''میرؔ مخالف'' شاعر نے اپنا مجموعہ کلام شایع کیا تو ایک بزرگ محقق، ادیب و شاعر سے اپنی شان میں ایک مضمون لکھوایا جس کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ شاعر موصوف، میرؔ کے رنگ میں شعر کہنے کی مہارت رکھتے ہیں.....ہم سب کا غصے، افسوس اور حیرت سے بُرا حال تھا۔
اُن بزرگ (اب مرحوم) سے ملاقات بہت کم کم ہوا کرتی تھی۔ آخری دنوں میں ایک مرتبہ ٹیلی فون کال پر ہلکا سا شکوہ کیا.....یاد نہیں، انھوں نے کیا کہہ کر، ہنس کر ٹال دیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ میرؔ اگر کوئی بُت ہے تو اتنا بڑا ہے کہ بہکے ہوئے شاعر کو جب ہوش آتا ہے تو اپنے آپ کو میرؔ سے بڑا یا بہتر نہیں، بلکہ اُن کے رنگ کا شاعر بتانے پر زرِکثیر صَرف کردیتا ہے۔ وہ موصوف اگر یہ تحریر پڑھیں تو ممکن ہے سارے معاملے کے وقوع سے انکار کردیں، مگر ابھی اس کے تین گواہ (بشمول خاکسار) زندہ ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض کروں کہ میرؔ کا شعری ورثہ اُن کے فرزند میر کلّو عرشؔ کے ذریعے منصہ شہود پر آیا، وہی جن کا مشہور ِ زمانہ شعر ہے:
دنیا میں فکریاں ہے، عدم میں عذاب ہے
ہر طرح سے غریب کی مٹی خراب ہے
خاکسار نے ماقبل زباں فہمی نمبر 105(کلّو، کلّو'، کُلُو اور کالا کُلُو) مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ گیارہ جولائی سن دوہزار اکیس میں فرزندانِ میرؔ، میر کلّو عرش ؔاور فیض علی فیضؔ کا ذکر کیا ہے۔
(مطالعے کے شوقین قارئین کرام اس ربط پر ملاحظہ فرمائیں:
https://www.express.pk/story/2200003/1/)
ریختے کے تمھی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں، اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
یہ اُس شاعر کا قول ہے جو راقم کے خیال میں، صحیح معنوں میں ہر دور میں غالب اور ہر دور پر غالب ہوا۔ خاکسار نے یہ بات اپنی تحریروتقریر اور تدریس میں کئی بار کہی، اب دوسرے بھی اسی طرح کہنے لگے ہیں۔ غالبؔ نے یہاں میرؔ کی استادی تسلیم کرتے ہوئے اپنی منفرد حیثیت بھی جتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
یہ شعر روانی میں پڑھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ بس جناب! با ت ختم...مگر نہیں صاحبو! بات ختم نہیں، شروع ہوئی ہے۔ چونکہ میرؔ کی انفرادیت اور ہمہ جہتی عظمت کے آگے غالبؔ کو بھی مجبوراً سرنگوں ہونا پڑا (عجز بیان کے سبب)، لہٰذا اُس نے اس شعر سمیت جہاں بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا، یہ بھی اظہار کیا کہ اُسے بھی استاد مانا جائے۔
ممکن ہے میرے بعض معاصرین میری اس ناقص رائے سے اتفاق نہ کریں، بہرحال شعرفہمی کا باب ہر ایک کے لیے یکساں طور پر وَا رہتا ہے۔ یہاں ناواقفین کے لیے عرض کردوں کہ میرزااسداللہ غالبؔ (۲۷ دسمبر ۱۷۹۷ء بمقام آگرہ تا ۱۵فروری ۱۸۶۹ء بمقام دہلی) کا عہد میرتقی میر (۱۷۲۳ء بمقام آگرہ تا ۱۰ستمبر ۱۸۱۰ء بمقام لکھنؤ)ؔ کے بعد کا ضرور ہے ، مگر ایسا بھی بُعدِزمانی (یعنی وقت کا فاصلہ) نہیں کہ صدیاں گزری ہوں اور غالبؔ نے محض اُن کا نام ہی سنا ہو۔ یہاں گویا ایک تجاہلِ عارفانہ ہے (جانتے بوجھتے انجان بننا)۔
حقیقت یہ ہے کہ جن دنوں میرؔ کا ڈنکا بڑے زورشور سے پِٹ رہا تھا تو غالبؔ جیسا توانا شاعر پیدا ہوا اور اُن کا لڑکپن تھا کہ یہ عظیم سخنور جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ ہاں ایک دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ دونوں عظیم شاعر ایک ہی شہر کے تھے، مگر انھیں شہرت دہلی میں قیام سے ملی، البتہ وفات کا مقام مختلف ہے۔ غالبؔ ہی نے کہا تھا:
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیرؔ نہیں
یہاںموصوف پھر وہی شرارت کرگئے......سیدھا سادہ بیان نہیں دیا، بلکہ ناسخؔ کے مصرع پر مصرع لگا کر بات مکمل کی اور بظاہر تو تائید ہی کی، مگر بین السطور یہ کہہ گئے کہ اصل میں چونکہ امام بخش ناسخ ؔ(۱۰ اپریل ۱۷۷۲ء بمقام فیض آباد، نزد لکھنؤ تا ۱۵اگست ۱۸۳۸ء بمقام لکھنؤ) جیسا عالم فاضل سخنور (اور ہمارا پیش رَو) بھی ایسا کہتا ہے، اس لیے ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ میرؔ کی بڑائی کا یوں اظہار کرکے اُن کے عقیدت مند شعراء میں نام لکھوالیں۔ ناسخؔ نے کہا تھا:
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیرؔ نہیں
ناسخؔ کی تاریخ پیدائش دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرؔ کے خورد معاصرین[Juniors] میں شامل تھے (خورد اور خُرد، دنوں طرح صحیح ہے)۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 'دبستان ِ لکھنؤکے بانی' کو ناصرف میدان ِ شعر میں، بلکہ لسانیات میں بھی اہم مقام حاصل ہوا۔ انھیں دیگر اُمور کے ساتھ ساتھ، کُشتی کے شوق کے سبب، مزاحاً ''پہلوانِ سخن'' بھی کہا گیا جو گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُنھیں پِچھاڑنا آسان نہیں، وہ اس قدر مستحکم سخنور ہیں۔
غالبؔ کے ہم پلہ، حریف ذوق ؔ نے بھی یوں میرؔ کی عظمت کو خراج پیش کیا تھا:
نہ ہوا، پر نہ ہوا، میرؔ کا انداز نصیب
ذوق!ؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
نیازفتح پوری کا قول منقول ہے: ''میرؔ کا سا غزل گو نہ اُس وقت ہوا، نہ آگے اس کی توقع ہے''۔ انھیں اٹھارویں صدی کا سب سے بڑا اردو شاعر قرار دیا جاتا ہے (ضمیمہ مشمولہ اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں از شمس الحق)، جو یقیناً اکثر اہل ادب کے نزدیک، کسی ایک صدی تک محدود اعزاز نہیں، بلکہ ایک قوی رائے یہ ہے کہ میرؔ ہی اردو کاسب سے بڑا سخنور ہے، اسی لیے اُسے خدائے سخن اور شہنشاہ غزل یا شہنشاہ تغزل کہنا بجا ہے۔ بڑے بڑے شعرائے کرام بشمول اساتذہ (متقدمین، متوسطین ومتأخرین) نے میرؔ کی شعری عظمت کے آگے سر خم کیا ہے۔ کون ہوگا جو اُن کی عظمت کا انکاری ہو؟ (چندایک ہیں...آگے چل کر انکشاف کروں گا)۔
میرؔ کے ہم عصر میرزا رفیع سودا:
سودا ؔ تُو اِس غزل کو غزل دَرغزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
(ذرا غور فرمائیے کہ وہ بڑا سخنور جس سے میرؔ کی چشمک رہا کرتی تھی، وہ بھی اس انداز میں انھیں خراج تحسین پیش کررہا ہے)۔
ذرا آگے چلیے تو معلوم ہوگا کہ ایک اور بڑے شاعر نے کس طرح میرؔ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تعلّیٰ کا اظہار کیا ہے (یعنی اپنی بڑائی بیان کی ہے)۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ (۱۷۴۷ء بمقام قصبہ اکبر پور، نزد پرانی دِلّی تا ۱۸۲۴ء بمقام لکھنؤ) کا بچپن امروہہ میں بسر ہوا اور آج بھی اہل امروہہ انھیں اپنے شہر کا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ اُن کے سن پیدائش میں اختلاف ہے، ۱۷۴۸، ۱۷۴۹ اور ۱۷۵۱ بھی درج کیا گیا)۔ مصحفیؔ کا شعر ہے:
گو کہ تُو میرؔ سے ہوا بہتر
مصحفیؔ! پھر بھی میرؔ، میر ہی ہے
یعنی یہ بھی ایک رَوِش تھی کہ اپنی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے میرؔ کی عظمت کا اعتراف کیا جائے۔ مصحفیؔ نے میرؔ کی وفات پر یہ کہا تھا:
اب خدا مغفرت کرے اُس کی
میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی
غالبؔ کے شاگرد اور سرسید احمد خاں کے ہم نوا، خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے غزل کواپنے تئیں 'سدھارنے' کی سعی فرمائی، مگر وہ بھی یہ کہہ گئے ہیں:
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے، مقلد ہے میرؔ کا
(حالانکہ اُن کی ابتدائی شاعری کے بعد، ایسا کوئی نمونہ کلام تلاش کرنا بھی محال ہے جو اُن کے اس بیان کی صداقت کا ثبوت ہو)۔
لَسّان العصر، فصیح المُلک نواب میرزا داغ ؔدہلوی جیسا ''زبان کا شاعر'' یعنی زبان کے بھرپور علم کا حامل اور غزل کو بامحاورہ زبان عطا کرنے میں اپنے استاد ذوقؔ کا صحیح جانشین بھی کہنے پر مجبور ہوا:
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے ، دیواں اُن کا
جدید غز ل کے انتہائی معروف سخنور، غزل کے احیاء اور گیسو سنوار کر اسے پھر سے نمایاں مقام دلانے والے، گویا محسن ِ غزل حسرتؔ موہانی نے جابجا میرؔ کی عظمت کا اعتراف کیا:
شعر میرے بھی ہیں پُردرد، ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں
٭
گزرے بہت استاد، مگر رنگِ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ، سخن ِ میرؔ اَبھی تک
٭
شعر سے تیرے ہوئی مصحفی ؔ ومیرؔ کے بعد
تازہ حسرتؔ، اثر وحُسن ِ بیاں کی رونق
٭
اکبر ؔالہ آبادی کو سنجیدہ شاعری سے زیادہ مزاحیہ شاعری میں اعتبار ومقام ملا۔ انھوں نے کہا تھا:
میں ہو ں کیا چیز جو اُس طر ز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
پٹنہ یعنی عظیم آباد میں غزل کی شمع روشن کرنے والے متأخرین میں ایک اہم نام راسخ ؔعظیم آبادی کا ہے جنھوں نے کہا تھا:
شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے، استاد ہمارا
(دیگر اشعار تو عام طور پر دستیاب ہیں، یہ شعر ہمیں ریختہ ڈاٹ آرگ سے ملا)
میرؔصاحب کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مقام کا بخوبی ادراک ہوچکا تھا۔ انھوں نے ایک موقع پر تعلّیٰ سے کام لیتے ہوئے فرمایا:
سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
یہ اور بات کہ جب وہ دلّی اجڑنے پر لکھنؤ پہنچے اور ایک شعری محفل میں اُن سے بے ادبی یا بدلحاظی ہوئی تو انھوں نے اپنا تعارف، دکھی دل سے یوں کرایا کہ یہ اشعار بھی ضرب المثل بن گئے:
کیا بُود وباش پوچھو ہو، پُورَب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دِلّی جو ایک شہر تھا عالَم میں انتخاب
رہتے تھے منتخَب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیا رکے
وہ برملا یہ اعلان کرتے تھے کہ:
جانے کا نہیں شور، سخن کا مِرے ہرگز
تاحشر جہاں میں، مِرا دیوان رہے گا
جدید دور میں اپنے منفرد اسلوب سے شہرت پانے والے شاعر اِبن انشانے ان الفاظ میں میرؔ صاحب کا ذکر ِخیر کیا:
اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
ہر دور میں اہل قلم اور صاحبان نقدونظر نے میرؔ کو دوسروں سے ممتا ز اور منفرد قرار دیا۔ مولوی عبدالحق سے لے کر، سلیم احمد اور ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی تک۔ فاروقی مرحوم نے تو میرؔ کو غالب ؔ پر اس لحاظ سے فوقیت دی کہ بقول اُن کے، میرؔ کے کلام جیسی کیف ومعنی آفرینی، غالبؔ کے یہاں مفقود ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے میرؔ کو ''ہندی الفاظ کے رَس والا، پوری اردو کا پورا شاعر'' قرار دیا۔
(بابائے اردو مولوی عبدالحق یادگاری خطبہ بعنوان اسلوبیاتِ میر، مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، سن ۱۹۸۵ء)۔ نارنگ نے اپنے پیش رو پروفیسر رشید احمد صدیقی کے الفاظ دُہراتے ہوئے انھیں حق بجانب قرار دیا ہے۔ رشید صاحب نے فرمایا:''دوسرے ممتاز شعراء کی مخصوص زبان میں اتنی 'اردوئیت' یا 'اردوپَن' نہیں، جتنا میر ؔ کے یہاں ہے''۔ بقول ڈاکٹربھولاناتھ تیواڑی، میرؔ اردو اور ہندی دونوں کے شاعر ہیں۔
نامور شاعر ونقادسلیم احمدمرحوم نے غالبؔ کی فکری عظمت کے باب میں نفسیاتی تجزیہ بعنوان 'غالبؔ کون؟' بہت عمدگی سے فرمایا۔ وہ غالبؔ کی عظمت کے قائل ہوتے ہوئے بھی انھیں، میرؔ کے آگے ہیچ گردانتے تھے۔ فرمایا: ''میر ؔ اردو شاعری کی عظمت ودَوام کے پُل صراط پر بجلی کی طرح گزر گیا۔ غالبؔ گزر رہا ہے، مگر دیکھیے آیندہ کیا ہوتا ہے''۔ اُن کی کتاب 'مضامین' میں شامل اس مضمون پر بہت کچھ ہمارے بزرگ کرم فرما پروفیسر نظیر صدیقی لکھ گئے ہیں جو یہاں تک کہہ گئے کہ ''بعض مقامات پر وہ بہت بڑے غالبؔ پرست بھی نظر آتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر اُن کی یہ کتاب ایک مُنکرِغالبؔ کی روح کی ترجمان ہے''۔ ('ادبی جائزے'از پروفیسر نظیر صدیقی)۔
میرؔکے طرزِسخن کی تقلید اور نقل دِلّی، لکھنؤ، بہِار، بنگال اور پنجاب سمیت پورے خطے کے بہت سے نامور، مشہور، مقبول، کم معروف، حتیٰ کہ گم نام شعراء نے کی ۔یا۔کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی بھی یہ نہ کہہ سکا کہ میں بعینہ میرؔ کا نقشِ ثانی ہوں، البتہ مختلف ادوار میں کسی شاعر کے کسی مدّاح نے انھیں 'میرِثانی' قرار دیا ہو تو وہ ایک الگ معاملہ ہے جیسا کہ شادؔعظیم آبادی کے شاگرد، حسرتؔ عظیم آبادی نے اُنھیں ''میرؔثانی'' کا لقب دیا تھا۔ جدیدعہد میں ناصر کاظمی کو میرؔ کے آہنگ کا شاعر کہا گیا۔
ہمارے ایک بزرگ معاصر، (اپنی زندگی کے بہتر اور کامیاب حصے سے زیادہ) اپنی محرومی اور پے درپے ناکامی کا رونا، شاید ہمہ وقت، ہر کَس وناکَس کے سامنے روتے ہیں۔ خود بتاتے ہیں کہ میں نے یوں، اپنی دولت خوب مئے نوشی میں لُٹائی۔
خیر یہ تو کوئی ایسی انوکھی بات نہیں۔ بتانے والی بات یہ ہے کہ ایک دن اُن کے گھر پر ہم چار معاصرین پہنچے، جن میں ایک صاحب اُن کے گھر کے نیچے والے فلیٹ میں مقیم تھے۔ موصوف نے زیادہ پی رکھی تھی یا اُس دن زیادہ چڑھ گئی تھی....برسبیل تذکرہ کسی بات پر کہنے لگے کہ میرؔ کوئی شاعر تھا.....(یہاں گالیاں)....یہ کیا شعر کہا اُس نے، نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے+پنکھڑی اِک گلا ب کی سی ہے.....اور وہ جو دوسرا ایک شعر ہے ......(یہاں گالیاں) وہ کیا ہے.....میں ایسے دو لاکھ شعر کہہ سکتا ہوں.....وہ کوئی شاعر تھا۔ خاکسار کو مدہوش لوگوں سے کم کم واسطہ پڑا ہے۔
اس لیے ان کی کیفیت سمجھنے میں دیر لگتی ہے۔ ہم چار معاصرین میں سب سے کم عمر اور شاعری میں ناتجربہ کار یہی راقم تھا۔ اُس وقت ہم لوگ موصوف کے گھر سے رخصت ہونے لگے تھے کہ رات بھی ہوگئی، زندگی میں اور بھی کام ہیں۔
اُن کی کیفیت دیکھ کر اُن کے پڑوسی شاعر نے اُنھیں باقاعدہ گرفت میں لے کر سمجھانا شروع کیا اور اُنھی کے ذخیرہ کتب سے کوئی کتاب اٹھا کر بڑے رَسان سے کہنے لگے، نہیں نہیں .....ایسا نہیں ہے.....اب یہ شعر دیکھو.....اب یہ ذرا دیکھو، سمجھو تو سہی .....اُس نے کیا کہا ہے۔ خیر وہ صاحب کچھ کچھ ٹھنڈے ہوتے نظر آئے تو ہم نے کوچ کیا۔ باہر نکلے تو ہم تینوں کی حالت عجب تھی (چوتھے صاحب تو وہیں اپنے فلیٹ تشریف لے گئے تھے)، راستے میں کچھ دور تک پیدل ساتھ رہا، میرا گھر سامنے علاقے میں تھا۔ ہم میں ایک بزرگ (اَب مرحوم) بہت بَراَفروختہ تھے کہ کیا بک رہا تھا یہ ...دوسرے بزرگ نے بھی کچھ فرمایا۔ طے یہ ہوا کہ اس بے ادبی کا جواب ادبی پیرائے میں دینا چاہیے۔ میں نے کہا کہ غالبؔ کی مکتوب نگاری کے انداز میں کچھ لکھا جائے۔
دونوں بزرگوں نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی لکھ سکتے ہیں۔ میں نے عذر پیش کیا کہ میں اس قسم کی تحریر میں تجربے کا حامل نہیں، وہ فُلاں بزرگ بہت اچھا لکھتے ہیں، طنزومزاح نگاری میں برنگ ِغالبؔ داد بھی وصول کرچکے ہیں، مگر اِن دونوں نے اصرار کیا کہ نہیں، آپ ہی لکھیں گے۔ دوسرے بزرگ کا ادبی رسالہ تھا جس کا بے نام مدیر [De-facto Editor] بھی یہی راقم تھا۔ قصہ مختصر! میں نے غالبؔ کی طرف سے ایک خط، علمی رنگ میں، میرؔ کے نام لکھا کہ پہلے تو ''غالب شکن'' ہوا کرتے تھے، اَب ایک ''میرؔشکن '' بھی پیدا ہوگیا ہے۔ یہ خط شایع ہوا اور قدرے پذیرائی بھی ملی۔
کچھ عرصے کے بعد انھی ''میرؔ مخالف'' شاعر نے اپنا مجموعہ کلام شایع کیا تو ایک بزرگ محقق، ادیب و شاعر سے اپنی شان میں ایک مضمون لکھوایا جس کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ شاعر موصوف، میرؔ کے رنگ میں شعر کہنے کی مہارت رکھتے ہیں.....ہم سب کا غصے، افسوس اور حیرت سے بُرا حال تھا۔
اُن بزرگ (اب مرحوم) سے ملاقات بہت کم کم ہوا کرتی تھی۔ آخری دنوں میں ایک مرتبہ ٹیلی فون کال پر ہلکا سا شکوہ کیا.....یاد نہیں، انھوں نے کیا کہہ کر، ہنس کر ٹال دیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ میرؔ اگر کوئی بُت ہے تو اتنا بڑا ہے کہ بہکے ہوئے شاعر کو جب ہوش آتا ہے تو اپنے آپ کو میرؔ سے بڑا یا بہتر نہیں، بلکہ اُن کے رنگ کا شاعر بتانے پر زرِکثیر صَرف کردیتا ہے۔ وہ موصوف اگر یہ تحریر پڑھیں تو ممکن ہے سارے معاملے کے وقوع سے انکار کردیں، مگر ابھی اس کے تین گواہ (بشمول خاکسار) زندہ ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض کروں کہ میرؔ کا شعری ورثہ اُن کے فرزند میر کلّو عرشؔ کے ذریعے منصہ شہود پر آیا، وہی جن کا مشہور ِ زمانہ شعر ہے:
دنیا میں فکریاں ہے، عدم میں عذاب ہے
ہر طرح سے غریب کی مٹی خراب ہے
خاکسار نے ماقبل زباں فہمی نمبر 105(کلّو، کلّو'، کُلُو اور کالا کُلُو) مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ گیارہ جولائی سن دوہزار اکیس میں فرزندانِ میرؔ، میر کلّو عرش ؔاور فیض علی فیضؔ کا ذکر کیا ہے۔
(مطالعے کے شوقین قارئین کرام اس ربط پر ملاحظہ فرمائیں:
https://www.express.pk/story/2200003/1/)