سارے رنگ

قائداعظم کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ ان کی تصویر کے ساتھ کسی اور شخصیت کی تصویر بھی نہیں لگائی جا سکتی۔۔۔!


Rizwan Tahir Mubeen September 19, 2021
موروثی سیاست، ان پڑھ حکم راں، جاگیردارانہ نظام اور بہت سے سیاسی مسائل کی وجہ ملک میں طلبہ یونین پر پابندی بھی ہے۔ فوٹو : فائل

'بانیان پاکستان' کا مقام سب سے بلند رہنا چاہیے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ط۔ م

ہر ملک کی تاریخ میں بہت سی نام وَر اور مشہور شخصیات ہوتی ہیں۔۔۔ اگرچہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، لیکن کچھ نام ہمیشہ کے لیے سرفہرست ہوتے ہیں۔۔۔ وقت کی رفتار اور زمانے کی گَرد بھی ان کے اونچے مقام اور مرتبے کو متاثر نہیں کر پاتی، اپنی قومی تاریخ میں ہم انھیں جدوجہد آزادی اور تحریک پاکستان کے راہ نماؤں کے طور پر یاد کرتے ہیں۔۔۔

چوں کہ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اس ملک کا قیام عمل میں آیا، چناں چہ ہمارے راہ نماؤں کی درجہ بندی میں متفقہ طور پر انھیں سب سے پہلے رکھا جاتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سرکاری ادارے اور دفتر میں ایک مخصوص جگہ پر ان کی شبیہ یا تصویر لازمی طور پر آویزاں کی جاتی ہے، یہ ان کو یاد رکھنے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے اور انھیں خراج عقیدت بھی، کہ ان جیسا اور کوئی نہیں۔۔۔!

پاکستان کو قائم ہوئے ہوئے اب لگ بھگ 75 برس ہونے کو ہیں۔۔۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اور بھی بہت سے نام معتبر اور نام وَر ہوئے، جنھوں نے اپنے اپنے طور پر ملک کا نام روشن کیا اور دنیا بھر میں ہماری نیک نامی میں اضافہ کیا۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی 'بانیٔ پاکستان' کا مرتبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سب سے بلند جگہ پر طے شدہ ہے، اس لیے کوئی بھی ذی شعور پاکستان کے کسی بھی محسن اور قدآور شخصیت کو سرکاری عزت واحترام کے خانے میں قائداعظم کے مقام کے برابر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔

جیسے پاکستان کے پرچم کے برابر کوئی اور جھنڈا نہیں ہونا چاہیے، بالکل ایسے ہی قائداعظم کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ ان کی تصویر کے ساتھ کسی اور شخصیت کی تصویر بھی نہیں لگائی جا سکتی۔۔۔! ایسا کرنا براہ راست قومی پرچم اور بانیٔ پاکستان کے مرتبے کو کم کرنے کے مترادف ہوگا۔۔۔ لیکن اسے ناسمجھی کہیں یا کچھ اور کہ چند برس پہلے ایک صوبائی وزیر کی گاڑی پر روایتی انداز میں پاکستانی پرچم کے بالکل دوسری جانب ان کی سیاسی جماعت کا پرچم دیکھا۔۔۔! یہ پہلا منظر تھا۔

اس لیے ہم چونکے، مگر اس کے بعد یہ بات اتنی عام ہوئی کہ اچنبھے والی کوئی بات ہی نہیں رہی۔۔۔ پہلے سیاست داں ہزار اپنی سیاسی جماعتوں سے وفادار ہوتے ہوں، لیکن جب کسی ریاستی منصب پر فائز ہوتے تھے، تو پھر وہ صرف ریاست کے نمائندے اور عہدے دار ہوتے تھے، اب شاید اس وضع داری کا فقدان ہونے لگا ہے۔۔۔ اکثر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ایک وفد سے ملاقات کی تصویر دیکھی، تو درمیان میں پاکستان کے پرچم کے ساتھ ان کی سیاسی جماعت کا پرچم بھی موجود ہوتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ دیوار پر قائداعظم کی تصویر کے ساتھ نیچے ان کی پوری سیاسی قیادت ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی تصویریں بھی موجود ہوتی ہیں۔۔۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے، آپ کی سیاسی جماعت ہے، اپنی سوچ اور نظریات ہیں، لیکن جب آپ منتخب ہو گئے ہیں، تو اب آپ پہلے ریاستی نمائندے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری ایوان میں صرف اپنے ریاستی مرتبے کا ہی پرچار کیجیے اور ساتھ 'بانیٔ پاکستان' کی جگہ اور ان کے آزو بازو مزید کسی سیاسی شخصیت کی تصاویر آویزاں کرنے سے بالکل گریز کیجیے، یہی قائداعظم کے سرکاری اور ریاستی مرتبے کا تقاضا ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس ریاست کے اصل 'قائد' وہی ہیں۔

کچھ اسی قسم کا منظر ہم اکثر ناظم آباد عید گاہ سے گزرتے ہوئے بھی دیکھتے تھے کہ 'عید گاہ' کے دروازوں کو مختلف سیاسی ناموں سے موسوم کیا گیا ہے، گذشتہ دنوں پانی پر تفصیلی فیچر کرنے کی غرض سے وہاں سے گزر ہوا، تو ہم نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر اس کے گرد پھیرا لگایا، جس پر انکشاف ہوا کہ سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال اور سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد ہی نہیں، 'عید گاہ' کے ایک دروازے کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے بھی منسوب کیا گیا ہے، جب کہ باقی دو دروازے بالترتیب 'باب لیاقت علی خان' اور 'باب قائد' بنائے گئے تھے۔۔۔ ہم نے پانچوں دروازوں کی تصاویر محفوظ کرلیں۔

پہلے تو ہمیں صرف ایک عوامی سہولت کی چیز پر سیاسی عہدے داروں کے نام پر ہی بات کرنی تھی، لیکن جب ساتھ ساتھ 'شہید ملت' اور 'بانیٔ پاکستان' سے منسوب دروازے دیکھے، تو اِس صورت حال پر بات کرنا اور بھی ضروری ہوگیا، یعنی ایک درجہ جو 'بانیانِ پاکستان' کو دیا گیا، وہی ایک وقت کے صدر، گورنر اور ناظمِ شہر کو بھی دے دیا گیا۔۔۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ تینوں اشخاص کے لیے کراچی میں بہت سے لوگ اچھی رائے بھی رکھتے ہیں اور ان کے اُس وقت کے مثبت کردار کو سراہتے بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ نہایت غیر مناسب امر ہے کہ آپ انھیں اٹھا کر قائد اور لیاقت علی کے درجے میں رکھ دیں ۔۔۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ مرکزی رخ کے دروازے 'باب مصطفیٰ کمال' اور 'باب عشرت العباد' ہیں، جب کہ اس کے بعد 'باب لیاقت' ذرا آگے اور پھر عقب میں 'باب قائد'، جب کہ دوسری جانب والی گلی کے راستے کو 'باب پرویز مشرف' بنایا گیا ہے۔۔۔ یہ عمل براہ راست بانیان پاکستان کے مرتبے کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔

ہمارے خیال میں عوامی منصوبوں کو آج کل کے سیاسی راہ نماؤں سے منسوب ہونا ہی نہیں چاہیے، وہ بھی اس طریقے سے منسوب کرنا کہ آپ پانچ میں سے دو دروازے قائد اور لیاقت علی کے نام پر رکھیں اور باقی تین کو سیاسی ناموں پر بنا دیں، یہ اور بھی زیادہ غیرمناسب ہے۔ اسے ٹھیک کیا جانا چاہیے اور قومی سطح پر باقاعدہ اس شعور کو بھی اجاگر کرنا چاہیے کہ قومی پرچم اور قومی راہ بروں کو ہر سیاسی پرچم اور سیاسی قائد سے بلند تر رکھا جائے کہ یہی ان کے وقار اور مرتبے کا تقاضا ہے۔

۔۔۔

یونین طلبہ کا بنیادی حق ہے!
کائنات فاروق، کراچی

موروثی سیاست، ان پڑھ حکم راں، جاگیردارانہ نظام اور بہت سے سیاسی مسائل کی وجہ ملک میں طلبہ یونین پر پابندی بھی ہے، جو ہر طالب علم کا آئینی حق ہے، جس کا ضامن دستور پاکستان کا آرٹیکل نمبر 17 ہے۔ بدقسمتی سے طلبہ یونین کے خلاف یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان یونین سے پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں میں شر اور فساد پیدا ہوتا ہے، جو کہ ایک غلط تاثر ہے، ہے تاثر نوجوان طبقے خاص طور پر طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے سازش کے طور پر دیا گیا ہے۔

طلبہ یونین اور طلبہ سیاست دوسرے غیر نصابی سرگرمیوں کی طرح کی ایک سرگرمی ہے، جس سے طلبہ کی سیاسی تربیت ہوتی ہے۔ ان یونین سے طلبہ کو جمہوری پریکٹس کا موقع ملتا ہے، طلبہ کو مثبت بحث و مباحثے کا موقع فراہم ہوتا ہے، یونین طلبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مدد کرتی ہیں۔

اُن کو اظہار رائے کا طریقہ اور اختلاف رائے کا ڈھب سکھاتی ہے، طلبہ یونین مختلف علاقوں اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو متحد کرتی ہے اور اُن کو اپنے مطالبات پیش کرنے، قانونی طریقے سے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کی راہ دکھاتی ہے۔ اس کے علاوہ یونین طلبہ کو یک ساں طور پر انتخابی نظام سے آشنا کرواتی ہے اور انھیں قومی سیاست میں حصہ لینے کے یک ساں موقع فراہم کرتی ہے۔

تحریک پاکستان کے وقت 'آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن' اور 'مسلم گرلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن' نے پاکستان کا پیغام مختلف مطالعاتی حلقوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی طلبہ جمہوریت کی بقا کے لیے ہر دور میں پیش پیش رہے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے وقت جب ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی، تو اس وقت بھی طلبہ نے متحد ہو کر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور مارشل لا کا خاتمہ کیا۔

جنرل ضیا الحق نے مارشل لا کے دوران تشدد کو جواز بنا کر طلبہ یونین اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی، جس کا مقصد طلبہ کی اس قوت کو نقصان پہچانا تھا، جس کے ذریعے انھوں نے ایوب خان کی حکومت ختم کی تھی، 1993ء میں سپریم کورٹ نے بھی طلبہ یونین پر پابندی لگادی جس کے بعد یونینز تاحال بحال نہ ہو سکیں۔

گذشتہ کئی سالوں سے طلبہ اپنے اس آئینی حق کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ طلبہ ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں یونین کے حوالے سے مطالعاتی بیٹھکیں اور ریلیاں منعقد کر رہے ہیں، جس کے ذریعے یہ ایک طرف طلبہ کو اُن کے آئینی حقوق کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں، تو دوسری طرف ریاست پر طلبہ یونین کی بحالی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

طلبہ کو ملک کا مستقبل تصور کیا جاتا ہے، اگر ہم پاکستان کا مستقبل روشن اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مِل کر طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی، ریاست کو بھی یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ملک کی ترقی کے لیے طلبہ یونین کا وجود لازمی ہے، تا کہ طلبہ یونین کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور ان صلاحیتوں سے ملک کو فائدہ پہنچائیں۔

۔۔۔

''کہاں رہ گئی یہ زباں آتے آتے۔۔۔
امجد محمود چشتی، میاں چنوں

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کی زبان، اس کی اَسّاس اور پہچان ہوتی ہے، مگر زبان بذات خود اپنی اہمیت نہیں منوا سکتی، جب تک کہ زبان بولنے والی قوم کے لوگ اپنی خوبیوں، رویوں اور ترقی کی علامات کے ذریعے اپنا لوہا نہ منوا لیں۔ طاقت اور دبدبہ کسی زبان کے فروغ اور اُسے دوسروں پر مسلط کرنے کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔

جس قوم نے ترقی کی، اس کی زبان کا طوطی بھی بولتا رہا۔ مسلمانوں کے عروج کے ادوار میں عربی اور فارسی دفتری زبانیں تھیں۔ چین اور جاپان بھی اپنی زبانوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ انگریزوں کی ادبی، سائنسی اور معاشی ترقی نے انگریزی کو ایک مقام بخشا ہے۔ ادھر ہم محض درخشاں ماضی اور ادبی روایات کے باعث اردو کے عروج کی خواہش رکھتے ہیں۔

حیف کہ ہم اب تک اردو کے حروف تہجی کا تعین بھی نہ کر پائے ہیں۔ زانوئے تلمذ طے کرنے کا رواج نہیں، بلکہ بقول یوسفی درست تلفظ سن کر احباب کے بدکنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ہم نے سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت اور زراعت میں کون سے ہمالے فتح کیے ہیں کہ دنیا ہماری زبان کی محتاج ٹھیرے۔ قیام پاکستان سے ہی اردو کو قومیانے کی باتیں جاری ہیں اور عدلیہ نے بھی اردو رائج کرنے کا تحریری حکم ''انگریزی'' میں صادر کر رکھا ہے ۔

اشرافیہ اور عوام بول چال میں اردو اصطلاحات کے استعمال سے گریز، بلکہ شرم تک محسوس کرتے ہیں، جب کہ انگریزی ملاوٹ فخریہ کرتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اردو کی اصطلاحات اور تلفظ سے نابلد ہے۔ یہ صرف خواص کی زبان رہی ہے، تبھی تو اسے اردوئے معلی کہا جاتا تھا۔ یہ خسرو کی پہیلی اور غالب کی سہیلی ہے۔

میر کی ہم راز ہے، لہٰذا میر عام لوگوں سے بات کرنے سے احتراز کیا کرتے کہ کہیں زبان کے لہجے یا اسلوب کو زک نہ پہنچے۔ اگر ہم اردو کا نفاذ چاہتے ہیں، تو اسے اردوئے معلی کی بہ جائے، اردوئے محلہ، بنانا ہوگا۔ ہمارے روزمرہ معاملات میں کہیں بھی اردو کا مکمل استعمال نظر نہیں آتا اور نہ ہی دیگر زبانوں کی اصطلاحات کے متبادل موجود ہیں۔ کیا ہم دفتری و سماجی اصطلاحات کو اردو میں بدل کر عام بول چال کا حصہ بنانے میں عار تو محسوس نہیں کریں گے۔

کیا جب انگریزی اردو کی زد میں آجائے گی، تو ہر بار لوڈ شیڈنگ کو 'برقی تعطل' کہہ سکیں گے۔ پھر ٹی وی کو 'دور درشن' اور ویڈیو گیم کو 'بصری کھیل' کہنا ہوگا۔ ریڈیو 'آلۂ صوت' ہوگا اور لاؤڈ سپیکر مکبّر الصوت؟ باؤلر کو گیند باز اور بیٹس مین کو بلے باز کہیں گے؟ نہ جانے وکٹ اور وکٹ کیپر کے لیے کون سے الفاظ احاطہ کر پائیں گے۔ ایل بی ڈبلیو، ٹانگ قبل از کلی، کہلائے گا اور گول کیپر کو ،،محافظ مقام ادخال، کہا جائے گا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن، قومی کتابی بنیاد، ہوگی۔

پبلک اسکول عوامی مدرسہ، یونین کونسل متحدہ شوری، سول کورٹ، عدالت ہائے دیوانی اور چیف جسٹس، قاضی القضناۃ، جب کہ پبلک سروس کمیشن، شعبۂ عوامی ملازمت ہوگا۔ ٹیو ب لائٹ 'ضیائی نلکی' جب کہ 'انرجی سیور' محافظِ توانائی بن جائے گا۔ اگر کمپیوٹر کی ونڈو خراب ہوئی، تو بازار میں یوں مخاطب ہوں گے، بھائی میرے 'شمار کنندے' کا چوہا کام نہیں کر رہا، لگتا ہے اس کی 'کھڑکی' بدعنوان (کرپٹ) ہو کر اڑ گئی ہے، اب 'کھڑکی' سات کی تنصیب نو کروانا ہے۔

بینک کو بیت الزر کہہ لیں گے، مگر موبائل فون، سم اور پینا فلیکس کی بابت کچھ پریشانی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دیگر معاملات ِحیات کی طرح ہم نے ترویج اردو کے لیے بھی کچھ نہیں کیا، بلکہ اردو اسپیکنگ لوگ اور اساتذہ تک اردو کی صحت، لہجے اور اسلوب پر الٹا گراں گزرے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ داغ دہلوی نے کڑوا سچ بولا ؎

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

شاید اس لیے اتنی مدت بعد بھی اردو کا آنا نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے ہم بھی یہ سوال لیے ہی گزر جائیں گے کہ کوئی داغ سے پوچھ کر یہ بتا دے کہاں رہ گئی یہ زباں آتے آتے۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں