جنھیں دیکھ کر یاد آئے شہید
لاہور اور اطراف میں پھیلی محافظینِ وطن کی یادگاریں
لاہور شہر میں مشرق کی جانب نکل جائیں تو جلو، مناواں اور برکی کے آس پاس آپ کو بہت سی یادگاریں ملیں گی جو 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہونے والے ان جوانوں کی یاد میں بنائی گئی ہیں جن کی قربانیوں کی بدولت ہم آج آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں۔
اگر آپ ان جنگوں اور معرکوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار یہاں کا وزٹ ضرور کریں۔
لاہور سے نکلتے ہی پہلی یادگار مناواں کے مقام پر ہے جو مناواں اسپتال کے بالکل عقب میں بنی ہے۔ یہ ''یادگار شہدا واہگہ سیکٹر'' کہلاتی ہے جو اصل میں تین مختلف یادگاروں کا ایک مجموعہ ہے۔
اس کی دیواروں پر جنگ و امن کے مختلف مناظر کی تصویر کشی انتہائی خوب صورتی سے کی گئی ہے۔
پہلی یادگار ایک کالے ماربل کے فرش پر ایک تکونی پتھر ہے جس پر یادگارِ شہدا لکھا ہوا ہے۔
اس سے کچھ آگے ایک اور یادگار ہے جہاں تین پتھر کے ستونوں پر 65 اور 71 کی جنگوں کے شہداء کے نام لکھے گئے ہیں جبکہ درمیانے پتھر پر "Teacious Ten" نامی ڈویژن کی تاریخ و قربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسی ڈویژن نے پینسٹھ کی جنگ میں دریائے راوی سے ہڈیارہ تک کے علاقے کا کام یابی سے دفاع کیا تھا۔ میجر راجہ عزیز بھٹی اس کا حصہ تھے۔
ان ستونوں کے اوپر نشان حیدر کا علامتی نشان بنایا گیا ہے۔
سامنے ایک اور پتھر پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آنے والے جوانوں کے نام لکھے ہیں۔
بالکل سائیڈ پر جو یادگار ہے وہی اصل اور پرانی یادگار ہے۔ سنگ مرمر کے چبوترے پر بنی یہ ایک گولی ہے جو پاکستانی جھنڈے کی مناسبت سے ایک چاند اور پانچ کونوں والے ستارے پر بنائی گئی ہے جس کی بنیاد پر لگے پتھر پر یہ عبارت تحریر ہے: تعمیر کنندگان فرسٹ بلوچ رجمنٹ کے آفیسرز اور تمام جوانوں کی طرف سے اپنے ان شہید رفقا کی یاد میں جنہوں نے مادر وطن کی حفاظت اور بقاء کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
اس کے پانچوں کونوں پر فاضلکا اور واہگہ سیکٹر کے زخمیوں اور شہداء کے نام بمعہ عہدہ، گاؤں اور ضلع لکھے گئے ہیں۔
یہاں ساتھ ہی ایک پرانی کینٹین بھی موجود ہے جس کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔
اس جگہ مختلف بورڈ لگے ہیں جن پر ستمبر 1965 کی جنگ میں بلوچ رجمنٹ کا کردار، بلوچ رجمنٹ سیاچن کے محاذ پر اور اقوام متحدہ مشن برائے لائیبیریا میں بلوچ رجمنٹ کی خدمات جیسے موضوعات پر تفصیلات لکھی گئی ہیں۔
یہ یادگار ایک عوامی مقام ہے۔ کوئی بھی اسے بغیر ٹکٹ کے دیکھ سکتا ہے۔
دوسری یادگار جلو موڑ کے پاس جی ٹی روڈ پر بی آر بی کینال کے پاس واقع ہے۔ یہ تیسری بٹالین، بلوچ رجمنٹ کی یادگار ہے جو معرکہ باٹاپور کی یاد میں بنائی گئی ہے۔
یہ ایک بڑے اور دو چھوٹے ستونوں پر مشتمل ہے جس کے بیچ والے پتھر پر مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہیں:
''اُن شہدا کی یاد میں جو جو پاک بھارت جنگ ستمبر 1965 میں کام آئے۔ اس راہ سے گزرنے والے ہم وطنو! اسلام کے ان سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے جاؤ جو اپنا سب کچھ قربان کر کے ہماری بقا کا سامان کر گئے۔
اطراف کے دونوں ستونوں پر بلوچ رجمنٹ کا نشان، اس علاقے کا نقشہ اور معرکہ باٹاپور کی تفصیل اردو اور انگریزی میں درج ہے جس مین پاک فوج نے دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے بی آر بی پر بنا پل اڑا دیا تھا۔
اسی کے پیچھے نہر کے ایک پرانے پل کا کچھ حصہ بھی موجود ہے۔
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
(میں تمہیں مرد مومن کا نشان بتلاتا ہوں کہ جب موت آئے تو اس کے ہونٹوں پر تبسم ہوتا ہے)
65 کی جنگ میں واہگہ سیکٹر جی ٹی روڈ اور بمبانوالی راوی بیدیاں نہر کی وجہ سے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی حفاظت بلوچ رجمنٹ کے سپرد تھی۔
6 ستمبر کی صبح نو بجے تک دشمن کا ایک دستہ ٹینکوں سمیت پیش قدمی کرتا ہوا اس پل سے چھ سو گز کے فاصلے پر پہنچ چکا تھا۔ دفاعی لحاظ سے بی آر بی پر بنے اس پل کو تباہ کرنا بہت ضروری تھا تاکہ دشمن کی پیش قدمی روکی جا سکے، پاکستانی انجنیئروں نے اس پل کو اڑانے کی بہت کوشش کی لیکن دشمن کی لگاتار فائرنگ کی وجہ سے کچھ حصہ ہی ناکارہ کر سکے۔
بروقت پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی آمد سے دشمن کی پیش قدمی روک دی گئی۔ اگرچہ پل پر قبضے کی دشمن کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں لیکن اس نے پل کو اپنی کڑی نگرانی میں رکھا۔
افواج پاکستان کی کڑی محنت و عزم سے 6 ستمبر کو رات ایک بجے یہ پل تباہ کر دیا گیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی دشمن نے آس پاس شدید حملے جاری رکھے لیکن باٹاپور کا 6 اور 7 ستمبر کا معرکہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اگر ہم اس پہلی اہم دفاعی جنگ میں ناکام ہو جاتے تو دشمن کی پیش قدمی کو روکنا ناممکن ہو جاتا۔
معرکہ باٹاپور میں جن شہداء نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں، جو غازی اپنی بھرپور قوت و ہمت سے لڑے اور یہاں کی عوام نے جس جرات و بہادری سے اپنی افواج کا ساتھ دیا اور ان کے شانہ بشانہ لڑے، ہم ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس یادگار سے ذرا آگے شمال میں بی آر بی نہر کے بھسین پُل پر جنگ اکہتر کی چھوٹی سی یادگار ہے جہاں ایک چبوترے پر نصب پتھر پہ مندرجہ ذیل الفاظ لکھے گئے ہیں؛
EFENDERS OF LAHORE 1971
4-16 DECEMBER - Punjab regiment attacked and captured Pul Kanjri post and village.
17 Dec. - Indians relaunched attack on Pul kanjri post & village.
18 Dec. - Company ex Punjab regiment launched an attack to recapture Pul Kanjri post and village.
SHUHADA - 32
Nishan-i-Haider - 1
Sitara-i-Jurrat - 1
Tamgha-i-Jurat - 3
لانس نائیک محمد محفوظ شہید بھی اسی مقام پر شہید ہوئے۔
محفوظ شہید نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کیا اور دشمن کی گولہ باری سے شدید زخمی ہونے کے باوجود غیر مسلح حالت میں دشمن کے بنکر میں گھس کر ہندوستانی فوجی کو دبوچ لیا۔ آپ نے سترہ دسمبر کو ایسی حالت میں جام شہادت نوش کیا کہ مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن ان کے ہاتھوں کے آہنی شکنجے میں تھی۔ اسی بہادری کے اعتراف میں انہیں نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔
اس علاقے کی آخری یادگار برکی میں ہے جو لاہور کا مضافاتی قصبہ ہے۔ برکی 1965 کی جنگ میں ایک اہم علاقہ بن کر ابھر۔
چھ ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
حالاںکہ دشمن اس طرف زوردار حملے کر رہا تھا لیکن میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سیکٹر میں ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا۔ انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔
دشمن کے ایک اور زبردست حملے کے دوران ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ آپ کی شجاعت کے لیے آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز، نشانِ حیدر دیا گیا۔
برکی کے پاس آپ کے مقامِ شہادت پر ایک یادگار بنائی گئی ہے جہاں اللہ پاک کے صفاتی نام، محافظِ لاہور میجر عزیز بھٹی شہید کی تصویر اور ساتھ پاک و ہند کے اس معرکے میں شہید ہونے والے حیدری بٹالین کے دیگر افسروں کے نام لکھے گئے ہیں۔
ایک کونے میں معرکے کی تفصیل درج ہے جب کہ اوپر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس پرچم کی معراج آج بھی شہدا کے خون سے قائم ہے۔
اہلِ لاہور ستمبر اور اگست کے دنوں میں اِن شہداء اور اُن کی لازوال قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے جاتے ہیں۔
اگر آپ ان جنگوں اور معرکوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار یہاں کا وزٹ ضرور کریں۔
لاہور سے نکلتے ہی پہلی یادگار مناواں کے مقام پر ہے جو مناواں اسپتال کے بالکل عقب میں بنی ہے۔ یہ ''یادگار شہدا واہگہ سیکٹر'' کہلاتی ہے جو اصل میں تین مختلف یادگاروں کا ایک مجموعہ ہے۔
اس کی دیواروں پر جنگ و امن کے مختلف مناظر کی تصویر کشی انتہائی خوب صورتی سے کی گئی ہے۔
پہلی یادگار ایک کالے ماربل کے فرش پر ایک تکونی پتھر ہے جس پر یادگارِ شہدا لکھا ہوا ہے۔
اس سے کچھ آگے ایک اور یادگار ہے جہاں تین پتھر کے ستونوں پر 65 اور 71 کی جنگوں کے شہداء کے نام لکھے گئے ہیں جبکہ درمیانے پتھر پر "Teacious Ten" نامی ڈویژن کی تاریخ و قربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسی ڈویژن نے پینسٹھ کی جنگ میں دریائے راوی سے ہڈیارہ تک کے علاقے کا کام یابی سے دفاع کیا تھا۔ میجر راجہ عزیز بھٹی اس کا حصہ تھے۔
ان ستونوں کے اوپر نشان حیدر کا علامتی نشان بنایا گیا ہے۔
سامنے ایک اور پتھر پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آنے والے جوانوں کے نام لکھے ہیں۔
بالکل سائیڈ پر جو یادگار ہے وہی اصل اور پرانی یادگار ہے۔ سنگ مرمر کے چبوترے پر بنی یہ ایک گولی ہے جو پاکستانی جھنڈے کی مناسبت سے ایک چاند اور پانچ کونوں والے ستارے پر بنائی گئی ہے جس کی بنیاد پر لگے پتھر پر یہ عبارت تحریر ہے: تعمیر کنندگان فرسٹ بلوچ رجمنٹ کے آفیسرز اور تمام جوانوں کی طرف سے اپنے ان شہید رفقا کی یاد میں جنہوں نے مادر وطن کی حفاظت اور بقاء کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
اس کے پانچوں کونوں پر فاضلکا اور واہگہ سیکٹر کے زخمیوں اور شہداء کے نام بمعہ عہدہ، گاؤں اور ضلع لکھے گئے ہیں۔
یہاں ساتھ ہی ایک پرانی کینٹین بھی موجود ہے جس کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔
اس جگہ مختلف بورڈ لگے ہیں جن پر ستمبر 1965 کی جنگ میں بلوچ رجمنٹ کا کردار، بلوچ رجمنٹ سیاچن کے محاذ پر اور اقوام متحدہ مشن برائے لائیبیریا میں بلوچ رجمنٹ کی خدمات جیسے موضوعات پر تفصیلات لکھی گئی ہیں۔
یہ یادگار ایک عوامی مقام ہے۔ کوئی بھی اسے بغیر ٹکٹ کے دیکھ سکتا ہے۔
دوسری یادگار جلو موڑ کے پاس جی ٹی روڈ پر بی آر بی کینال کے پاس واقع ہے۔ یہ تیسری بٹالین، بلوچ رجمنٹ کی یادگار ہے جو معرکہ باٹاپور کی یاد میں بنائی گئی ہے۔
یہ ایک بڑے اور دو چھوٹے ستونوں پر مشتمل ہے جس کے بیچ والے پتھر پر مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہیں:
''اُن شہدا کی یاد میں جو جو پاک بھارت جنگ ستمبر 1965 میں کام آئے۔ اس راہ سے گزرنے والے ہم وطنو! اسلام کے ان سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے جاؤ جو اپنا سب کچھ قربان کر کے ہماری بقا کا سامان کر گئے۔
اطراف کے دونوں ستونوں پر بلوچ رجمنٹ کا نشان، اس علاقے کا نقشہ اور معرکہ باٹاپور کی تفصیل اردو اور انگریزی میں درج ہے جس مین پاک فوج نے دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے بی آر بی پر بنا پل اڑا دیا تھا۔
اسی کے پیچھے نہر کے ایک پرانے پل کا کچھ حصہ بھی موجود ہے۔
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
(میں تمہیں مرد مومن کا نشان بتلاتا ہوں کہ جب موت آئے تو اس کے ہونٹوں پر تبسم ہوتا ہے)
65 کی جنگ میں واہگہ سیکٹر جی ٹی روڈ اور بمبانوالی راوی بیدیاں نہر کی وجہ سے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی حفاظت بلوچ رجمنٹ کے سپرد تھی۔
6 ستمبر کی صبح نو بجے تک دشمن کا ایک دستہ ٹینکوں سمیت پیش قدمی کرتا ہوا اس پل سے چھ سو گز کے فاصلے پر پہنچ چکا تھا۔ دفاعی لحاظ سے بی آر بی پر بنے اس پل کو تباہ کرنا بہت ضروری تھا تاکہ دشمن کی پیش قدمی روکی جا سکے، پاکستانی انجنیئروں نے اس پل کو اڑانے کی بہت کوشش کی لیکن دشمن کی لگاتار فائرنگ کی وجہ سے کچھ حصہ ہی ناکارہ کر سکے۔
بروقت پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی آمد سے دشمن کی پیش قدمی روک دی گئی۔ اگرچہ پل پر قبضے کی دشمن کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں لیکن اس نے پل کو اپنی کڑی نگرانی میں رکھا۔
افواج پاکستان کی کڑی محنت و عزم سے 6 ستمبر کو رات ایک بجے یہ پل تباہ کر دیا گیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی دشمن نے آس پاس شدید حملے جاری رکھے لیکن باٹاپور کا 6 اور 7 ستمبر کا معرکہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اگر ہم اس پہلی اہم دفاعی جنگ میں ناکام ہو جاتے تو دشمن کی پیش قدمی کو روکنا ناممکن ہو جاتا۔
معرکہ باٹاپور میں جن شہداء نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں، جو غازی اپنی بھرپور قوت و ہمت سے لڑے اور یہاں کی عوام نے جس جرات و بہادری سے اپنی افواج کا ساتھ دیا اور ان کے شانہ بشانہ لڑے، ہم ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس یادگار سے ذرا آگے شمال میں بی آر بی نہر کے بھسین پُل پر جنگ اکہتر کی چھوٹی سی یادگار ہے جہاں ایک چبوترے پر نصب پتھر پہ مندرجہ ذیل الفاظ لکھے گئے ہیں؛
EFENDERS OF LAHORE 1971
4-16 DECEMBER - Punjab regiment attacked and captured Pul Kanjri post and village.
17 Dec. - Indians relaunched attack on Pul kanjri post & village.
18 Dec. - Company ex Punjab regiment launched an attack to recapture Pul Kanjri post and village.
SHUHADA - 32
Nishan-i-Haider - 1
Sitara-i-Jurrat - 1
Tamgha-i-Jurat - 3
لانس نائیک محمد محفوظ شہید بھی اسی مقام پر شہید ہوئے۔
محفوظ شہید نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کیا اور دشمن کی گولہ باری سے شدید زخمی ہونے کے باوجود غیر مسلح حالت میں دشمن کے بنکر میں گھس کر ہندوستانی فوجی کو دبوچ لیا۔ آپ نے سترہ دسمبر کو ایسی حالت میں جام شہادت نوش کیا کہ مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن ان کے ہاتھوں کے آہنی شکنجے میں تھی۔ اسی بہادری کے اعتراف میں انہیں نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔
اس علاقے کی آخری یادگار برکی میں ہے جو لاہور کا مضافاتی قصبہ ہے۔ برکی 1965 کی جنگ میں ایک اہم علاقہ بن کر ابھر۔
چھ ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
حالاںکہ دشمن اس طرف زوردار حملے کر رہا تھا لیکن میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سیکٹر میں ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا۔ انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔
دشمن کے ایک اور زبردست حملے کے دوران ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ آپ کی شجاعت کے لیے آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز، نشانِ حیدر دیا گیا۔
برکی کے پاس آپ کے مقامِ شہادت پر ایک یادگار بنائی گئی ہے جہاں اللہ پاک کے صفاتی نام، محافظِ لاہور میجر عزیز بھٹی شہید کی تصویر اور ساتھ پاک و ہند کے اس معرکے میں شہید ہونے والے حیدری بٹالین کے دیگر افسروں کے نام لکھے گئے ہیں۔
ایک کونے میں معرکے کی تفصیل درج ہے جب کہ اوپر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس پرچم کی معراج آج بھی شہدا کے خون سے قائم ہے۔
اہلِ لاہور ستمبر اور اگست کے دنوں میں اِن شہداء اور اُن کی لازوال قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے جاتے ہیں۔