افغانستان کی صورتحال پر شیری رحمان اور شیریں مزاری کی رائے یکساں کیوں
جتنی افغانستان کی آبادی نہیں، اس سے زیادہ تو افغان امور کے ماہر پاکستان میں موجود ہیں
ISLAMABAD:
جولائی کا آغاز ہوتے ہی امریکی اوراتحادی افواج جیسے جیسے افغانستان چھوڑنے لگیں اور افغانستان میں طالبان طاقت حاصل کرنے لگے تو ہر طرف لوگ افغانستان کے مستقبل پر بات کرنے اور اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگے۔ میرے صحافی دوست اور افغانستان میں جیل کاٹ کر آنے والے فیض اللہ نے ایک دن پریس کلب میں گپ شپ کے دوران کہا کہ جتنی افغانستان کی آبادی نہیں، اس سے زیادہ تو افغان امور کے ماہر پاکستان میں موجود ہیں۔
ویسے صورتحال بھی یہی تھی کہ جس کو افغانی پلاؤ کا بھی نہیں پتا تھا، وہ افغانوں کی سیاسی سوجھ بوجھ پر اپنی رائے دے رہا تھا۔ اسی طرح ٹی وی شوز میں افغانستان پر جو مباحثے ہورہے تھے، وہ ریٹنگ کےلیے تو بہتر ہوسکتے تھے مگر کسی مستحکم رائے عامہ کو قائم کرنے میں کسی بھی طرح معاون ثابت نہیں ہوسکتے تھے۔
ایسے میں پاکستان کارپوریٹ گروپ نے افغانستان کانفرنس کے عنوان سے دو الگ الگ آن لائن مذاکروں کا اہتمام کیا جن میں سیاستدانوں، سفارت کاروں، سابق فوجی افسران اور اکیڈمیا سے تعلق رکھنے والے ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے شرکت کی۔ افغانستان کانفرنس کے پہلے سیشن میں پاکستان کی امریکا میں سابق سفیر اورسینٹ کے خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کی سربراہ سینیٹر شیریں رحمان اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری موجود تھیں۔
مجھے محسوس ہوا کہ اس مذاکرے میں طالبان کے افغانستان کے حوالے سے دو انتہائی اور الگ الگ نقطہ ہائے نظر سننے کو ملیں گے۔
شیریں رحمان کا رویہ پردے کے بارے میں کیسا ہے؟ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب بطور نائب صدر کراچی یونین آف جرنلٹس میں نے پہلے ویمن جرنلسٹس کنونشن کا اہتمام کیا اور شیریں رحمان صاحبہ کو اس میں بطور مہمان خصوصی مدعوکیا۔
پروگرام میں شیریں رحمان کا استقبال کرنے کےلیے میرے ساتھ خاتون نائب صدر صوفیہ یزدانی موجود تھیں جنہیں متعدد اے پی این ایس ایوارڈز کے علاوہ صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ مگر انہیں دیکھتے ہی شیریں رحمان کے تیور بدل گئے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ شیریں رحمان نے صوفیہ یزدانی سے ہاتھ ملانے، شیلڈ وصول کرنے اور ساتھ بیٹھنے سے انکارکرتے ہوئے اسٹیج پر ذرا دور بیٹھی ہماری ساتھی سبین آغا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
خیر، حالیہ آن لائن کانفرنس میں دوسری جانب شیریں مزاری تھیں جنہوں نے حکومت اور تحریک طالبان کے ساتھ سوات میں شریعت قائم کرنے کے معاہدے کی حمایت کی تھی۔
دونوں خواتین کے اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کانفرنس میں آن لائن شرکت کی۔ مگر شیریں رحمان کی گفتگو میں طالبان حکومت کے قیام کےحوالے کوئی زیادہ شدت پسندانہ رویہ سامنے نہ آیا، بلکہ انہوں نے نہایت نپے تلے انداز میں اپنا مؤقف سامنے رکھا۔
حیران کن طور پر شیریں رحمان نے طالبان کے خلاف بات کرنے کے بجائے طالبان حکومت کے قیام اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات پر بات کی۔ شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ کابل میں حکومت کا ڈرامائی خاتمہ اور طالبان کے حکومت میں آنے پر دنیا حیران ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ تبدیلی کو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔
کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہونا اس صدی کا تیز رفتارترین رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ خطے میں ایک سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ خطے کے استحکام کےلیے افغانستان کی صورتحال اہم ہے۔ افغانستان میں اندرونی امن و استحکام پاکستان کےلیے بھی اہم ہے۔
افغانستان ہمارے لیے اہم کیوں ہے؟ دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور جو کچھ بھی افغانستان میں ہوتا ہے، اس کا اثر پاکستان خصوصاً کراچی پر پڑتا ہے۔ کراچی دنیا میں سب سے زیادہ پشتون آبادی والا شہر ہے۔ کابل اور پشاور سے زیادہ پشتون کراچی میں آباد ہیں۔
اُدھر شیریں مزاری نے کھل کر طالبان کے مؤقف پر بات کی اور کہا کہ یورپ میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں مسلم خواتین کو سر ڈھانپنے کا حق نہیں۔ ہرملک کا اپنا قانون ہے، اوراگر طالبان خواتین کو سر ڈھانپ کر تعلیم اور زندگی کے دیگر امور میں شامل ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو اس احترام ہوناچاہیے۔
مزید یہ کہ طالبان حکومت کے قیام اور ان کے اقدامات کے حوالے سے فوری ردعمل کے بجائے انہیں وقت دینا چاہیے اور ''دیکھو اور انتظار'' کرو کی پالیسی اپنانی چاہیے۔
دونوں خواتین سیاست دان اس بات پر متفق تھیں کہ امریکا نے طالبان سےمذاکرات میں دیر کی ہے جبکہ امریکی حمایت سے قائم افغان حکومت عوام میں مقبولیت قائم نہیں کر پائی، اسی وجہ سے وہ ختم ہوگئی۔
شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو 2010 میں مشورہ دیا کہ افغانستان میں مذاکرات کرے مگر امریکا نے انکار کردیا۔ اس وقت صورتحال امریکا کے حق میں تھی۔ مگر جب امریکا نے مذاکرات شروع کیے، اس وقت تک طالبان افغانستان پر اپنا اثر رسوخ قائم کرچکے تھے۔
دوحہ کا معاہدہ، امن معاہدہ نہیں بلکہ امریکی افواج کے انخلاء کا معاہدہ ہے۔ شیریں مزاری بھی اس بات سے متفق تھیں کہ امریکا نے بروقت مذاکرات نہیں کیے۔ اگر امریکا مزید چھ ماہ بھی رہ جاتا تو تب بھی حالات اس سے مختلف نہ ہوتے۔ جیسا افغانستان میں ہوا، ویسا ہی 1959 میں امریکا کو کیوبا میں تجربہ ہوا۔ امریکا نے بدعنوان حکومت کو سپورٹ کیا۔ کوئی انفراسٹرکچر نہیں بنا۔
افغانستان میں حکومت کے قیام اور دیگر معاملات پر دونوں خواتین سیاستدانوں کے خیالات ایک جیسے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کو مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ شیریں رحمان کے مطابق، 2001 میں جو فیصلہ کیا گیا تھا، وہ اب تک ہمیں متاثر کررہا ہے۔
تبدیلی کےلیے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہوجاتے ہیں۔ 2008 میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں کم سے کم مداخلت کرے گا۔ پاکستان، افغانستان کی اندرونی سیاست میں حصہ نہیں لے گا۔ اس پالیسی پر آنے والی تمام حکومتوں نے عمل کیا اور آج بھی پاکستان افغانستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت نہیں کررہا۔
شیریں مزاری بھی اس بات پر متفق تھیں کہ پاکستان کو افغانستان میں امن کے قیام میں معاونت تو کرنا چاہیے مگر حکومت سازی یا اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت کرنے کے بجائے مقامی سیاست کو پنپنے کا موقع فراہم کرناچاہیے۔ ہمیں افغانستان کے نئے حکمرانوں یعنی طالبان پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہ تھاحاصل بحث اس تمام گفتگو کا۔
شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان 20 سال امریکا کی کالونی رہا مگر افغانستان کو خود کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ کابل کے مسائل کا حل فوجی نہیں۔ طالبان افغانستان کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں، یہ ان کی مرضی ہے۔ طالبان نے بہت ہی اہم بیانیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خواتین کو حقوق دیں گے اور اپنی زمین کو دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھی اپوریشن اور حکومت کی نمائندہ دونوں خواتین میں اتفاق پایا گیا کہ پاکستان کو افغانستان کی حکومت تسلیم کرنے میں جلد بازی سے کام لینے کے بجائے خطے کے دیگر ملکوں خصوصاً چین اور روس کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ مگرپاکستان کو افغانستان میں انسانی حالات کو مخدوش ہونے سے بچانے کےلیے غذا، ادویہ اور دیگر ضروری استعمال کی دیگر اشیاء فراہم کرنا ہوں گی۔
طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اپنی زمین استعمال نہ ہونے کا بیان اہم ہے۔ طالبان نے ٹی ٹی پی کو اپنی زمین استعمال نہ کرنے کا کہا ہے۔ بھارت نے ٹی ٹی پی کو سپورٹ کیا (سابقہ حکومت کے دور میں)۔ چین کےلیے بھی اپنے علاقوں میں دہشت گردی کے مسائل ہیں۔ طالبان کے بیانات اب تک حوصلہ افزاء ہیں۔
پاکستان کو اپنے خطے کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر طالبان نے دہشت گردی پر اپنے وعدے پورے کیے تو سی پیک پر عمل ہوگا۔ تمام ملکوں کےلیے بیلٹ اینڈ روڈ میں بہت سے مواقع ہیں بشرطیکہ اسے مثبت انداز میں دیکھا جائے اور طالبان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مذاکرات اور وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے۔
ماضی میں طالبان کے اپنے مفادات اور متوقع فوائد تھے جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ایک اچھا سیاسی کھیل کھیلا اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ دونوں خواتین سیاستدانوں میں جو اتفاق رائے اس مذاکرے میں دیکھنے میں آیا ہے، وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں باہمی سیاسی اختلاف کے باجود سیاست دان ملکی مفاد میں ایک جیسی سوچ رکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جولائی کا آغاز ہوتے ہی امریکی اوراتحادی افواج جیسے جیسے افغانستان چھوڑنے لگیں اور افغانستان میں طالبان طاقت حاصل کرنے لگے تو ہر طرف لوگ افغانستان کے مستقبل پر بات کرنے اور اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگے۔ میرے صحافی دوست اور افغانستان میں جیل کاٹ کر آنے والے فیض اللہ نے ایک دن پریس کلب میں گپ شپ کے دوران کہا کہ جتنی افغانستان کی آبادی نہیں، اس سے زیادہ تو افغان امور کے ماہر پاکستان میں موجود ہیں۔
ویسے صورتحال بھی یہی تھی کہ جس کو افغانی پلاؤ کا بھی نہیں پتا تھا، وہ افغانوں کی سیاسی سوجھ بوجھ پر اپنی رائے دے رہا تھا۔ اسی طرح ٹی وی شوز میں افغانستان پر جو مباحثے ہورہے تھے، وہ ریٹنگ کےلیے تو بہتر ہوسکتے تھے مگر کسی مستحکم رائے عامہ کو قائم کرنے میں کسی بھی طرح معاون ثابت نہیں ہوسکتے تھے۔
ایسے میں پاکستان کارپوریٹ گروپ نے افغانستان کانفرنس کے عنوان سے دو الگ الگ آن لائن مذاکروں کا اہتمام کیا جن میں سیاستدانوں، سفارت کاروں، سابق فوجی افسران اور اکیڈمیا سے تعلق رکھنے والے ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے شرکت کی۔ افغانستان کانفرنس کے پہلے سیشن میں پاکستان کی امریکا میں سابق سفیر اورسینٹ کے خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کی سربراہ سینیٹر شیریں رحمان اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری موجود تھیں۔
مجھے محسوس ہوا کہ اس مذاکرے میں طالبان کے افغانستان کے حوالے سے دو انتہائی اور الگ الگ نقطہ ہائے نظر سننے کو ملیں گے۔
شیریں رحمان کا رویہ پردے کے بارے میں کیسا ہے؟ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب بطور نائب صدر کراچی یونین آف جرنلٹس میں نے پہلے ویمن جرنلسٹس کنونشن کا اہتمام کیا اور شیریں رحمان صاحبہ کو اس میں بطور مہمان خصوصی مدعوکیا۔
پروگرام میں شیریں رحمان کا استقبال کرنے کےلیے میرے ساتھ خاتون نائب صدر صوفیہ یزدانی موجود تھیں جنہیں متعدد اے پی این ایس ایوارڈز کے علاوہ صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ مگر انہیں دیکھتے ہی شیریں رحمان کے تیور بدل گئے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ شیریں رحمان نے صوفیہ یزدانی سے ہاتھ ملانے، شیلڈ وصول کرنے اور ساتھ بیٹھنے سے انکارکرتے ہوئے اسٹیج پر ذرا دور بیٹھی ہماری ساتھی سبین آغا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
خیر، حالیہ آن لائن کانفرنس میں دوسری جانب شیریں مزاری تھیں جنہوں نے حکومت اور تحریک طالبان کے ساتھ سوات میں شریعت قائم کرنے کے معاہدے کی حمایت کی تھی۔
دونوں خواتین کے اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کانفرنس میں آن لائن شرکت کی۔ مگر شیریں رحمان کی گفتگو میں طالبان حکومت کے قیام کےحوالے کوئی زیادہ شدت پسندانہ رویہ سامنے نہ آیا، بلکہ انہوں نے نہایت نپے تلے انداز میں اپنا مؤقف سامنے رکھا۔
حیران کن طور پر شیریں رحمان نے طالبان کے خلاف بات کرنے کے بجائے طالبان حکومت کے قیام اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات پر بات کی۔ شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ کابل میں حکومت کا ڈرامائی خاتمہ اور طالبان کے حکومت میں آنے پر دنیا حیران ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ تبدیلی کو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔
کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہونا اس صدی کا تیز رفتارترین رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ خطے میں ایک سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ خطے کے استحکام کےلیے افغانستان کی صورتحال اہم ہے۔ افغانستان میں اندرونی امن و استحکام پاکستان کےلیے بھی اہم ہے۔
افغانستان ہمارے لیے اہم کیوں ہے؟ دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور جو کچھ بھی افغانستان میں ہوتا ہے، اس کا اثر پاکستان خصوصاً کراچی پر پڑتا ہے۔ کراچی دنیا میں سب سے زیادہ پشتون آبادی والا شہر ہے۔ کابل اور پشاور سے زیادہ پشتون کراچی میں آباد ہیں۔
اُدھر شیریں مزاری نے کھل کر طالبان کے مؤقف پر بات کی اور کہا کہ یورپ میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں مسلم خواتین کو سر ڈھانپنے کا حق نہیں۔ ہرملک کا اپنا قانون ہے، اوراگر طالبان خواتین کو سر ڈھانپ کر تعلیم اور زندگی کے دیگر امور میں شامل ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو اس احترام ہوناچاہیے۔
مزید یہ کہ طالبان حکومت کے قیام اور ان کے اقدامات کے حوالے سے فوری ردعمل کے بجائے انہیں وقت دینا چاہیے اور ''دیکھو اور انتظار'' کرو کی پالیسی اپنانی چاہیے۔
دونوں خواتین سیاست دان اس بات پر متفق تھیں کہ امریکا نے طالبان سےمذاکرات میں دیر کی ہے جبکہ امریکی حمایت سے قائم افغان حکومت عوام میں مقبولیت قائم نہیں کر پائی، اسی وجہ سے وہ ختم ہوگئی۔
شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو 2010 میں مشورہ دیا کہ افغانستان میں مذاکرات کرے مگر امریکا نے انکار کردیا۔ اس وقت صورتحال امریکا کے حق میں تھی۔ مگر جب امریکا نے مذاکرات شروع کیے، اس وقت تک طالبان افغانستان پر اپنا اثر رسوخ قائم کرچکے تھے۔
دوحہ کا معاہدہ، امن معاہدہ نہیں بلکہ امریکی افواج کے انخلاء کا معاہدہ ہے۔ شیریں مزاری بھی اس بات سے متفق تھیں کہ امریکا نے بروقت مذاکرات نہیں کیے۔ اگر امریکا مزید چھ ماہ بھی رہ جاتا تو تب بھی حالات اس سے مختلف نہ ہوتے۔ جیسا افغانستان میں ہوا، ویسا ہی 1959 میں امریکا کو کیوبا میں تجربہ ہوا۔ امریکا نے بدعنوان حکومت کو سپورٹ کیا۔ کوئی انفراسٹرکچر نہیں بنا۔
افغانستان میں حکومت کے قیام اور دیگر معاملات پر دونوں خواتین سیاستدانوں کے خیالات ایک جیسے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کو مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ شیریں رحمان کے مطابق، 2001 میں جو فیصلہ کیا گیا تھا، وہ اب تک ہمیں متاثر کررہا ہے۔
تبدیلی کےلیے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہوجاتے ہیں۔ 2008 میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں کم سے کم مداخلت کرے گا۔ پاکستان، افغانستان کی اندرونی سیاست میں حصہ نہیں لے گا۔ اس پالیسی پر آنے والی تمام حکومتوں نے عمل کیا اور آج بھی پاکستان افغانستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت نہیں کررہا۔
شیریں مزاری بھی اس بات پر متفق تھیں کہ پاکستان کو افغانستان میں امن کے قیام میں معاونت تو کرنا چاہیے مگر حکومت سازی یا اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت کرنے کے بجائے مقامی سیاست کو پنپنے کا موقع فراہم کرناچاہیے۔ ہمیں افغانستان کے نئے حکمرانوں یعنی طالبان پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہ تھاحاصل بحث اس تمام گفتگو کا۔
شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان 20 سال امریکا کی کالونی رہا مگر افغانستان کو خود کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ کابل کے مسائل کا حل فوجی نہیں۔ طالبان افغانستان کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں، یہ ان کی مرضی ہے۔ طالبان نے بہت ہی اہم بیانیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خواتین کو حقوق دیں گے اور اپنی زمین کو دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھی اپوریشن اور حکومت کی نمائندہ دونوں خواتین میں اتفاق پایا گیا کہ پاکستان کو افغانستان کی حکومت تسلیم کرنے میں جلد بازی سے کام لینے کے بجائے خطے کے دیگر ملکوں خصوصاً چین اور روس کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ مگرپاکستان کو افغانستان میں انسانی حالات کو مخدوش ہونے سے بچانے کےلیے غذا، ادویہ اور دیگر ضروری استعمال کی دیگر اشیاء فراہم کرنا ہوں گی۔
طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اپنی زمین استعمال نہ ہونے کا بیان اہم ہے۔ طالبان نے ٹی ٹی پی کو اپنی زمین استعمال نہ کرنے کا کہا ہے۔ بھارت نے ٹی ٹی پی کو سپورٹ کیا (سابقہ حکومت کے دور میں)۔ چین کےلیے بھی اپنے علاقوں میں دہشت گردی کے مسائل ہیں۔ طالبان کے بیانات اب تک حوصلہ افزاء ہیں۔
پاکستان کو اپنے خطے کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر طالبان نے دہشت گردی پر اپنے وعدے پورے کیے تو سی پیک پر عمل ہوگا۔ تمام ملکوں کےلیے بیلٹ اینڈ روڈ میں بہت سے مواقع ہیں بشرطیکہ اسے مثبت انداز میں دیکھا جائے اور طالبان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مذاکرات اور وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے۔
ماضی میں طالبان کے اپنے مفادات اور متوقع فوائد تھے جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ایک اچھا سیاسی کھیل کھیلا اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ دونوں خواتین سیاستدانوں میں جو اتفاق رائے اس مذاکرے میں دیکھنے میں آیا ہے، وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں باہمی سیاسی اختلاف کے باجود سیاست دان ملکی مفاد میں ایک جیسی سوچ رکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔