حکومت کی بنیاد عدل

سزا یافتہ ہونے کے باوجود کچھ سیاستدان کھل کر سیاست کر رہے ہیں۔


Syed Mohsin Kazmi September 19, 2021
[email protected]

OVIEDO, SPAIN: ایک زمانہ تھا ہمارا پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے زیر اثر آگیا تھا، اس میں مذہبی ، لسانی اور علاقائی تنظیمیں شامل تھیں اور حکومت کا حال یہ تھا ، وہ زیادہ سے زیادہ ان دہشت گردوں سے مذاکرات کرتی تھی۔ ادارے مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آئے روز ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہتا ، چھینا جھپٹی، چوری چکاری، لوٹ مار، بھتہ خوری نے عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ بس حال یہ تھا کہ عوام جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے باہر جاتے تھے ، سارا نظام زندگی بری طرح متاثر تھا۔ چاہے تعلیم ہو یا صحت ، پولیس ہو یا انتظامیہ۔ حکومت کی رٹ کہیں نہ تھی، یہ حال پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ادوار میں رہا۔

مسلم لیگ کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے فرائض منصبی بڑی ایمانداری سے انجام دیے ، اس لیے محکمہ پاسپورٹ اور نادرا میں مفاد عامہ کا بہترین کام ہوا۔ عوام کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی سہولتیں حاصل ہوئیں ، جب کہ بینظیر بھٹوکی شہادت کے بعد پی پی پی کی قیادت نے اس حقیقی سیاسی پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ، آج بھی بلاول بھٹو اپنے والد کے نہیں ، اپنے نانا کے کارنامے یاد کراتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی ہے ذوالفقارعلی بھٹو عظیم رہنما تھے انھوں نے پاکستان کو بہت کچھ دیا جوہری قوت بنا ڈالا۔ مغرب سے مقابلہ کیا اسٹیل مل جو ڈھاکا میں لگنے جارہی تھی، وہ کراچی میں لگوائی ، ان کے زمانے میں پانی، بجلی، گیس کی اتنی بدتر صورتحال نہ تھی۔ نہ مہنگائی کا سونامی تھا۔ ان کی خارجہ پالیسی آج بھی قابل تقلید ہے۔ ان کے ساتھی آج جو پی پی پی چھوڑ گئے دوسری جماعتوں میں ہیں وہ آج بھی اپنا سیاسی وزن رکھتے ہیں، اگر آصف علی زرداری بے نظیر کی شہادت کے بعد صرف پارٹی قیادت سنبھالتے اور پنجاب میں بیٹھ جاتے۔

صنم بھٹو کو پارٹی کا سربراہ بنا دیتے، مخدوم امین فہیم کو صدر مملکت بناتے۔ یوسف رضا گیلانی اور محمود قریشی کا نام بطور وزیراعظم، اپنے کالم میں، میں نے ان دنوں تجویزکیا تھا، اگر اس پر عمل ہوجاتا تو شاید آج بھی پی پی پی پورے پاکستان کی قومی پارٹی ہوتی۔

ایم کیو ایم سے اقتدارکی مفاہمت کا نقصان دونوں پارٹیوں کو ہوا پھر بلاول بھٹو کو پارٹی سربراہ بنانے میں بہت جلد بازی کی گئی۔ پی پی پی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو پہلی پاکستانی قومی سیاسی جمہوری پارٹی تھی جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں نہیں ، پنجاب میں رکھی تھی۔ اس جماعت میں 60 فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ بیرسٹر اور وکلا شامل تھے ، ایسی جماعت کا سربراہ بینظیر کی شہادت کے CE کمیٹی سے بنانا چاہیے تھا۔

آصف علی زرداری اچھی سیاسی جمہوری سوچ رکھتے ہیں انھیں CE کا پہلے ممبر بننا تھا اور بلاول بھٹو کو پہلے سندھ کی قیادت دینی تھی اگر یہ سب کچھ ہوتا تو آج نیب میں بہت کچھ بھگتنا نہ پڑتا۔ پی پی پی کو مغربی ملکوں میں جمہوری جماعت سمجھا جاتا ہے۔ میں نے پی پی پی کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے۔

رہی بات مسلم لیگ نواز کی ، یہ کبھی سیاسی جماعت نہ تھی بلکہ شریف فیملی لمیٹڈ کو طشت میں رکھ کر مسلم لیگ (جونیجو) دی گئی۔ پٹواری، کمشنر، پولیس کی طاقت ، طمع و لالچ سے پارٹی کو وسیع کیا گیا ۔ اس مسلم لیگ میں شفاف کردار کے بہت سے لوگ تھے جیسے خواجہ رفیق مرحوم، وہ سب اب کنارہ کش ہو گئے اور آج چوہدری نثار جیسے لوگ۔

ہمارے یہاں پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ اپنا سیاسی وجود کھو بیٹھی تھی کیونکہ وہ آئین نہ بنا سکی، 1958 میں جنرل ایوب نے مارشل لاء لگا دیا اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ 1962 کے صدارتی انتخابات میں قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو جبراً شکست دینے کے بعد مسلم لیگ جمہوری مزاج کے بجائے شاہی مزاج میں داخل ہوگئی اور آج تک وہی مزاج ہے۔

مسلم لیگ صرف پنجاب چاہتی تھی جس طرح آج کی موجودہ پی پی پی صرف سندھ چاہتی ہے ایسی جماعتیں قومی نہیں، علاقائی کہلاتی ہیں ، اگر آج بھی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت شریف فیملی کے علاوہ کسی اورکو قائد بنا لے تو شاید مسلم لیگ اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھ سکے۔

عمران خان نے آدھی سے زیادہ زندگی کھیل کے میدان میں گزاری اور خود کو سیاست سے دور رکھا لیکن 23 سال پہلے انھیں احساس ہوا کہ ہمارا ملک نام نہاد سیاستدان لوٹ کرکھا رہے ہیں ، لہٰذا انھوں نے سیاست میں قدم رکھا، کسی نے خوش آمدید نہ کہا مگر وہ دھن کے پکے نکلے، جب ایک قومی اسمبلی کی سیٹ تھی تب بھی ہمت نہ ہاری اور قدم بڑھاتے رہے مگر انھوں نے اپنی جماعت میں Cash Personality بہت زیادہ رکھا ہے۔ تنظیمی فقدان بہت ہے، ہر ایک اپنے مال و دولت، اثر و رسوخ کی بنیاد پر آ گے بڑھ رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان تو واقعی چاہتے ہیں کہ ملک سنور جائے، قرضہ ادا ہو جائے، غریبوں کو روٹی کپڑا مکان مل جائے، بجلی ، پانی ،گیس کی کمی کا خاتمہ ہو، مگر ان کے پاس ٹیم نہیں ہے۔ ان کے وژن کو لے کر چلنے والی موجودہ حکومت کے عوام پروجیکٹ کا کوئی اشتہارکوئی ڈاکیومنٹری کبھی عوام کو نہیں دکھلائی حالانکہ ڈیمزکے کام ، احساس پروگرام ، سستے مکانات کی اسکیم سب اچھے پروجیکٹ ہیں لیکن عوام ان سے بے خبر ہیں، اگر یہ عوام کو بتایا جا سکے Booklet ، اشتہارات اور PTV پر پروگرام دکھائیں تو عوام کو حکومت پر اعتماد ہوگا۔

تبدیلی کا احساس ہوگا ، ورنہ آنے والے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل نہ ہوگی۔ جس طرح ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا جس کی وجہ سے پورا ملک امن میں داخل ہوا، خاص طور پر کراچی میں امن بحال کرنے میں بڑا کردار تھا۔ آج بھی پاکستان کے داخلی اور خارجی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری فوج کو تیار رکھا ہوا ہے ان کی مورل سپورٹ بھی ریاست کو مضبوط کر رہی ہے۔

اب رہا معاملہ سیاستدانوں کی میگا کرپشن کا جو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ سزا یافتہ ہونے کے باوجود کچھ سیاستدان کھل کر سیاست کر رہے ہیں اس لیے راقم الحروف کی رائے میں عدالت عظمیٰ کے سر براہ کے تعاون کے بغیر حالات پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں