عورت اور قانون
ذہنیت پر معاملات ڈال کر اپنے فرائض سے ٹال مٹول کرنا اس حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے۔
''آپ جتنے مرضی قوانین بنالیں، جتنے مضبوط قوانین بنالیں، جب تک لوگوں کی ذہنیت نہیں بدلیں گے، آپ کیسے روک سکتے ہیں؟''
عورت کے تحفظ کے بارے میں یہ کہنا تھا ہیومن رائٹس کی ممبر اور پارلیمنٹیرین شیریں مزاری صاحبہ کا، یہ بات انھوں نے پارلیمنٹ میں کہی۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے کہیں سے نہیں لگا کہ وہ موجودہ حکومت کی وزیر ہیں بلکہ یہ لگ رہا تھا کہ وہ عورت کی عزت کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے لہجہ ، کیا اس طرح پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بات کی جاتی ہے جیسے انھوں نے کی؟
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ذہنیت پر نہیں، قانون کی پاسداری کو مدنظر رکھتے ہوئے اور جرائم کے خلاف سخت قوانین بنا کر مجرموں کا سدباب کرتے ہیں۔
اب اگر کسی عورت یا بچی کے ساتھ بدفعلی کرنے کے بعد ملزم قانون کی گرفت میں ٹھوس ثبوت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود عدالتوں کی پیشیوں اور ریمانڈ کے ایک طویل کارروائیوں میں اسے لے جا کر وقت کو بڑھایا جاتا ہے۔ اسی دوران عوام زیادتی ہونے والے واقعے کو بھول چکی ہوتی ہے اسی اثنا میں کیس کو اور مزید کھینچا جاتا ہے ، ہوتا یہ ہے کہ ملزم اپنی ضمانت کروا کر آزاد گھوم رہا ہوتا ہے لیکن ایسے عناصر کے لیے قانون سخت نہیں کیا جاتا ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں زیادتی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس عورت یا معصوم بچی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اس کو بہت بڑی خبر بنا کر پیش تو کیا جاتا ہے جس میں اس وکٹم کے معائنے کے چیک اپ سے لے کر زیادتی ہوئی یا نہیں ہوئی پر بحث کی جاتی ہے نہ کہ ملزم کو سرعام پھانسی دی جاتی ہے۔
پولیس یا عدالت کو ٹھوس ثبوت کی ویڈیوز اور ملزمان کی نشاندہی کے باوجود عدالت میں پیشیوں کی کیوں ضرورت پڑتی ہے۔ تھانوں میں جا کر وکٹمز کے خاندان کو کیوں ہزار چکر لگانے پڑتے ہیں؟ جب کہ ملزم گرفتار ہو چکا ہوتا ہے پیشی یا 14 دن کے ریمانڈ کی روایت کیوں برقرار رکھا گیا ہے؟ یہ سب ملزم کو چھوٹ دینے کے مترادف ہے جو ہوتا آیا ہے۔
ہمارے ملک میں عورت کے تحفظ کے حوالے سے بہت بڑے پیمانے پر سیمینار ہوتے ہیں جس میں وہ خواتین شامل ہوتی ہیں جن کو گاؤں اور پسماندہ گھرانے کی عورت کا مسئلہ پتا تو ہوتا ہے لیکن برسر حیثیت کے باوجود کوئی عملی کام سرانجام نہیں دے پاتیں۔ اس کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آئی۔
جتنے اسلام میں عورت کی عظمت اور تحفظ کے احکامات ہیں شاید ہی کسی اور مذہب میں ہوں گے لیکن ہمارے ملک میں صرف عورت کے حوالے سے ہر طرح کا قانون و ضوابط کمزور کردیے گئے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم نے ہر طرح کے مسائل دیکھے۔ وہ مسائل جن کا ایک عام پاکستانی شہری کی زندگی سے تعلق رہا ہے۔ براہ راست اثر پڑا ہے، لیکن ایک مسئلہ جو عالمی سطح کا رہا ہے جس میں پاکستان اسی مسئلے سے دوچار رہا ہے وہ ہے خواتین کے تحفظ کا مسئلہ۔
عورت کے تحفظ کی بات ہر دور میں ہر ملک میں کی جاتی ہے لیکن جب ہم اپنے ملک پاکستان میں یہ صورتحال دیکھتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کم دیکھا گیا ہے دور یا جمہوریت کوئی بھی ہو۔ ایک مضبوط کیس بنا کر ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔
ایک عورت جس پر 21 چاقوؤں کے وار کیے گئے مجرم 3 سال بعد رہا ہو گیا، وجہ یہ تھی کہ وہ ایک وکیل کا بیٹا ہے، تو پھر قانون کہاں ہے؟ اور اگر ہے تو کس پر لاگو ہوتا ہے؟
ہمارے ملک میں خواتین کے حوالے سے عزت اور جذباتیت بھی دیکھی گئی ہے۔ دل دکھانے والے حساس واقعات روزبروز دیکھتے دیکھتے عورت کو پستے ہوئے سالوں گزر گئے لیکن ہر دور کی آنے اور جانے والی حکومت نے عورت کے تحفظ پر سنجیدگی سے عملی کام نہیں کیا، صرف آفس فائلوں میں فہرست انڈیکس میں ڈال کر فائل کو آفس کی زینت بنایا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں اگر غیرت کی بات کی جائے تو غیرت کے نام پر قتل بھی کیے جاتے ہیں اور جب بے غیرتی حد کو چھونے لگے تو شوہر کے سامنے بیوی کی عزت لوٹ لی جاتی ہے، کہیں بچوں کے سامنے اس ماں کی عزت کو پامال کیا جاتا رہا ہے، پھر وہی معاشرہ غیرت اور عزت کی باتیں اور بحث کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔
بات یہیں نہیں ختم ہوتی، ٹھٹھہ شہر میں 14 سال کی معصوم بچی کی لاش کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کی گئی۔ بدفعلی کی حد تو یہ ہے کہ ایک بکری (جانور) کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ واقعہ اوکاڑہ میں ہوا جہاں مردوں نے بکری کا منہ، پاؤں باندھ کر بدفعلی کرتے رہے اور وہ بکری ان کی بدکاری کے نتیجے میں مرگئی۔
اب اگر ہم شیریں مزاری صاحبہ کی کہی ہوئی اس بات کو کوڈ کریں کہ ''ذہنیت'' تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا اگر ذہنیت کے بل بوتے پر چل رہی ہوتی تو قانون نہیں بنتے، نہ ہی لاگو ہوتے۔ ان جرائم کے خلاف جہاں انسان اور حیوان میں فرق کیا جائے۔ شیریں مزاری صاحبہ مزید یہ بھی بتا دیں کہ انھوں نے ذہنیت بدلنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے اور کریں گی؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب ضلع قصور، صدر پتوکی میں شوہر کے سامنے بیوی کے ساتھ 2 افراد نے زیادتی کی، اسی طرح چھ سال کی ماہم کو اغوا کرکے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، پاکستان کے ہر صوبے کے شہر اور گاؤں گلی کوچے، رکشہ، آفس، اسپتال حتیٰ کہ قبر بھی محفوظ نہیں، بہت معذرت کے ساتھ بات ذہنیت پر ڈال کر قانون پر عملدرآمد نہ کروانا موجودہ حکومت کی بڑی ناکامی ہے۔
اس حکومت میں بھی قانون کمزور ہیں یہی وجہ ہے کہ ذہنیت پر معاملات ڈال کر اپنے فرائض سے ٹال مٹول کرنا اس حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے اور اگر ذہنیت تبدیل کرنے کی بات ہے تو پھر ذہنیت پر کام کرنا بھی ان کے بس کی بات نہیں۔