بنیادی مسائل اور ان کا حل
کرپشن ہمارے معاشرے میں اس لیے پھل پھول رہی ہے کیونکہ اسے اب برا ہی نہیں سمجھا جاتا۔
گزشتہ دنوں ملک کے تمام کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔ یہ ایک اچھی جمہوری روش ہے، جسے برابر جاری رہنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے اسے ہر آمرانہ دور میں تو لازمی جاری رکھا جاتا ہے مگر جمہوری دور میں یہ عمل مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے انعقاد کا مقصد ان علاقوں میں رہائش پذیر عوام کے لیے بنیادی سہولیات کو احسن طریقے سے فراہم کرنا ہے۔ دیکھا جائے تو ملک کا کوئی ایسا شہر نہیں ہے جہاں کا بلدیاتی نظام عوامی خواہشات کے مطابق کام کر رہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شہر کا بلدیاتی نظام درہم برہم نظر آرہا ہے۔ بس ایسا ہی حال وہاں کے کنٹونمنٹ کے علاقوں کا بھی ہے۔
سڑکیں اگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو متعلقہ ادارے کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ صورت حال چلتی رہتی ہے پھر جب عوامی شکایتوں کے انبار لگ جاتے ہیں تو ان کی تعمیر و توسیع کے لیے فنڈز جاری کر دیے جاتے ہیں مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کام کاغذات کی حد تک تو مکمل کرلیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔
کرپشن ہمارے معاشرے میں اس لیے پھل پھول رہی ہے کیونکہ اسے اب برا ہی نہیں سمجھا جاتا، اسے اوپر کی کمائی کے طور پر قبول کرلیا جاتا ہے۔ سڑکوں کی طرح پانی کی فراہمی و نکاسی کو دیکھیں تو یہ نظام بھی ہر شہر میں بدترین صورت حال سے دوچار ہے۔ بجلی اور گیس کی فراہمی کا نظام بھی درہم برہم ہے۔ بجلی کی فراہمی کے مسئلے سے تو پورا ملک ہی چیخ رہا ہے اب گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوچکی ہے۔
صحت اور تعلیمی اداروں کا حال بھی تباہ ہے۔ ان تمام عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ہی بلدیاتی نمایندوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے نمایندوں کا انتخاب کرنا ضروری ہے ، جو اس سلسلے میں تجربہ رکھتے ہوں۔ وہ ایماندار بھی ہوں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے وقت بھی دے سکتے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات سیاسی انتخابات کی طرح کرائے جاتے ہیں جیسے کہ ان سے حکومت سازی کا عمل مکمل کرانا ہو۔
عام طور پر ان میں ایسے امیدواروں کو سیاسی پارٹیاں ٹکٹ دیتی ہیں جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہوں اور پارٹی کے لیے دل کھول کر چندہ دیتے ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے امیدوار کیا عوامی مسائل کا حل نکالیں گے اور بلدیاتی نظام کو چلائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کو سیاسی رنگ دینے کی وجہ سے یہ انتخابات سیاسی انتخابات بن کر رہ گئے ہیں۔
اب غورکیجیے کہ گزشتہ دنوں ملک میں منعقدہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کو عام انتخابات کی طرح سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے دیکھا گیا ہے کہ کس پارٹی کے کتنے امیدوار جیتے ہیں۔ کون سی پارٹی سب پر سبقت لے گئی اور کون سی پیچھے رہ گئی ہے۔ ان الیکشن میں تحریک انصاف کے ملک میں سب سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ، وہ اس کامیابی پر جشن منا رہی ہے۔
اکثر تجزیہ کار تحریک انصاف کی اس کامیابی پر اسے الرٹ ہونے یعنی خبردار رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ اس کی مدمقابل مسلم لیگ (ن) کو اس سے صرف تین نشستیں ہی کم ملی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ (ن) لیگ عام انتخابات تک یا آیندہ صوبائی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات تک اپنی پوزیشن کو بہتر بنا کر پی ٹی آئی سے آگے نکل سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کے پنجاب میں سب سے زیادہ امیدوار جیتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے پنجاب اس کی گرفت میں ہے۔ اس کے رہنما عوامی مسائل کو موضوع بحث بنا رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے عوام سخت پریشان ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے لیڈرز خاص طور پر مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت پر زور ڈال رہے ہیں مگر لگتا ہے تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو آگے بھی حل نہیں کرپائے گی کیونکہ اس نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا ہے وہ اس کی شرائط کو پورا کرنے کی پابند ہے۔
نئے وزیر خزانہ شوکت ترین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ملک کی تمام معاشی مشکلات کا منبع حکومت کا آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ ہے اس وقت عوام کی طرح حکومت بھی سخت مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کراچی کے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے دو مرتبہ دو بڑے پیکیجز کا اعلان کرچکے ہیں مگر افسوس کہ کسی پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
اس ٹال مٹول کا بہانہ یہ کیا جا رہا ہے کہ کراچی کے لیے جو بھی فنڈ فراہم کیا جائے گا وہ براہ راست حکومت سندھ کے پاس جائے گا اور چونکہ اس کے کرپشن کے چرچے عام ہیں چنانچہ وفاق اس خوف سے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر پا رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وفاق دراصل 18 ویں ترمیم میں ترمیم ہونے کا انتظار کر رہا ہے،تاکہ وہ صوبوں میں اپنی مرضی چلا سکے اور اس کے راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ مگر حکومت سندھ کے اس سلسلے میں سخت موقف کی وجہ سے لگتا ہے، ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک کراچی کے عوامی مسائل کا تعلق ہے تو وہ اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اب ان کا حل ہونا ناگزیر ہے۔
کراچی میں حالیہ الیکشن کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم پاکستان رہی ہے۔ اب کیا پی ٹی آئی کے امیدواروں کے اکثریت سے جیتنے سے کراچی کے مسائل حل ہو جائیں گے تو ایسا نہیں لگتا کیونکہ اس سیاسی جماعت کے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے سب سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے تھے تو کیا انھوں نے کراچی کے عوامی مسائل کو حل کرانے میں کوئی کردار ادا کیا؟ ان تمام کامیاب امیدواروں کے خود اپنے حلقوں میں بنیادی مسائل کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
کاش کہ کراچی والوں نے اپنے پرانے خدمت گار مصطفیٰ کمال کو یاد رکھا ہوتا تو یقینا عوامی مسائل کے حقیقی حل کی کوئی راہ نکل آتی۔ کئی تجزیہ کار یہ بات کہہ رہے ہیں ان کے مطابق مصطفیٰ کمال کی پارٹی پی ایس پی کو اب آیندہ شہری بلدیاتی انتخابات میں ضرور موقع دیا جانا چاہیے کیونکہ مصطفیٰ کمال اس شہر کے مسائل سے نمٹنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔